ایران میں انقلاب کے بعد علمی و تحقیقی پیشرفت

Published by Murtaza Abbas on

سید اسد عباس

تحریر: سید اسد عباس

انقلاب اسلامی ایران کو آئے ہوئے تقریباً 43 برس ہوچکے ہیں۔ امریکہ اور استعماری قوتوں کی مخالفت، ان کی پابندیوں، صہیونی دشمن کی سازشوں کے باوجود یہ انقلاب قائم ہے اور اب تو بہت کچھ بدل رہا ہے۔ 2011ء سے عرب ریاستوں نے ایران سے روابط ختم کر لیے تھے، جو اب ایک ایک کرکے بحال ہو رہے ہیں۔ سعودیہ، عرب امارات اور قطر کے بعد اب مصر سے بھی تعلقات کی بحالی کی باتیں منظر عام پر آرہی ہیں۔ خلیج فارس میں یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، جس کے خلیج اور خطے کے حالات پر اثرات مرتب ہوں گے۔ مغربی قوتیں عرب ممالک کو ایران کا خوف دلا کر اپنے ہتھیار فروخت کیا کرتی تھیں۔ ان روابط کی بحالی کے بعد یقیناً ان ہتھیاروں کی ضرورت میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ ایران نے ملک پر لگنے والی معاشی پابندیوں کا حل ہمسایہ اور خطے کے ممالک سے تجارت کے ذریعے نکال لیا ہے۔ ہر برس ایران کی معیشت اوپر ہی جا رہی ہے۔ ملک میں ڈالر میں تجارت کو دس فیصد کی کم ترین سطح تک لایا گیا ہے، کیونکہ مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کا اتار چڑھاؤ ملکی معیشت اور اشیائے صرف کی قیمتوں پر اثرات مرتب کرتا تھا۔ اب نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اس انقلاب کی پیش رفت کو روکنے کے لیے عالمی استعماری قوتوں اور ان کے حواریوں کی جانب سے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ آٹھ برس کی ایران عراق جنگ، ملک کی پارلیمان جو انقلابی قائدین پر مشتمل تھی، اس کو دہشتگردی کا نشانہ بنانا، مجاہدین خلق کی آبیاری، سبز انقلاب، “زن، زندگی، آزادی” یہ وہ سیاسی سازشیں تھیں، جو اس نظام کے خلاف کی گئیں، تاہم ملک میں موجود قیادت نے ان سب حربوں کا مقابلہ کیا۔ ایران نے جہاں سیاست اور سفارتکاری کے میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہیں تعلیم کے شعبے میں بھی ایران دنیا کے کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ ایران میں ایک کتاب “گام تمدن ساز” کے عنوان سے شائع ہوئی ہے، جس میں عالمی اداروں کے ایران کے حوالے سے اعداد و شمار کو پیش کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے انقلاب کے بعد کس کس شعبے میں پیشرفت کی۔ ان شعبہ جات میں علم و تحقیق کے مختلف میدان، جمہوریت اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، ملک میں ہونے والے انتخابات، سیاسی سوجھ بوجھ، عدالتی سسٹم میں اصلاحات، فقر میں کمی، مناسب تعلیم و تربیت، صحت، بجلی اور پینے کے پانی کی دستیابی، خواتین کی حالت میں بہتری، عوام میں اخلاقیات اور معنویت میں بہتری، معیشت، نوجوانوں کی استعداد میں بہتری، عدالت اور بدامنی سے مقابلہ، آزادی اور استقلال، زندگی کی دیگر سہولیات، خارجہ پالیسی میں بہتری اور دیگر موارد کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

آج کی تحریر میں ہم ایران میں علمی پیشرفت کے حوالے سے بات کریں گے۔ یہ کتاب شاید 2018ء میں طبع ہوئی ہے، اسی لیے اس میں فقط 2018ء تک کے اعداد و شمار درج کیے گئے ہیں، تاہم کتاب میں بین الاقوامی سائیٹس کے لنکس بھی مہیا کیے گئے ہیں، جن پر جا کر اب بھی ان اعداد و شمار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک سائٹ “سکوپس” کے نام سے جانی جاتی ہے، جس میں کسی بھی ملک کے مختلف شعبہ جات کے علمی و تحقیقی جرائد و مقالات کا ریکارڈ رکھا گیا ہے۔ اس سائٹ پر مختلف شعبہ جات میں عالمی رینکنگ، علاقائی رینکنگ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ سائٹ 1996ء سے 2022ء تک کے مقالات کا ریکارڈ ہے، جس میں دنیا کے کسی بھی ملک میں لکھے جانے والے ریسرچ پیپرز کے بارے جانا جا سکتا ہے۔

