Skip to content

کیا مغرب کو یمنیوں پر رحم آگیا ہے؟

ان دنوں کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ امریکہ نے یمن پر سعودی حملوں کی حمایت روک دی ہے، امریکہ نے سعودی عرب اور امارات کو ہتھیاروں کی فروخت بھی روک دی ہے اور یورپی پارلیمینٹ نے بھی سعودی عرب اور امارات کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور انھیں اسلحے کی فراہمی کو یمن میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ’’یمن کی جنگ نے ایک انسانی اور اسٹریٹیجک تباہی کو جنم دیا ہے اور ہم یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سفارت کاری کو تیز کر رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ”اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے اور اس جنگ کے حوالے سے اپنے عزائم واضح کرنے کے لیے ہم یمن میں ہر قسم کا امریکی تعاون ختم کر رہے ہیں، جس میں اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے۔“کیا مغرب کو یمنیوں پر رحم آگیا ہے؟

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(3)

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے متعدد سوالات ایسے ہیں، جن پر ہمارے معاشرے میں مخمصے یا شبہات پائے جاتے ہیں، بلکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھارتی پراپیگنڈہ زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر ہمیشہ پاکستان کو مات دیتا رہا ہے، یعنی میدان جنگ میں شہداء کی قربانیوں سے حاصل کی ہوئی کامیابیاں ہمارے سیاستدانوں ںے مذاکرات کی میز پر شکست سے بدل دیں۔ مسئلہ کشمیر کے سلسلے مٰیں منظور ہونے والی قراردادوں کو اس سلسلے میں خاص طور پر بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ کشمیری راہنماء شیخ تجمل الاسلام کا کہنا ہے کہ:مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(3)

بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں(2)

4۔ عراق کے کویت پر حملے کی پیشگوئی
1980ء میں عراق کے صدر صدام حسین نے عالمی طاقتوں کے ایما پر ایران پر حملہ کر دیا۔ اسے علاقے کے رجعت پسند حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کی حمایت حاصل تھی، جن میں کویت کی شاہی حکومت بھی شامل تھی۔ امام خمینیؒ نے ان حکمرانوں کو مختلف مواقع پر ان کے انجام سے خبردار کیا۔ کویت کے حکمران اس زمانے میں عراق کی بے پناہ مالی امداد کرتے رہے۔ امام خمینیؒ نے انھیں اس کام سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کام سے باز آجائو کیونکہ ایک دن فتنے کی آگ تمھارے دامن تک آپہنچے گی۔۔۔ صدام کی درندگی کی اس عادت میں ذرہ بھر فرق نہیں پڑا بلکہ وہ عالمی اداروں اور لٹیروں کی خاموشی کے باعث ایک زخمی بھیڑیے میں تبدیل ہوچکا ہے، وہ آگے بڑھتا جا رہا ہے، تاکہ جنگ کی آگ کو علاقے کے دیگر ممالک اور خاص طور پر خلیج فارس میں بھڑکا سکے۔‘‘ (صحیفہ امام، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج20، ص328و329)
بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں(2)

مسئلہ کشمیرپر KMS کے سربراہ شیخ تجمل الاسلام کا اہم انٹرویو

اینکر و ترتیب: سید اسد عباس

شیخ تجمل الاسلام کا تعلق وادی کشمیر سے ہے ۔ ان کی پیدائش 1954ء میں سرینگر میں ہوئی۔ وہیں پلے بڑھے اور یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کی ۔وہ ایک عرصے سے پاکستان میںتحریک آزادی کشمیر کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔1999ء سے کشمیر میڈیا سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور مسئلہ کشمیر پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ شیخ تجمل الاسلام مقبوضہ وادی میںکئی سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے ۔ سرینگر میں روزنامہ ’’اذان ‘‘کے چیف ایڈیٹر کے علاوہ کئی ہفت روزوں اور روزناموں میںمدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ سرینگر میں ہی وکالت بھی کی ۔ 1975میں شیخ عبد اللہ اور اندرا گاندھی کے معاہدے کے خلاف اور اس کے مضر اثرات کو لوگوںپر آشکار کرنے کے لیے کافی کام کیا ۔ اس سلسلے میں آپ ایک موثر آواز تھے ۔ متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں جس کے بعد آپ کو وادی سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنی پڑی ۔ مسئلہ کشمیرپر KMS کے سربراہ شیخ تجمل الاسلام کا اہم انٹرویو

مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی

بھارت پر حاکم انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی نے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی راہ میں حائل بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 5 اگست 2019 کو یعنی ایک برس قبل ختم کیا، اگرچہ یہ دفعات بھی کشمیریوں کے اطمینان کے لیے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں جو غیر قانونی ہی تھیں تاہم اس سے کشمیر کے باسیوں کو کم از کم یہ تحفظ حاصل تھا کہ باہر سے کوئی ہندوستانی باشندہ آکر ان کی ریاست میں زمین نہیں خرید سکتا یا مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو بدلنے کا کوئی حربہ بروئے کار نہیں لایا جاسکتا ہے تاہم اب ہندوستان کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ کشمیری باشندوں کے مطابق یہ بھارت کی طرف سے کشمیر میں 27 اکتوبر 1947کے بعد دوسری بڑی جارحیت تھی۔ یاد رہے کہ 27 اکتوبر 1947 میں بھارت نے تقسیم ہند کے اصول کے منافی نیز کشمیریوں کی خواہشات کے بر عکس سرینگر کے ہوائی اڈے پر فوج اتاردی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(2)

گذشتہ قسط میں ہم نے جانا کہ یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز کیسے ہوا، تحریک آزادی کشمیر کا کچھ حوالہ بھی دیا گیا۔ آزادی کشمیر کی راہ میں حائل حقیقی رکاوٹوں کے حوالے سے کشمیری راہنماء شیخ تجمل الاسلام کا موقف بھی آپ کے سامنے پیش کیا۔ آج ہم اسی نشست کی چند مزید اہم باتوں کو اور اس سے متعلق تفصیلات کو قارئین کی خدمت پیش کریں گے۔ میری اس نشست میں کوشش رہی کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر موضوع پر بات کی جائے، تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ اسی وجہ سے شیخ تجمل الاسلام کے ساتھ ہماری یہ نشست تفصیلی تھی۔ شیخ تجمل الاسلام جموں و کشمیر میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہے، وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد سری نگر کی عدالت سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا اور پھر کئی ایک رسالوں کے مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ شیخ صاحب انقلاب اسلامی ایران کے حامیوں میں ایک موثر اور مضبوط آواز تھے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(2)

بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں

ان دنوں انقلاب اسلامی ایران کی 42ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر انقلاب کے بانی حضرت امام خمینیؒ کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ آپ کی شخصیت کے سیاسی، فقہی اور اخلاقی پہلو سے مضامین اور مقالات لکھے جا رہے ہیں۔ ہم اس موقع پر آپ کی روحانی و معنوی شخصیت کے ایک پہلو پر بات کریں گے اور وہ ہے آپ کی بعض پیشگوئیاں، جو آپ کے بُعدِ عرفانی اور قرب الٰہی کی حکایت کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض پیشگوئیاں عالمگیر اثرات کی حامل ہیں اور ان کی حیثیت بھی عالمی ہے۔ آپ کی ایسی پیشگوئیوں میں بہت صراحت موجود ہے اور ان کے بارے میں دوسری رائے نہیں ہوسکتی، سوائے اس کے کہ کہا جائے کہ یہ آپ کی سیاسی بصیرت کی غماز ہیں۔ بہرحال امام خمینیؒ کی چند ایک پیشگوئیاں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔
بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں

مسئلہ کشمیر اور چین کا کردار

برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے بعد سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اہم ترین مسائل میں سے شمار ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر بھارت اور پاکستان کے مابین ایک مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بنیادی فریق خود کشمیری ہیں۔ تاہم چین بھی کئی پہلوئوں سے اس مسئلے سے وابستگی رکھتا ہے بلکہ اگر اسے بھی اس مسئلے کا ایک فریق کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سی پیک کے معاہدے کے بعد اس مسئلے سے چین کی دلچسپی اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ہم اس مضمون میں مسئلہ کشمیر سے متعلق چین کے نقطہ نظر کا بھی ذکر کریں گے۔ نیز کشمیر کے بارے میں مختلف حوالوں سے چین کے موقف کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔مسئلہ کشمیر اور چین کا کردار

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(1)

پاکستان میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم 5 فروری یوم کشمیر کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا اعلان جماعت اسلامی کے سابق امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سابق صدر قاضی حسین احمد مرحوم نے 5 جنوری 1989ء کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اس اعلان کے بعد پنجاب کے اس وقت کے  وزیراعلیٰ میاں محمد نواز شریف اور سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے اس اعلان کی تائید کی۔ پہلا یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری 1989ء کو منایا گیا جبکہ 1990ء میں تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری قوم اور کشمیریوں نے یوم یکجہتی منایا۔ اب گذشتہ 31 برسوں سے پاکستانی قوم اور دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی و کشمیری شہری 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے مناتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(1)

طالبان اور ایران کے تعلقات کا مستقبل

طالبان کا ایک سیاسی وفد آج (26 جنوری2021ء کو) تہران پہنچا ہے۔ وفد کی قیادت ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔ وفد ایران میں وزیر خارجہ جواد ظریف اور امور افغانستان میں ایران کے خصوصی نمائندہ سے ملاقات کرے گا۔ ملاقات کے ایجنڈے میں افغانستان میں قیام امن اور دیگر باہمی مسائل اور موضوعات شامل ہیں۔ طالبان کے وفد کی اس وقت تہران میں موجودگی اس پہلو سے اہم ہے کہ امریکہ میں نئی انتظامیہ صدر ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے بارے میں نظرثانی کا عندیہ دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں وائٹ ہائوس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کے سکیورٹی کے مشیر جک سالیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے فروری 2020ء میں طالبان اور واشنگٹن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس کا نئے سرے سے جائزہ لے گی۔طالبان اور ایران کے تعلقات کا مستقبل

سنگینوں کے سائے میں امریکی جمہوریت کا سفر

کچھ ہی لمحے قبل امریکہ کے نومنتخب صدر جوزف آر بائیڈن جونیئر نے امریکا کے 46 ویں صدر کا حلف اٹھا لیا۔ ان کے ہمراہ 55 برس کی کمیلا ہیرس نے بھی پہلی امریکی خاتون نائب صدر کا حلف اٹھایا جو کہ افریقن ایشین پس منظر کی حامل امریکی شہری ہیں۔ کمیلا ہیرس کی والدہ کا تعلق ہندوستان سے ہے، جسے ہندوستانی سماح میں امید کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں امریکا کے سابق صدور باراک اوباما اور بل کلنٹن کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا، تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ  اس تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے اب بھی اس انتخاب کو قبول نہیں کیا ہے اور اپنے عدم اطمینان کا اظہار انھوں نے اس اہم تقریب میں شرکت نہ کرکے کیا۔ امریکی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔سنگینوں کے سائے میں امریکی جمہوریت کا سفر

واشنگٹن میں خوف کے سائے

20 جنوری 2021ء جوں جوں قریب آرہی ہے، امریکہ بھر میں بالعموم اور واشنگٹن ڈی سی میں بالخصوص خوف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بھوتوں نے ڈیرہ ڈال لیا ہو۔ پینٹا گون نے نیشنل گارڈز کو نومنتخب صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری والے دن یعنی 20 جنوری کو واشنگٹن میں پچیس ہزار سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔ حلف برداری کی تقریب والے دن واشنگٹن میں مکمل تعطیل کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔واشنگٹن میں خوف کے سائے