آہ! ملک فیض بخش بھی چل بسے
تحریر : سید نثار علی ترمذی
یہ تو صحیح بتا نہیں سکتا کہ ملک فیض بخش سے کب پہلی ملاقات ہوئی مگر ہے گزشتہ صدی کا قصہ۔ تیس سال سے زائد کا عرصہ ہے۔ اخری دو دہائیوں سے تو اس قدر قرب بڑھا کہ لگتا ہے کے ہے صدیوں سے واقفیت اور آشنائی تھی۔ ایک متدین، آگاہ اور باوقار شخصیت۔ ایسی شخصیت کے جن پاس طویل وقت گزارنے کے بعد بھی تشنگی کا احساس رہتا تھا۔ تنظیموں میں نئی نسل کی آمد سے آہستہ آہستہ بنیادی لوگ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ ناں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے ناں ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ۔
ملک فیض بخش کا نام تو سنا سنا تھا۔ کوئی ذکر کر ہی لیتا تھا۔ کسی اجلاس میں ملاقات ہو جاتی۔ قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم سے تعلق ان کا تعارف تھا۔ ان کے ہم عصر اپنی محفلوں میں “داماد ملت جعفریہ ” کے نام سے یاد کرتے تھے، دوسرا تعارف جامعہ جعفریہ گوجرانولہ کی مسئولیت کا تھا۔ میری کوئی تفصیلی بات نہیں ہو سکی تھی بس واجبی سا تعارف ہو گیا تھا۔ ایک دن اپنے سرکاری دفتر میں بیٹھا تھا کہ سیکشن آفیسر جناب غلام فرید چشتی صاحب نے پیغام بھیجا کہ ایک مہمان سے ملوانا ہے۔ وہاں ملک صاحب تشریف فرما تھے۔ وہ حیران ہوا کہ آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ پھر جو محفل جمی اس کا لطف اب یاد ہے۔ ملک صاحب نے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر وجیہ سیما عرفانی، جن کی مشہور غزل ہے: غنچہ شوق لگا ہے کھلنے پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے
جو مشہور گلوکار مہدی حسن نے گائی تھی کے بارے میں اپنی یاداشتیں بیان کرنے لگے۔ ملک صاحب ان کے قریبی حلقے میں تھے جبکہ چشتی صاحب ان کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ میری معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یوں تعارف کے دو پہلو ہو گئے۔ آپ ان دنوں ادارہ ثقافت اسلامیہ میں تھے اور مولانا حنیف ندوی اور سراج منیر بھی ان دنوں اسی ادارے میں تھے۔ مولانا محمد حنیف ندوی کے ساتھ ایک شام واپڈا آڈیٹوریم میں منائی گئی تھی۔ وہاں کی تقاریر سے ندوی صاحب کے علمی قد کاٹھ کا اندازہ ہوا جبک سراج منیر کے انتقال کے بعد ان کی خصوصیات کے بارے میں علم ہوا۔
بھر یہ اطلاع ملی کہ آپ نے ادارہ ثقافت اسلامیہ کو چھوڑ دیا اور اب مصباح القرآن ٹرسٹ میں کام کریں گے۔ وہاں کئی مرتبہ جانا ہوا جہاں آپ سے بھی کافی دیر بات ہوتی، آپ مصباح القرآن ٹرسٹ کے آئیندہ کے منصوبوں سے آگاہ کرتے۔ علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم اور ثاقب بھائی کے بعد ٹرسٹ کو ایک بار پھر پڑھے لکھے شخص کا میسر آنا خوش آئیند تصور کیا جارہا تھا۔ لیکن جلد ہی ان کو وہاں سے بھی جانا پڑا۔ محنت و قابلیت کبھی بھی سرمایہ کی نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ ثاقب اکبر، اخوت اکیڈمی سے لاہور تشریف لائے، ان کی مصروفیات میں آپ کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شرکت کرنا تھا۔ میں نے شادی میں شرکت سے معذرت کی مگر انہوں نے جواز تراشا کہ مجھے بمع فیملی شرکت کے دعوت ہے اور آپ کو میں اپنی فیملی کا حصہ سمجھتا ہوں اس لیے آپ بھی دعوت میں شامل ہیں۔ بحرحال دیگر مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد کافی تاخیر سے پہنچے تو بارات آ چکی تھی۔ جہاں دیگر شرکاء کے علاوہ بزرگ علماء کے ایک اچھی تعداد موجود تھی۔ نکاح علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب نے پڑھایا۔ مجھے دیکھتے ہی ملک صاحب بہت خوش ہوئے۔ مبارک باد دینے کے بعد رخصت لی۔ تین چار سال ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی کی محافل منعقد کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تو اس میں آپ کو بھی یاد رکھا گیا۔ آپ کے گھر کا ایڈریس اسی طرح یاد ہو گیا۔ میں جب بھی ملتا تو ایک ہی تقاضا کرتا کہ وہ مفتی جعفر حسین مرحوم پر اپنی یاداشتیں مرتب کریں وہ ہر مرتبہ وعدہ کر لیتے۔ کاش ایسا ہو سکتا۔ آپ ایکسپریس اخبار میں جن دنوں تھے تو وہاں جانا ہوا شائد کسی مضمون کی اشاعت کے سلسلے میں یا اور کوئی کام۔
برادر رضی شمسی جن دنوں امامیہ آرگنائزیشن کے چیرمین تھے انہیں شوق ہؤا کہ آئی او کی تاریخ لکھی جاے۔ اس کے لیے برادر بزرگ علی رضا نقوی، ملک فیض بخش اور مجھے شامل کیا گیا۔ ہر اتوار کو صبح دس بجے فیصل ٹاؤن میں جمع ہوتےتھے۔ ملک صاحب جب گھر سے چلتے تو اطلاع کر دیتے، میں اس کے مطابق مین وحدت روڈ پر آ جاتا، یوں اکٹھے اس نشست میں شرکت کرتے رہے۔ باتیں تو بہت ہوتیں مگر انہیں ضبط تحریر میں لانے کا مرحلہ نہیں آیا۔ اس ایک نشست میں برادر بزرگ سید حمید الحسن رضوی بھی شریک ہوے تھے۔ جب سابقین سے رابطے کا سلسلہ شروع تو پھر آپ سے رابطے بڑھ گئے۔ ایک دو نشستوں میں بصد اصرار تشریف لائے۔ وہ اس حوالے سے اپنا موقف رکھتےتھے اور اس پر تادم آخر قائم بھی رہے۔ وضع داری نبھاتے تھے۔ جب لاہور میں مجلس بصیرت کا آغاز ہوا تو اس میں شرکت کے لیے آپ کو بھی دعوت دی جاتی، ایک اجلاس میں شریک بھی ہوئے اور اظہار خیال بھی کیا۔ جب آئی ایس او کی تاریخ و ڈاکومنٹری کی تیاری کا کام شروع کیا تو آپ کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا گیا جس میں سے ایک کلپ ڈاکومنٹری فلم جہد مسلسل کا حصہ بن چکا ہے۔ جب ریکارڈ یا پرانے رسائل کی تلاش میں کوئی چیز مفتی جعفر حسین مرحوم سے متعلق ہوتی تو میں اسے ملک صاحب کو بھیج دیتا تو وہ خوش بھی ہوتے اور حیران بھی۔ فوراً جواب شکریہ اور داد تحسین کا اظہار ضرور کرتے۔ چند ماہ قبل آپ نے فون کیا کہ بیٹے کو کمرہ کی ضرورت ہے اس لیے وہ اپنی کتب دینا چاہتے ہیں۔ کئی آپشنز زیر غور آئے، آخر طے پایا کہ وہ یہ کتب البصیرہ، اسلام آباد کو عطیہ کردیں۔ یوں انہوں نے چند کتب رکھنے کے بعد اپنی ساری کتب عطیہ کر دیں۔
مظفرگڑھ شہر کے قریب ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ آپ کا تعلق ایک دین دار گھرانہ سے تھا۔ صوم و صلوٰۃ کے بچپن سے پابند تھے۔ یہاں سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لاہور آئے، گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے ۔ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن میں تھے۔ ہر اتوار کو کالج کی مسجد میں درس و سوال وجواب کی نشست ہوتی تھی۔ جب 1972 میں رضا بھائی نے دعوت دی تو 22 مئی کے اجلاس میں شرکت کی۔ 