سکوپس سائٹ کے مطابق ایران اس وقت تحقیقی مقالات کی تحریر کے حوالے سے دنیا میں اکیسویں نمبر پر ہے۔ 1996ء سے 2022ء تک ایرانی لکھاریوں کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں لکھے جانے والے کل مقالات کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے، جبکہ پاکستان اس رینکنگ میں اکتالیسویں نمبر پر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے، جس میں ریسرچ پیپرز جمع کروائے گئے۔ 1996ء میں ایرانی ریسرچ پیپرز کی تعداد 851 تھی اور دنیا میں ایران کی رینکنگ 54 نمبر پر تھی، جو اب ترقی کرکے اکیس تک پہنچ چکی ہے۔ 1996ء میں پاکستان تحقیقی مقالات کی رینکنگ کے لحاظ سے 51 ویں نمبر پر تھا۔ فقط 2022ء میں ایران میں 78 ہزار کے قریب تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے اور اس برس ایران کی عالمی رینکنگ 15ویں نمبر پر تھی۔ پاکستان 41 ہزار مقالات کے ساتھ 2022ء میں 21ویں نمبر پر رہا۔

دنیا میں تحقیقی مقالات جمع کروانے والے ممالک میں 54ویں نمبر سے 15ویں نمبر پر آنا ایک بڑی علمی اور تحقیقی پیشرفت ہے، جو کسی بھی ملک میں تحقیق و تالیف کے مواقع کی جانب نشاندہی کرتی ہے۔ انصاف سے دیکھا جائے تو ایران کا پاکستان یا کسی بھی دوسرے مسلمان ملک سے موازنہ ہی نہیں بنتا، جن مشکل حالات اور پابندیوں میں ایران نے یہ پیشرفت کی ہے، اگر اس کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو آج کے افغانستان جیسی حالت سے دوچار ہوتا۔ کتاب گام تمدن ساز میں متعدد سائنسی شعبہ جات میں ایران کی پیشرفت کے ریکارڈز پیش کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اس کتاب میں 2018ء کی بات کی گئی ہے، تاہم سائٹ کے لنک پر جائیں تو تازہ رینکنگ بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایران نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں 56ویں نمبر سے 19ویں نمبر پر آیا، ادویات سازی کے علم میں ایران 24ویں نمبر سے 8ویں نمبر پر آیا، نیوکلیئر سائنسز میں ایران 80ویں نمبر سے 12ویں نمبر پر آیا، ایرو سپیس انجئیرنگ کے شعبے میں 45ویں نمبر سے 12ویں نمبر پر آیا۔

ایران نے گذشتہ چند برسوں میں دفاعی ساز و سامان کی تیاری، ایرو سپیس، سیٹلائیٹ کے شعبے میں بھی خود کفالت حاصل کر لی ہے۔ اس وقت ایران کے ڈرونز اپنی صلاحیت کا لوہا پوری دنیا میں منوا رہے ہیں۔ ایران کی علمی، تحقیقی، دفاعی، سیاسی، سفارتی اور معاشرتی پیشرفت کا سلسلہ روز افزوں جاری ہے۔ یہ قوم مردانہ وار تمام تر پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ ایران نے ہر میدان میں ترقی کرکے نہ فقط استعمار اور استکبار جہان کے سیاسی، سفارتی اور فوجی تسلط کو نیچا دکھایا ہے بلکہ علم اور تحقیق کے میدان بھی ایرانی دانشور اور محققین اپنی صلاحیات سے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ایران پوری مسلم امہ کے لیے ایک مثال ہے، جس نے دینی اقدار اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ترقی کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اسلامی تہذیب کوئی متروک یا شکست خوردہ تہذیب نہیں بلکہ آج بھی انسانیت کے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ، فلسفی پہلو(1)
https://albasirah.com/urdu/inqelab-islami-imam-khumeini/