کربلایعنی اطاعت الٰہی

Published by Murtaza Abbas on

karbala

تحریر: سیدہ ندا حیدر

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔(4 : ‎النساء‎،آیت :59)
اطاعت بالذات اللہ کی ہوتی ہے۔ رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے لیے واحد ذریعہ اور سند ہے۔ اولی الامر کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ منسلک ہے، اس لیے اس اطاعت کو رسولؐ کی اطاعت پرعطف کیا ہے۔
اولی الامر سے مراد ائمہ اہلِ البیت علیہم السلام ہیں۔ جس طرح رسولؐ کی ہر بات وحئ الٰہی کے مطابق ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ائمہ اہل البیت علیہم السلام ہر بات سنت رسولؐ کے مطابق کرتے ہیں۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: میری حدیث میرے پدر بزرگوار کی حدیث ہے، ان کی حدیث میرے جد بزرگوار کی حدیث ہے، ان کی حدیث رسول خدا ؐکی حدیث ہے۔ (بحار الانوار 2: 179) چنانچہ رسول اللہؐ نے متعدد احادیث میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے بعد کن کی طرف رجوع کرنا ہو گا:
1۔ حدیثِ ثقلین: جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا:
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا
اس حدیث کو بیس سے زائد اصحاب نے روایت کیا ہے۔
2۔ حدیث اثنا عشر خلیفہ: اسے امام احمد بن حنبل نے 34 طرق سے روایت کیا ہے۔
اطاعت سے کیا مرادہے؟
اطاعت، خوشدلی کے ساتھ تابع فرمان ہونے کو کہتے ہیں ۔ طاعۃٌ کے مقابلہ میں کرہٌ آتا ہے۔ جس کے معنی ناگواری اور کراہت کے ساتھ کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے:
لَقَدۡ جِئۡنٰکُمۡ بِالۡحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَکُمۡ لِلۡحَقِّ کٰرِہُوۡنَ
بتحقیق ہم تمھارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تم میں سے اکثر حق سے کراہت کرنے والے ہیں۔(43 : ‎الزخرف،آیت: 78) جن کا عقل و شعور غفلت وجہالت کے پردے میں ہے، وہ حرف حق کو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ حق سے کراہت اور نفرت کرتے ہیں اور ان کا باطل سے مانوس ذہن حق کو دیکھ کر وحشت زدہ ہو جاتا ہے۔لہٰذا اطاعت وہ ہے جو کسی جبر و قہر کے بغیر رسولؐ کی محبت کی وجہ سے انجام دی جائے۔ رسولؐ سے محبت اس وقت ہو گی جب ان کے سارے فرامین کو اللہ کی طرف سے مان لیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تواس وقت رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
محبت الٰہی، اطاعت رسولؐ و اہل بیتؑ:
پروردگار قرآن مجید میں محبت کا دعویٰ کرنے والوں سے فرماتا ہے :
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللہُ
کہ دیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری(رسول ؐ کی) اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
پروردگار نے اس آیت میں واضح طور پر اپنی محبت کے لیے اپنے محبوب ؐ کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔
جبکہ ایک اور آیت میں خداتعالیٰ اسی انداز میں میں اپنے محبوب ؐ سے فرما رہا ہے :
قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي
کہ دیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔(42 : ‎الشوری،آیت :23)
یہاں پر ہم حدیث نبی اکرمﷺ کو بیان کرتے ہیں کہ اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا :
یا رسول اللہؐ! آپ ؐکے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔(الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.)
ان دونوں آیات سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریمؐ کی اطاعت کی بنیادی شرط اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنا ہے اور انہی سے محبت کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی محبت کو پانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر انسان اللہ کی محبت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے راستہ بتایا یعنی اہل بیتؑ کی محبت اور اطاعت کو اپنے اوپر لازم قرار دے تاکہ رسول خداؐ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے اللہ کی محبت و قربت کو پاسکے۔

