×

تعارف

تعارف البصیره ٹرسٹ

ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی۔۔۔فرقہ وارانہ۔۔۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ انبیاء کے نام لیوائوں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کردیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی۔۔۔فرقہ وارانہ۔۔۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ انبیاء کے نام لیوائوں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کردیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہمارے مطالعے کے مطابق تمام ادیان کی بنیادی کتب میں بہت سے حقائق اور انبیاء کی تعلیمات کابہت سا حصہ موجود ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے پاس موجود سرمایہ ان سب میں سے محفوظ تر ہے۔ خصوصاً قرآن حکیم کا کسی انسانی دست برد سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچ جانا انسانی تاریخ کا عظیم معجزہ ہے اور پروردگار کا اس زمین کے باسیوں پر خصوصی فضل و احسان ہے۔ مسلمانوں میں بہت سے فرق کے باوجود ایسے عقیدتی اور عملی مشترکات موجود ہیں جو انھیں ایک امت تشکیل دینے کے لیے کافی ہیں۔ شاید طاغوتی طاقتوں کو اسی امر کا ادراک ہے جس کے باعث آج اللہ کی اس زمین پر ان کی بیشتر ابلیسی سازشوں کا شکار یہی گئے گزرے مسلمان ہیں اور سب سے زیادہ ظلم کا شکار آج کے مسلمان ہی ہیں۔برصغیر کی تقسیم کے بارے میں درستی و نادرستی کی بحث سے قطع نظر معروضی عالمی حالات کے تناظر میں ہم پاکستان کے وجود اور استحکام کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔نظریات اور عقائد تو آفاقی ہی ہونے چاہئیں لیکن اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ہر انسان اس دنیا میں زمان و مکان کی قید میں ہے۔ تاریخ کے ایک خاص دور اور اس زمین کے ایک خاص علاقے۔۔۔ اسی طرح خاص رنگ، نسل اور زبان سے۔۔۔ نیز خاص حالات سے اس کا تعلق جبری ہوتا ہے لیکن انسان کے ارادے کی قوت اسے فطری طور پر دعوت دیتی ہے کہ تاریخ کا رخ اپنی مرضی کی سمت میں موڑنے کی جدوجہد کرے۔ معروضی حالات جہاں قوموں میں فرق رکھتے ہیں وہاں ایک ہی دور کے افراد کے لیے بسا بلکہ شاید ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باعث حکمت عملی کے تقاضے بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