جلا صوفہ

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

جب سے مولانا عبدالعزیز نے صوفے پر بیٹھنے کو بدعت قرار دے کر اسے جلوایا ہے، اس واقعے پر طرح طرح کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہماری رائے میں یہ ایک سادہ اور معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک طرز فکر کا غماز ہے، جس کے نتائج بڑے خطرناک اور بھیانک برآمد ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ دنیا میں اسلام کے نام پر معرض شہود میں آنے والے تمام شدت پسند گروہوں کے پیچھے یہی جامد اور بدعتی فکر کارفرما ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسی فکر کے حامل افراد دلیل سے بات کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔

اپنی فہم و فکر کو اسلام کی حتمی اور قطعی تعبیر قرار دے کر دوسرے ہر فہم کے مقابلے میں صف آراء ہو جاتے ہیں۔ پھر دوسری فکر رکھنے والے افراد یا گروہوں کا وجود بھی صفحہ ارض پر برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ فکر جس نے صوفے کو آگ میں جھونک دیا، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحابہ کرامؓ صوفے پر نہیں بیٹھے، لہٰذا صوفے کا وجود بدعت ہے اور یہ بات اسے جلا ڈالنے کے لیے کافی ہے۔

مورخین نے لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے مذہبی پیشوا جدید ہتھیاروں کو بھی بدعت جانتے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ روایتی اور ’’سنتی‘‘ ہتھیاروں سے جنگ لڑی جائے۔ ایسی جنگ کا نتیجہ شکست کے سوا کیا نکل سکتا تھا۔ اس فکر کے مطابق پاکستانی فوج کو آج گھوڑے پالنے چاہئیں۔ انھیں دشمنوں کے مقابلے کے لیے ٹینکوں، توپوں، میزائلوں، ہوائی جہازوں، آبدوزوں اور ڈرونز کی ضرورت نہیں۔ انھیں تیر، نیزے، بھالے، برچھے، تلواریں اور گنڈاسے تیار کرنے چاہئیں، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن ہمارے سامنے کیسے آتا ہے۔ ایسی فوج کی کمان پھر مولانا عبدالعزیز جیسوں کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔ ثقافتی اور تمدنی مظاہر میں تبدیلی تو مسلسل رونما ہوتی رہتی ہے۔ اس تبدیلی سے وجود میں آنے والی ہر چیز کو ’’بدعت شرعی‘‘ قرار دینے سے معاشرہ کہاں کھڑا رہ جائے گا؟ ایسی سوسائٹی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء اور تغیر پیدا نہیں ہوتا، گل سڑ جاتی ہے اور آخرکار کہانیوں میں باقی رہ جاتی ہے۔

اس مسئلے کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ مولانا عبدالعزیز پاکستان کے دارالحکومت میں براجمان ہیں۔ سرکاری مسجد پر زبردستی قابض ہیں۔ ان کی وجہ سے پہلے بھی خون آشام واقعات جنم لے چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کے دارالحکومت میں فوج سے معرکہ آرائی اور مسلح تصادم کا وہ پہلے ہی سبب بن چکے ہیں۔ اس تصادم کے پیچھے بھی ان کا تصور خلافت و حکومت رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اپنی تصوراتی خلافت کے وہ خودی امیرالمومنین بھی بنے ہوئے ہیں۔ ان کے طلبہ و طالبات نے مارکیٹوں میں جو کام شروع کیا تھا اور لوگوں کے گھروں میں گھس کر جس طرح سے کارروائیاں کی تھیں، ان کے نتیجے میں اسلام آباد غیر محفوظ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ مسجد و مدرسہ کے اردگرد اور آس پاس سے گزرنے والے لوگ اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرنے لگے تھے۔ انھوں نے صوفے کو آگ لگا کر اپنے اندر موجود اسی لاوے کی موجودگی کا اظہار کیا ہے، جو پہلے بھی باہر آچکا ہے۔

ہمیں ذاتی طور پر کسی کے ’’فہم دین‘‘ سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جب کسی کا فہم دین ٹی ٹی پی، صوفی محمد کی تحریک، داعش، القاعدہ اور بوکو حرام کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو پھر مسئلہ نہیں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ امر حیرت ناک ہے کہ ان سب گروہوں نے ہمیشہ مسلمانوں پر حملے کیے ہیں اور انھیں کو بے دردی اور سنگدلی سے قتل کیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے شہروں کو ’’فتح‘‘ کیا ہے۔ ماضی میں خوارج کا یہی طرز عمل رہا ہے۔ ان کے ہاتھوں بھی ہمیشہ مسلمان ہی قتل ہوئے۔ منظم طور پر تکفیریت کا آغاز ان سے ہی ہوتا ہے۔ آج کے تمام مذکورہ گروہ بھی تکفیری ہیں۔ وہ اپنے علاوہ اسلام کی ہر دوسری تعبیر رکھنے والے کو کافر ہی قرار دیتے ہیں۔

حیرت ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اسلام آباد میں موجود اس سرطان کا علاج نہیں کرسکے۔ سالہا سال سے مولانا عبدالعزیز اور ان کے چھوٹے سے گروہ نے گویا دارالحکومت کے ایک حصے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس مسئلے کا سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا تو کسی وقت زیادہ پھیلائو اور خطرناک صورت میں نمودار ہوسکتا ہے۔ وہ علماء اور مذہبی گروہ جو مولانا عبدالعزیز کی فکری پس ماندگی اور اس کے منفی اثرات کو جانتے اور دیکھتے ہیں، ان کی طرف سے بھی اس سنجیدہ ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا، جس کی ان سے بجا طور پر توقع کی جاتی ہے۔ بدعت کا یہ تصور اور دین کی یہ تعبیر لوگوں کو دین سے نزدیک نہیں کرسکتی۔ ایسے ہی واقعات و اظہارات دین سے دوری اور الحاد کے فروغ کا باعث بنتے ہیں اور دین گریز حلقوں کو تقویت دیتے ہیں۔ اسلام ستیزی اور اسلامو فوبیا کو یہ طرز عمل دلیل مہیا کرتا ہے۔

دین کو آج کی دلیل اور آج کے فہم کو سامنے رکھ کر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عجیب طرز فہم ہے کہ جس کے نتیجے میں صوفے پر بیٹھنا تو بدعت ہے، لیکن کار اور ہوائی جہاز پر بیٹھنا بدعت نہیں ہے۔ موٹر سائیکل، کار اور ہوائی جہاز پر سواری کب صحابہ کرامؓ کی سنت رہی ہے۔ مولانا نے اپنے لیے گدھے، خچر، گھوڑے اور اونٹ کا اہتمام کیوں نہیں کیا جبکہ صحابہ کرامؓ تو انہی سواریوں سے استفادہ کرتے تھے۔ کیا اس سے ہم یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ ’’بدعتوں‘‘ کی فہرست بھی مولانا کی مرضی پر منحصر ہے۔ پھر ماضی میں علماء نے کب ہر نئی چیز کو بدعت قرار دیا ہے۔ علماء کرام تو ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ دین اور شریعت کے نام پر کسی نئی چیز کو دین یا شریعت کا درجہ دینا بدعت شرعی ہے۔ یہ بدعت کا کونسا اور کیسا تصور ہے، جس کا اظہار مولانا عبدالعزیز کے وجود سے ہو رہا ہے۔ ہمیں ان لوگوں پر ضرور حیرت ہوگی، جو بایں ہمہ مولانا عبدالعزیز کو اسلام کا ایک عالم یا ترجمان سمجھتے ہیں۔