محبت کے لیے معرفت کا ہونا لازمی ہے
الف: معرفت الٰہی ، امامؑ کی نگاہ میں:
توحید کے بارے میں امام حسین علیہ السلام کا خطبہ:
اے لوگو!ایسے لوگوں سے دور ہی رہو جو دین سے نکل گئے اور اللہ جل شانہ کو اپنے جیسا سمجھنے لگے۔ ان کی باتیں ایسی ہیں جیسے اہل کتاب سے کفار باتیں کرتے ہیں، حالانکہ وہی سب کچھ ہے، کوئی شے اُس کی طرح نہیں۔ وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ آنکھیں اُسے دیکھ نہیں سکتیں جبکہ وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔ وہی مہربان اور تمام امور کاجاننے والا ہے۔


وہ ذات جس نے جبروت اور وحدانیت کو اپنے ساتھ خاص کر رکھا ہے جبکہ خواہش ، ارادہ، قوت اور دانش کو استعمال میں لایا ہے۔ کسی بھی چیز میں اس سے جھگڑنے والا کوئی نہیں۔ کوئی ایسا نہیں کہ اس سے برابری کرے۔ اس کی کوئی ضد نہیں جو اس سے مقابلہ کرے۔ کوئی اس کا ہمنام نہیں جو اس سے مشابہت پیدا کرے اور نہ ہی کوئی اس کی مثل ہے کہ اس سے ہم شکل قرار پائے۔
پے در پے اُمور اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ گردشِ ایام اس میں تبدیلی نہیں لا سکتی۔حوادثِ زمانہ اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ اس کا وصف بیان کرنے والے اس کی عظمت کی گہرائیوں کو نہیں پاسکتے۔ اس کے جبروت کی بلندیوں کو دلوں سے محسوس نہیں کرسکتے کیونکہ اشیاء میں کوئی بھی اس کی طرح نہیں ہے۔ علماء بھی اپنی عقل کی بلند پروازوں کے باوجوداسے نہیں پاسکتے۔
مفکرین اپنی تمام تر سوچ بچار کے باوجود اس کے وجود کی تصدیق کیے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ مخلوقات کی صفات میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کی توصیف نہیں کرسکتے۔ وہ واحد اور بے نیاز ہے۔جو کچھ بھی انسانی تصور میں آتا ہے، وہ اس ذات کے علاوہ ہے۔
وہ بھی کوئی رب ہے جسے درک کیا جاسکے! وہ بھی کوئی رب ہے جسے ہوا یا غیر ہوا گھیر لیں! وہ ہرچیز میں ہے، نہ اس طرح کہ اس کے حصار میں ہے اور وہ تمام چیزوں سے جدا بھی ہے مگر نہ اس طرح کہ وہ اس سے مخفی ہیں۔ وہ بھی کوئی قادر ہے کہ کوئی اس کی ضد ہو اور اس سے مقابلہ کرے یا کوئی اُس کی برابری کرے۔ اس کی قیومیت گزرے ہوئے ایام کی طرح نہیں ہے اور اس کی توجہ کوئی خاص جہت نہیں رکھتی۔


جس طرح وہ آنکھوں سے مخفی ہے، عقل کی گہرائیوں سے بھی پوشیدہ ہے۔ جس طرح اہلِ زمین سے پوشیدہ ہے، اہلِ آسمان سے بھی ایسے ہی مخفی ہے۔ اس سے قرابت گویا اس کا گرامی قدر بنادینا ہے۔ اس سے دوری گویا گھٹیا قرار دینا ہے۔ اس کا کوئی مکان نہیں ہے اور نہ ہی زمانے اسے اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔کوئی بھی اس کے اُمور میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اس کی بلندی سے مراد یہ نہیں کہ وہ کسی ٹیلے پر ہے۔ اس کا آنا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں ہے۔ وہ عدم سے وجود بخشتا ہے اور وجود کو نیستی میں بدل دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کیلئے بھی دو متضاد صفات ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اس کے بارے میں غوروخوض اس کےوجود کے متعلق ایمان تک پہنچاتاہے۔اس کے بارے میں ایمان اور اعتقاد فقط اس کے وجود تک پہنچاتا ہے۔(یعنی اس کی ذات کے متعلق غوروخوض اس کے وجود کو ثابت کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی ذات سے پردہ نہیں اٹھاتا)۔
اس کی وجہ سے صفات متصف ہوتی ہیں، نہ یہ کہ اس کی توصیف صفات سے کی جائے۔ چیزوں کی پہچان اسی کے دم سے ہے نہ یہ کہ وہ چیزوں سے پہچانا جائے۔ یہ ہے اللہ جل جلالہ کہ کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ وہ پاک ہے۔ اس کی مانند کوئی چیز نہیں ہے۔ وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(تحف العقول: 244)
ب: معرفت امامؑ ، رسول ﷺ کی نگاہ میں:
اسی لیے رسول خداﷺ نے فرمایا:
مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة
جو شخص بھی اپنے زمانے کےامام کی معرفت کے بغیر مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔(احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ق، ج۲۸، ص۸۸؛ ابو داوود، مسند، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۴۲۵؛ طبرانی، مسند الشامیین، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۴۳۷)
معرفت کی خدا کا حصول اولیائے خدا اور معصومین علیہم السلام کی معرفت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے چونکہ یہ ہستیاں صفات و اسماء الٰہی اور جمال و جلال پروردگار کی مظہر ہیں۔ معصوم کامل ہیں جنھیں اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ قرار دیا ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ وہ ان ہستیوں کے ذریعے پہچانا جائے۔ ان کے ذریعے سے اس کی اطاعت ہو اور ثواب و عذاب کا معیار بھی ان پر ایمان اور ان کی اطاعت کے مطابق ہو۔


ج: معرفت الٰہی، معرفت امامؑ:
انسان کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے۔امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے پاس گئے اور فرمایا:اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت کیلئے خلق کیا۔ جب پہچانا توعبادت کی۔ اس کی عبادت نے ماسوا اللہ کی عبادت سے بے نیاز کیا۔
ایک شخص نے سوال کیا: معرفت ِ خدا کیا ہے؟امام علیہ السلام نے فرمایا:
ہر زمانے کے لوگوں کو وقت کے امام کی معرفت ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اطاعت ان پرواجب ہے۔(نزہۃ الناظر:۸۰، علل الشرایع:۹،کنزالفوائد:۱:۱۵۱� �بحار۵:۲۱۲)


امام حسین ؑ کاعشق الٰہی :
امام حسینؑ کی اطاعت الٰہی ان کا والہانہ اپنے پروردگار سے عشق ہے جو ان کے مختلف خطابات میں نمایاں ہے کہ وہ کیسے اپنے رب الکریم کے عشق میں غوطہ زن ہیں کہ رہتی دنیا تک یہ الٰہی عشق تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ بن گیا ۔امام حسین ؑ کے اپنے رب سے بیان کیے گئے کچھ عاشقانہ جملے ہم ذیل میں نقل کررہے ہیں:
مدینہ سے نکلتے ہوئے امام ؑ اپنے رب کریم کے حضور یوں عرض کرتے ہیں:
پروردگارا! میں تیری رضا پر راضی اور تیرے فرمان پر تسلیم ہوں۔ تیری قضا کے سامنے صبر کروں گا۔ اے وہ خدا کہ تیرے علاہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اےبے پناہ لوگوں کی پناہ گاہ (اور اُمید)(محمد صادق نجمی، سخنان حسين بن علی (ع) ص 332)


مکہ میں امام حسین علیہ السلام کا خطاب:
تمام تعریفیں اُسی کیلئے ہیں ۔ وہ جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر نہ قدرت ہے اور نہ طاقت ۔ محمد و آلِ محمدپر درودوسلام ہو۔۔۔ ہاں! میرے لئے شہادت کی جگہ منتخب کرلی گئی ہے۔گویا میں دیکھتا ہوں کہ میری ہڈیوں کو چبانے کیلئے کربلا کے درمیان بھیڑئیے دوڑے چلے آرہے ہیں۔ وہ اپنے خالی پیٹوں کو ان سے بھریں گے لیکن تقدیر کے لکھے سے راہِ فرار ممکن نہیں ہے۔
اللہ کی خوشی ہی ہم اہلِ بیتؑ کی خوشی ہےلہٰذا ہم اس کی ہر مصیبت پر صبر سے کام لیں گے۔ وہ یقینا صبر کرنے والوں کو اجر سے نوازتا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے بدن کا ٹکڑا ان سے دور نہیں رہ سکتا۔وہ بہشت میں سارے اکٹھے ہوں گے۔ پیغمبر اکرمﷺ یقینا خوش ہوں گے کیونکہ خدا سے کیے وعدے کو عملی شکل میں دیکھیں گے۔