11 جون 1972 کے اجلاس میں شرکت کی جہاں آئی ایس او کا نام تجویز ہؤا۔ آئی ایس او کی پہلی مرکزی کابینہ میں شامل رہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ملتان میں اخبار میں ملازمت شروع کی۔ اس دوران امامیہ آرگنائزیشن ملتان ریجن کی بنیاد رکھی۔ لگتا ہے کہ مفتی صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کے رشتے کے لیے بات کی ہوگی، جس پر احباب نے مشاورت سے ملک فیض بخش کا نام تجویز کیا۔ انہیں پیغام دیا گیا کہ وہ مفتی صاحب سے مل لیں۔ مفتی صاحب کی منظوری کے بعد آپ نے اپنی والدہ کو اعتماد لیا۔ والدہ جو کہ مفتی صاحب کی تقاریر سن چکی تھیں، بہت خوش ہوئیں لیکن خواہش کی وہ پہلے ایک مرتبہ اپنی ہونے والی بہو سے ملنا چاہتی ہیں۔ آپ ایک شرط پر اپنی والدہ کو گوجرانولہ لے کر گئے کہ آپ نے ہاں ہی کر کے آنا ہے۔ شادی کے بعد ملتان آ گیے۔ لیکن جلد ہی محسوس کیا کہ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی اہلیہ کو اپنی والدہ کی نگہداشت و تیمارداری کرنی چاہیے۔ یوں وہ اپنی اہلیہ کو گوجرانولہ چھوڑ آئے، پھر وہ بھی وہیں رہاہش اختیار کر لی۔ مفتی صاحب کو ایک بیٹے کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ مفتی صاحب بھی آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ گوجرانولہ میں رہنے کے لیے وہاں کئی جگہ ملازمت کیں۔ مفتی صاحب کے دور قیادت میں ان کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ جب مفتی صاحب بطور قائد ملت جعفریہ ایران تشریف لے گئے تو آپ بھی ہمراہ تھے۔ یوں امام خمینی سے ملاقات کے موقع پر آپ کو شرف دست بوسی بھی حاصل ہوا۔
جب مفتی صاحب قبلہ بیمار ہوئے تو آپ نے ساری مصروفیات ترک کر کے دن رات ان کی عبادت کی۔ جب علاج کی غرض سے لندن جانا ہوا تو آپ ساتھ تھے۔ آپ کی خوش دامن مفتی صاحب کی پہلی اہلیہ تھیں جن کا انتقال مفتی صاحب کی زندگی میں ہو گیا تھا وہ کوئٹہ میں دفن ہیں کیونکہ زیارات پہ جاتے ہوئے انتقال ہوا تھا۔
مفتی صاحب کی دوسری اہلیہ آخری دم تک آپ کے ساتھ رہیں اور ان کے عزت و احترام و محبت میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ تین سال قبل آپ کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا جس سے آپ بہت رنجیدہ تھے۔ ہفتہ دس دن پہلے واٹس ایپ پر میسج آیا کہ ان کے جگر کا آپریشن ہے، دعا کے لیے کہا۔ میں نے بعد فون کر کے صحت کے بارے میں دریافت کیا تو اپنے مخصوص لہجے میں کہنے لگے سیدی، ایک آپریشن تو ہو گیا ہے مگر دوسرا آپریشن ہونا ہے۔ دعا کے ساتھ یہ آخری مرتبہ آواز سنی۔ میں اسلام آباد میں تھا کہ برادر اقبال زیدی کا پیغام ملا کہ ملک فیض بخش کی آپریشن کے بعد طبعیت خراب ہو گئی ہے، انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران جب بھی پوچھا تو دعا کے لیے ہی کہا گیا۔ 19 دسمبر 2019 کو ایک تقریب سے واپس پر فیس بک پر اطلاع تھی کہ ملک فیض بخش اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان مغفرت فرمائے آمین ثم آمین۔ اچھے خیالات کے مالک، نپی تلی گفتگو کرنے والے، علم دوست اور مخلص انسان اس دنیا سے رخصت ہوا۔
ہم سہل طلب کونسے فرہاد تھے لیکن اس شہر میں اب کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/mulla-ahmed-thathvi/
Share this content: