Skip to content

جلا صوفہ

جب سے مولانا عبدالعزیز نے صوفے پر بیٹھنے کو بدعت قرار دے کر اسے جلوایا ہے، اس واقعے پر طرح طرح کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہماری رائے میں یہ ایک سادہ اور معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک طرز فکر کا غماز ہے، جس کے نتائج بڑے خطرناک اور بھیانک برآمد ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ دنیا میں اسلام کے نام پر معرض شہود میں آنے والے تمام شدت پسند گروہوں کے پیچھے یہی جامد اور بدعتی فکر کارفرما ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسی فکر کے حامل افراد دلیل سے بات کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔جلا صوفہ

دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو

دینی مدارس کے نصاب کے حوالے سے بحث کوئی نئی نہیں۔برصغیر میں سر سید احمد خان کی تحریک کے زمانے میں یہ بحث اپنے عروج پر جاپہنچی تھی۔ خود مدارس کے بزرگ علماء نے اس نصاب کے حوالے سے جو مقالے سپرد قلم کیے ہیں ان میں بھی اس نصاب کو بہتر بنانے کیلئے بہت عمدہ تجاویز موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بعض مدارس نے قابل تقلید اقدامات بھی کیے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب ، مصر اور ایران وغیرہ میں جدید اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام اسی حوالے سے ایک امید افزاء پیش رفت کی مثالیںہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی یونیورسٹیوں میں اصول فقہ، اسلامیات اور سیرت النبیؐ کے خصوصی شعبوں کا قیام بھی ان موضوعات پر جدید انداز سے تحقیقات اور مطالعات کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو

حضرت علی بن عثمان ؒ

داتا گنج بخشؒ(۴۰۰۔۴۶۵ھ)
حضرت علی الہجویریؒ امام حسنؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ افغانستان سے لاہور تشریف لائے۔ برصغیر میں تشریف لانے والے صوفیا میں آپ متقدمین میں سے ہیں۔آپ نے اپنی معروف کتاب کشف المحجوب میں اہل بیت رسالت کے بہت سے فضائل نقل کیے ہیں۔ ان کے اپنے اشعار تو ہمارے پیش نظر نہیں ہیں لیکن انھوں نے اہل بیت کی شان میں معروف عرب شاعر فرزدق (ھَمّام بن غالب بن صّعصّعۃّ الدّارِمی التمیمی ملقب یہ ابو فِراس)کا ایک شہرہ آفاق قصیدہ نقل کیا ہے۔
حضرت علی بن عثمان ؒ

اقوال امام علی علیہ السلام انتخاب از نہج البلاغہ

انتخاب : سید اسدعباس

آج مسلمان روسو، ڈیکارٹ، کانٹ، مارکس اور لینن جیسے درجنوں دانشوروں کے اقوال و نظریات میں اپنے درد کا درمان اور اپنے زخم کا مرہم ڈھونڈتے ہیں۔ دوسری قوموں کے رہبروں کے اقوال و تصانیف کو شمع ہدایت قرار دیتے ہیں مگر قرآن اور اپنے راہنماؤں کے ارشادات کو دیکھنے اور پڑھنے کی فرصت نہیں۔آئیں امیرالمؤمنینؑ ؑکے ان فرامین میں غور کریں۔ ان اقوال کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا اسلام نے کوئی حل پیش نہ کیا ہو۔ دنیاں کی بے وفائیوں، زندگی کی ناہمواریوں، مشکلوں کے طوفانوں کے مقابلے کےحل موجود ہیں۔ ناکامیوں کے اسباب اور ان کا حل، بلندیوں کو جاننے اور ان کے حصول کے طریقے سب ان میں موجود ہیں۔ اقوال امام علی علیہ السلام انتخاب از نہج البلاغہ

ماہ رجب المرجب

ترتیب: سید اسد عباس

ماہ مارچ کا شمارہ آپ کے پیش نظر ہے ، قمری کیلنڈر کے روسے یہ رجب کا مہینہ ہے جس کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔ طلوع اسلام سے قبل بھی ماہ رجب ان مہینوں میں شمار ہوتا تھا جو حرمت والے جانے جاتے تھے ۔ان مہینوں میں عرب بدو بھی طویل جنگ و جدال کا سلسلہ ترک کر دیتے تھے ۔ اسلام نے بھی حرمت کے ان مہینوں کی تکریم کو برقرار رکھا ۔رجب کو بعض دیگر ناموں اور صفات سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک رجب الفرد ہے۔ یہ اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ مہینہ دوسرے حرام مہینوں ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام سے الگ ہے جبکہ دوسرے مہینے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اسی طرح اس مہینہ کو رجب المُضَر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ قبیلہ مُضَر (پیغمبر اکرمؐ کے اجداد میں سے) بطور خاص اس مہینہ کے احترام کے قائل تھے۔ اس کے علاوہ رجب الاصم، رجب المُرَجَّب، رجب الحرام، مُنصَل الأَسِّنہ اور مُنصِل الألّ بھی اسی مہینے کے نام ہیں۔ماہ رجب المرجب

طالبان امریکہ امن معاہدہ اور داعش

یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت داعش کے بہانے افغانستان میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے اشارے سامنے آرہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کو فوجی مداخلت بہت مہنگی پڑی ہے۔ گویا ان کے نزدیک امریکی فوجیوں کے عراق اور افغانستان سے انخلاء کی بنیادی وجہ امریکی فوج اور مشینری کی وہاں موجودگی کا مہنگا ہونا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کے لیے یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے کہ دہشت گرد گروہوں سے کام لیا جائے اور ملکوں کو غیر مستحکم کرکے وہاں سے اپنے مالی اور تزویراتی مفادات حاصل کیے جائیں۔طالبان امریکہ امن معاہدہ اور داعش

یمن سے سعودی عرب کی ’’آبرومندانہ‘‘ واپسی کی تیاری

یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں سعودی عرب یمن کی دلدل سے ’’آبرومندانہ‘‘ انخلا کی تیاری کر رہا ہے۔ علاقے میں اس کے اتحادیوں کو بھی فکر لاحق ہے اور امریکہ نے بھی سعودی عرب اور امارات پر مزید اسلحے کی فراہمی کو روکنے کا اعلان کرکے آنے والے وقت میں اپنے دوستوں کو بچانے کی ہی ایک تدبیر کی ہے۔ اس تدبیر سے خود امریکہ کو بھی اپنی آبرو بچانے کی فکر لاحق ہے، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ سعودی اتحاد یمن کے خلاف امریکی سرپرستی ہی میں چھ سال سے مصروف جنگ ہے۔یمن سے سعودی عرب کی ’’آبرومندانہ‘‘ واپسی کی تیاری

عقیدے کی بنیاد پر قتل انسانیت کا قتل ہے

بحیثیت مسلمان اور ہاشمی النسب انسان، میری نظر میں ناپسندیدہ ترین عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنا اور ختمی مرتبتﷺ کے بعد کسی انسان کی نبوت کا قائل ہونا ہے۔ خواہ اسے بعدہ مسیح موعود یا مہدی موعود کہہ کر اپنے بنیادی دعوے کو چھپانے کی کوشش کی جائے۔ آئین پاکستان میں بھی اسی لیے اس عقیدہ کے حامل شخص کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے، تاہم اس نظریہ اور عقیدہ کے باوجود میرا دین یعنی دین اسلام (سلامتی) مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک ناپسندیدہ عقیدے کے سبب کسی بھی انسان کے جان و مال کو کوئی نقصان پہنچاؤں یا اس نقصان کی حمایت کروں، بلکہ اس کے برعکس میرا دین مجھے حکم دیتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘، کوئی شخص کافر ہو یا مشرک، یا اسی طرح کسی بھی دوسرے مذہب اور عقیدے کا حامل، اس سے عقیدتی اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ میں ایسے شخص کے جان و مال کو اپنے لیے مباح سمجھنے لگوں۔عقیدے کی بنیاد پر قتل انسانیت کا قتل ہے

کیا مغرب کو یمنیوں پر رحم آگیا ہے؟

ان دنوں کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ امریکہ نے یمن پر سعودی حملوں کی حمایت روک دی ہے، امریکہ نے سعودی عرب اور امارات کو ہتھیاروں کی فروخت بھی روک دی ہے اور یورپی پارلیمینٹ نے بھی سعودی عرب اور امارات کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور انھیں اسلحے کی فراہمی کو یمن میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ’’یمن کی جنگ نے ایک انسانی اور اسٹریٹیجک تباہی کو جنم دیا ہے اور ہم یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سفارت کاری کو تیز کر رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ”اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے اور اس جنگ کے حوالے سے اپنے عزائم واضح کرنے کے لیے ہم یمن میں ہر قسم کا امریکی تعاون ختم کر رہے ہیں، جس میں اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے۔“کیا مغرب کو یمنیوں پر رحم آگیا ہے؟

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(3)

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے متعدد سوالات ایسے ہیں، جن پر ہمارے معاشرے میں مخمصے یا شبہات پائے جاتے ہیں، بلکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھارتی پراپیگنڈہ زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر ہمیشہ پاکستان کو مات دیتا رہا ہے، یعنی میدان جنگ میں شہداء کی قربانیوں سے حاصل کی ہوئی کامیابیاں ہمارے سیاستدانوں ںے مذاکرات کی میز پر شکست سے بدل دیں۔ مسئلہ کشمیر کے سلسلے مٰیں منظور ہونے والی قراردادوں کو اس سلسلے میں خاص طور پر بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ کشمیری راہنماء شیخ تجمل الاسلام کا کہنا ہے کہ:مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(3)