کون ہے جو میرے اہداف سے متفق ہے اور کون ہے جو خود کو لقاءِ الٰہی کیلئے آمادہ کرچکا ہے؟آؤ ہمارے ساتھ چلو، انشاء اللہ کل صبح میں سفر کا آغاز کروں گا۔(خطبات حسین ابن علی مدینہ تا کربلا۔ ص 85, مقتل لہوف۔ ص53, مشیر الاحزان. ص21 )
امام حسین (ع) کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کرنے کےبعد فرماتے ہیں:
میں قضائےالٰہی کو دوست رکھتا ہوں، خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری اُمید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔


کربلا پہنچنے کے بعد امام حسین علیہ السلام کا خطاب:
امام حسینؑ 2 محرم61 ہجری کو کربلا پہنچے اور کچھ توقف کے بعد اپنے اصحاب اور اہلبیتؑ کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
مرد مومن کو چاہیے کہ وہ خدا سے ملنے کی آرزو کرے،میں جانبازی اور شجاعت کی موت کو ایک سعادت سمجھتا ہوں۔(تاریخ طبری،ج7،صفحہ۔300)
عاشور کے دن آپ علیہ السلام کا خطبہ جب ہر طرف سے محاصرے میں تھے:
دست مبارک کو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا: تو ہمارا پروردگار ہے۔ تجھ پر بھروسہ ہے۔ تیری طرف متوجہ ہیں اور تیری طرف بازگشت ہے۔(لہوف: 42،تحف العقول: 24۰)
آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: إلهي رضاً بِقضائکَ تَسليماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک يا غياثَ المُستغيثينَ ۔


امام حسینؑ کے اصحاب کی اطاعت:
کربلا میں امامؑ کے اصحاب یقیناً ہر زمانے میں اطاعت امامؑ یعنی اطاعت الٰہی کی بہترین مثال ہیں۔اصحاب امام حسینؑ اس بات کو جانتے ہیں اور ان کا مضبوط ایمان ہے کہ امام حسینؑ اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں، وہ الٰہی نمائندے ہیں امام برحق ہیں ۔انھوں نے اپنے وقت کے امامؑ کی معرفت حقیقی حاصل کی۔ جس کے نتیجے میں وہ امامؑ کے سچے اطاعت گزار، تابع فرمان بنتے چلے گئے یعنی اپنے امام وقت کے ہمراہ وہ عشق حقیقی کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: امام مہدیؑ اور ان کی حکومت https://albasirah.com/urdu/imam-mehdi-unki-hakomat/


ان کو امام حسینؑ اندھیروں سے نکال کر نور الٰہی ، تقرب الٰہی کی طرف لے گئے جو کہ زمانے کے امامؑ کا مقصد ہوتا ہے ۔ اللہ کے بندوں کو خدا کی بندگی اور اس کی رضا کے قریب کرنے کی تمام سعادتیں جو کہ پروردگار اپنے بندوں کو عطا کرنا چاہتا ہے وہ بغیر اس وسیلے کے جو کہ خداوند عالم نے اپنے تک پہنچے کا قرار دیا ہے یعنی رہبر و ہادی کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
شب عاشور امام حسین ؑ کے اصحاب کس طرح اپنے وقت کے امامؑ کی معرفت کو اطاعت الٰہی کے ساتھ یوں بیان کررہے ہیں:
مسلم بن عوسجہ امام حسین ؑ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں :
’’ أنحن نخلي و لمانعذر الی اللہ فی أداء حقک ! أماواللہ حتی أکسر فی صدورھم رمحي ، وأضربھم بسیفي ما ثبت قائمۃ فی یدي ،ولا أفارقک ، ولو لم یکن معي سلاح أقاتلھم بہ لقذفتھم بالحجارۃ دونک حتی أموت معک‘‘
اگر ہم آپ کو تنہا چھوڑدیں تو آپ کے حق کی ادئیگی میں اللہ کے سامنے ہمارے پاس کیا عذر ہوگا؟ خدا کی قسم! جب تک کہ میں اپنا نیزہ ان کے سینے میں نہ توڑلوں اور جب تک قبضۂ شمشیر میرے ہاتھ میں ہے میں ان کو نہ مار تا رہوں میں آپ سے جدا نہ ہوں گا اور اگر میرے پاس کوئی اسلحہ نہ ہوا جس سے میں ان لوگوں سے مقابلہ کر سکوں تو میں آپ کی حمایت میں ان پر پتھر برساتا رہوں گا یہاں تک مجھے آپ کے ہمراہ موت آجائے۔(بحار الانوار ،علامہ مجلسی ، ج۴۴ ،ص ۳۹۳)
مسلم بن عوسجہ کے بعد سعید بن عبد اللہ حنفی اٹھے اور عرض کیا :
’’ واللہ لا نخّلیک حتی یعلم اللہ أنا حفظنا غیبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیک . واللہ لو علمت اني أقتل ثم أحیا ثم احرق حیّاثم أذّر ، یفعل ذالک بي سبعین مرّ ۃ ما فا رقتک حتی ألقی حِما مي دونک فکیف لاأفعل ذالک وانما ھي قتلۃ واحد ۃ ثم ھي الکرامۃ التی لا انقضاء لھا ابداً‘‘
خدا کی قسم! ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑ یں گے یہاں تک کہ خدا ہمیں یہ بتادے کہ ہم نے رسول خدا صلی اللہ وآلہ وسلم کے پس پشت آپ کی حفاظت ونگرانی کرلی، خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر زندہ کر نے کے بعد مجھے زندہ جلا دیا جائے اور میری راکھ کو ہوا ؤں میں اڑادیا جائے گااور یہ کام میرے ساتھ ستّر (۷۰) مرتبہ بھی کیا جائے تب بھی میں آپ سے جدا ئی اختیار نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں آپ کے سامنے قربان ہو جاؤں اور میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ ایک ہی بار قتل ہونا ہے اور اسکے بعد ایسی کرامت ہے جو کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔
زہیر بن قین یوں گویا ہوئے :
’’ واللہ لوددت اني قتلت ثم نشرت ثم قتلت حتی أقتل کذ األف قتلۃ، وان اللہ ید فع بذالک القتل عن نفسک وعن أنفس ھو لا ء الفتےۃ من أہل بیتک ‘‘
خدا کی قسم! میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ میں قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے یہاں تک کہ ایک ہزار مرتبہ ایسا کیا جائے اور اللہ میرے اس قتل کے ذریعہ آپ کے اور آپ کے گھر انے کے ان جوانوں سے بلا کو ٹال دے ۔
ان کے بعد اصحاب کی ایک جماعت گویا ہوئی :
’’واللہ لا نفارقک ، ولکن أنفسنا لک الفداء نقیک بنحور نا وجباہنا وأید ینا .فاذانحن قتلنا کنا وفیناوقضینا ماعلینا‘‘
خداکی قسم ہم آپ سے جدانہیں ہوسکتے ۔ ہماری جانیں آپ پر قربان ہیں۔ ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں اور ہاتھوں سے آپ پر قربان ہیں۔جب ہم قتل ہو جائیں گے تب ہم اس حق کوادااور اس عہد کو وفاکریں گے جوہماری گردن پر ہے ۔
اس کے بعد اصحاب کے گروہ گروہ نے اسی قسم کے فقروں سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔(طبری، ج۵ ،ص ۴۱۸؛ابوالفرج ،ص ۷۴ ، ط نجف ؛ تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۳۱، ارشاد، ص ۲۳۱)ماخوذ از کتاب مقتل ابی مخنف)
عمرو بن قرظہ کا وعدہ نبھانا:
عمرو بن قرظہ نے اپنے آپ کو دشمن کی تلواروں اور تیروں کے سامنے قرار دیا تا کہ امام کو کوئی گزند نہ پہنچے اور اتنے زخم ان کے بدن پر لگ گئے کہ ان کی شہادت کا وقت آپہنچا۔ اس وقت اپنا رخ امامؑ کی طرف کیا اور پوچھا :
اے فرزند ِ پیغمبرؐ ! کیا میں نے وعدہ نبھایا ؟ ، امامؑ نے فرمایا : ہاں ، تو جنت میں میرے پاس ہی ہوگا اورتو جلد ہی بہشت میں داخل ہوجائے گا ، میرا سلام پیغمبر اکرمﷺ کو پہنچانا۔ ( اعيان الشيعۃ، ج ۱، ص ۶۰۵)

اطاعت گزار وں کے لیےبشارت
اصحابِ باوفا سے عاشورا کی نماز کے بعد آپ کا خطبہ
اے نیک بختو! جنت کے دروازے کھلے ہیں، نہریں جاری ہیں۔ اس میں پھل درختوں پر تیا رہیں۔ یہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور شہداء جو راہِ خدا میں قتل ہوئے ہیں، آپ کو خوش آمدید کہنے کے منتظر ہیں ۔ ایک دوسرے کو آپ لوگوں کی آمد کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ پس اللہ اور رسول کے دین کی حمایت کرو اور حرمِ رسول اللہ کا دفاع کرو۔(مقتل الحسین)


کربلا:عشق واطاعت الٰہی:
واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کےاہل بیتؑ اور اصحاب باوفا نے چند گھنٹوں میں اطاعت پروردگار کی جو تاریخ رقم کی یہ ہمارے لیے زندگی ہے جوکہ ہمیں سکھاتی ہےکہ اپنے وقت کے امامؑ کی نصرت کیسے کی جاتی ہے ، کس طرح اپنے پورے وجود کے ساتھ پیکر وفا ہمیں اطاعت گزاری کی “الف ،ب” سکھا رہے ہیں۔ واقعہ کربلا کی جتنی معرفت حاصل ہوتی جائے گی سوائے عشق واطاعت الٰہی کے کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ زمین کربلا میں ہدایت کے سورج آج بھی روشنیا ں بکھیر رہے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ کیسے اپنی زندگیوں میں چراغ روشن کریں؟ ہم پر منحصر ہے کہ نور ہدایت لینے کے لیے ہمارے پاس کتنا ظرف ہے؟
یاد رہے کہ یہ ظرف اطاعت پروردگار اور اطاعت امامؑ میں جتنا آگے بڑھتے جائیں گے یعنی حالت اطاعت وہ ظرف ہے جس میں جتنی وسعت آتی جائے گی اتنا ہی ہم سعادت خداوندی سے زیادہ فیض یاب ہوتے جائیں گے۔ اس میں عاجزی و انکساری یعنی سجدہ الٰہی میں گرجانا ، بلندترین درجہ پر لے جانے کے لیے افضل ترین عمل ہے جس کی عملی تفسیر خودد امام حسین ؑ ہیں جب تمام مصائب و آلائم کے باوجود آخری وقت سجدہ شکر اپنے معشوق کے حضور انجام دے رہے تھے۔ اس سجدے نے رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے اپنے معشوق سے عشق کی انتہاء کا طریقہ بتا دیا۔
کربلا میں امام حسین ؑ کا یہ سجدئہ آخر انسان کو کس طرف متوجہ کررہا ہے؟
آیا امام حسینؑ سے زیادہ مصائب و مشکلات کسی پر آسکتی ہیں؟
کیا سجدہ آپ کو بتا نہیں رہا کہ رضائے الٰہی کس چیز میں پوشیدہ ہے؟
یقیناً یہ سجدہ بتا رہا ہےکہ جو بھی انسانوں پر گزرتا ہے رب اس سے بے خبر نہیں ، انسان یقین رکھے رب کی رضا اس میں شامل ہے تو وہ کیونکر اپنے رب الکریم کے حضور شکر بجا نہ لائے۔ یہ عاشقانہ روش کیونکر ہم کربلا سے حاصل نہ کریں؟


یہی تو اطاعت ہے !
یہی تو بندگی ہے!
یہی تو عشق کی معراج ہے!
ہمارے وجود میں بھی ایک کربلا ہے یعنی امامؑ ہمارے دلوں میں موجود ہیں، ہمیں بس اس معرفت قلبی کی ضرورت ہے تاکہ وقت کے امامؑ جو ہمیں آج بھی پکار رہے ہیں یعنی وہی (ھل من ناصر ینصرنی) کو سن سکیں، کاش! ہم وقت کے