اقوال امام علی علیہ السلام انتخاب از نہج البلاغہ

Published by سید اسد عباس تقوی on

انتخاب : سید اسدعباس

آج مسلمان روسو، ڈیکارٹ، کانٹ، مارکس اور لینن جیسے درجنوں دانشوروں کے اقوال و نظریات میں اپنے درد کا درمان اور اپنے زخم کا مرہم ڈھونڈتے ہیں۔ دوسری قوموں کے رہبروں کے اقوال و تصانیف کو شمع ہدایت قرار دیتے ہیں مگر قرآن اور اپنے راہنماؤں کے ارشادات کو دیکھنے اور پڑھنے کی فرصت نہیں۔آئیں امیرالمؤمنینؑ ؑکے ان فرامین میں غور کریں۔ ان اقوال کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا اسلام نے کوئی حل پیش نہ کیا ہو۔ دنیاں کی بے وفائیوں، زندگی کی ناہمواریوں، مشکلوں کے طوفانوں کے مقابلے کےحل موجود ہیں۔ ناکامیوں کے اسباب اور ان کا حل، بلندیوں کو جاننے اور ان کے حصول کے طریقے سب ان میں موجود ہیں۔

وہ کون سا پھول ہے جو اس گلدستہ میں موجود نہیں اور وہ کون سا مرہم ہے جو اس دوا خانے میں نہیں۔ نہج البلاغہ کے یہ مختصر فرامین حقیقت میں قرآن کے دستور زندگی کی تفسیر ہیں جو عملاً آپ نے اپنائے اور ہمیں کر کے دکھائے۔ ہمیں بطور مسلمان فخر سے ان کو اپنانا چاہیے اور فخر ہی سے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔
خود شناسی:
كَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا اَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَهُ۔(خطبہ۱۶)
انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے۔
خاندان:
لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ وَ اِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عَشِيرَتِهِ۔ (خطبہ۲۳ )
کوئی شخص مالدار ہو تو بھی اپنے قبیلہ والوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
نیک نامی:
لِسَانُ اَلصِّدْقِ يَجْعَلُهُ اللَّهُ لِلْمَرْءِ فِي الْنَّاسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْمَالِ يُوَرِّثُهُ غَيْرَهُ۔ (خطبہ۲۳)
اللہ جس شخص کا سچا ذکر خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔
نرم مزاجی:
مَنْ تَلِنْ حاشِيَتُهُ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ۔ (خطبہ۲۳ )
جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔
بھلائی:
لَعَنَ اللهُ الْآمِرِینَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِکِینَ لَهُ وَ النَّاهِینَ عَنِ الْمُنْکَرِ الْعَامِلِینَ بِهِ۔ (خطبہ۲۷ )
اللہ لعنت کرے جو اوروں کو بھلائی کا حکم دیں اور خود اُسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود اُن کو انجام دیں۔
دو خوف:
اِنَّاَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَطُوْلُ الْاَمَلِ۔ (خطبہ۲۸ )
مجھے تمھارے بارے میں دو چیزوں کا بڑا خوف ہے، خواہشوں کی پیروی اور لمبی امیدیں۔
عبرت:
وَ اتَّعِظُوا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ قَبْلَ اَنْ يَتَّعِظَ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ۔ (خطبہ۳۲ )
اپنے سے پہلے والوں سے عبرت حاصل کرو اس سے پہلے کہ بعد والے تم سے عبرت حاصل کریں۔
ندامت:
فَاِنَّ مَعْصِيَةَ النَّاصِحِ الشَّفِيقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ تُورِثُ ‏الْحَسْرَةَ وَ تُعْقِبُ النَّدامَةَ۔ (خطبہ۳۵ )
مہربان، با خبر اور تجربہ کار نصیحت کرنے والے کی مخالفت کا نتیجہ و انجام حسرت و ندامت ہے۔
کفایت شعاری:
وَ لَا تَسْأَلُوافِيهَافَوْقَ الْكَفَافِ۔(خطبہ ۴۵)
اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو۔
خواہش پرستی:
إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ۔(خطبہ ۴۵)
فتنوں میں پڑنے کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔
دُنیا کی حقیقت:
فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُولِ کَفَیْ‏ءِ الظِّلِّ ۔ (خطبہ ۶۱)
دنیا عقل مندوں کے نزدیک ایک بڑھتا ہوا سایہ ہے۔
نعمت کا غرور:
نَسْأَلُ اللهَ سُبْحَانَهُ أَنْ يَجْعَلَنَا وَإِيَّاکُمْ مِمِّنْ لاَ تُبْطِرُهُ نَعْمَةٌ۔(خطبہ۶۲۹)
ہم اللہ سبحانہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمہیں ایسا بنا دے کہ نعمتیں سرکش نہ بنا سکیں۔
اللہ کا کنبہ:
عِيَالُهُ الْخَلاَئِقُ۔(خطبہ ۸۹) ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔
بے تحاشا محبت :
مَنْ عَشِقَ شَیئاً اَعْشَی بَصَرَهُ وَ اَمْرَضَ قَلْبَهُ۔ (خطبہ۱۰۷ )
جو شخص کسی شی سے بے تحاشا محبت کرتا ہے وہ اُس کی آنکھوں کو اندھا، دل کو مریض کر دیتی ہے۔
قرآن سے سبق:
تَعَلَّمُوْا الْقُرْآنَ فَاِنَّهُ اَحْسَنُ الْحَدِيثِ۔ (حکمت۱۰۸)
قرآن کی تعلیم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے ۔
صلہ رحمی:
وَصِلَةُ الرَّحِمِ فَإِنَّهَا مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ وَمَنْسَأَةٌ في الْأَجَلِ۔(خطبہ ۱۰۸)
رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرنا کہ یہ مال میں اضافہ اور عمر کی درازی کا سبب ہے۔
جلد بازی:
لاَ تَعْجَلْ فِي عَيْبِ اَحَدٍ بِذَنْبِهِ، فَلَعَلَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ۔ (خطبہ۱۳۰)
کسی پر گناہ کا عیب لگانے پر جلدی نہ کریں شاید اُس کو معاف کر دیا گیا ہو۔
بدلا:
كَمَا تَدِيْنُ تُدَانُ وَ كَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ۔ (خطبہ۱۵۱ ) جو بوؤ گے وہی کاٹو گے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
نیکیوں کا حکم:
اَلاَمْرُ بِالمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِن خُلُقِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ۔ (خطبہ۱۵۴)
نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔
خود سازی:
طُوبَى لِمَنْ شَغَلَهُ عَيْبُهُ عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ۔ (خطبہ۱۷۴ )
لائقِ مبارک باد ہے وہ شخص جسے اپنے عیوب دوسروں کی عیب گیری سے باز رکھیں۔
ظلم:
أمّا الظُّلمُ الذي لا يُترَكُ فظُلمُ العِبادِ بَعضِهِم بَعضا۔ (خطبہ ۱۷۴)
وہ ظلم جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔
کامل انسان:
لَا يَرْضَوْنَ مِنْ أَعْمَالِهِمُ الْقَلِيلَ وَلَا يَسْتَكْثِرُونَ الْكَثِيرَ۔ (خطبہ۱۹۱)
وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے۔
راہ راست:
لَا تَسْتَوْحِشُوْا فِي طَرِيْقِ الْهُدٰى لِقِلَّةِ اَهْلِه۔ (خطبہ۱۹۹ )
راہ راست پر چلنے والوں کی کمی کے باعث چلنے سے مت گھبرائیں۔
کلام:
دَعِ الْقَوْلَ فِيمَا لَا تَعْرِفُ وَ الْخِطَابَ فِيمَا لَمْ تُكَلَّفْ۔( وصیت ۳۱ )
جو چیز جانتے نہیں ہو اس کے متعلق بات نہ کرو اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں زبان نہ چلاؤ۔
پسند کا معیار:
اَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَاكْرَهْ لَهُ مَا تَكْرَهُ لَهَا۔ (وصیت۳۱)
جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرواور جو اپنے لیے نہیں چاہتے اُسے دوسروں کے لیےبھی نہ چاہو۔
ظلم سے پرہیز:
وَلَا تَظْلِمْ کَمَا لَا تُحِبُّ اَنْ تُظْلَمَ۔ (وصیت ۳۱ )
جس طرح چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔
خود پسندی:
اَلْاِعْجَابُ ضِدُّ الصَّوَابِ وَ آفَةُ الْاَلْبَابِ۔ ( وصیت ۳۱ )
خود پسندی صحیح طریقہ کار کے خلاف اور عقل کی تباہی کا سبب ہے۔
محنت:
فَاسْعَ فِي كَدْحِكَ وَ لَا تَكُنْ خَازِناً لِّغَيْرِكَ۔ (وصیت ۳۱ )
روزی کمانے میں کوشش کرو اور دوسروں کے خزانچی نہ بنو۔
آزادی:
وَلاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً۔ (وصیت ۳۱ )
دوسروں کے غلام نہ بنو جبکہ اللہ نے تمھیں آزاد بنایا ہے۔
بھلائی:
وَمَا خَيْرُ خَيْرٍ لاَ يُنَالُ اِلاَّ بِشَرٍّ۔ (وصیت ۳۱ )
اس بھلائی میں کوئی بھلائی نہیں جو بُرائی کے ذریعہ حاصل ہو۔
راز داری:
اَلْمَرْءُ‌ اَحْفَظُ لِسِرِّهِ‌۔ ( وصیت ۳۱ ) انسان اپنے رازوں کو خود ہی چھپا سکتا ہے۔
امیدیں:
اِيَّاكَ وَاْلِاتِّكَالَ عَلَى الْمُنَى فَاِنَّهَا بَضَآئِعُ النَّوْكَى۔ (وصیت ۳۱ )
خبردار امیدوں کے سہارے پر نہ بیٹھے رہنا کیونکہ امیدیں احمقوں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔
دوستی:
لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِيقِكَ صَدِيقاً فَتُعَادِيَ صَدِيقَكَ۔( وصیت ۳۱ )
اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاؤ گے۔
پردیسی:
اَلْغَرِيبُ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَبِيبٌ۔ ( وصیت ۳۱ )
پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔
قبیلہ:
اَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ فَاِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِهِ تَطِيْرُ۔ (وصیت ۳۱ )
اپنے قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمھارے پر و بال ہیں جن سے تم پرواز کرتے ہو۔
جوانی:
إنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالاَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا ألْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ۔ (خط۳۱ )
کم سن کا دل اس خالی زمین کے مانند ہوتا ہے جس میں جو بیج ڈالا جاتا ہے اسے قبول کر لیتی ہے۔
نظم و ضبط:
أُوصِیکُمَا وَ جَمِیعَ وَلَدِی وَ أَهْلِی وَ مَنْ بَلَغَهُ کِتَابِی بِتَقْوَى اللَّهِ وَ نَظْمِ أَمْرِکُمْ۔‏(وصیت۴۷)
میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور اپنے معاملات کو منظم رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔
عفو و درگزر:
فَاَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ الَّذِي تُحِبُّ وَ تَرْضَى اَنْ يُعْطِيَكَ اللَّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ۔ (خط ۵۳ )
تم دوسروں سے اسی طرح عفو و درگزر سے کام لینا جس طرح اللہ سے اپنے لیے عفو و درگزر کو پسند کرتے ہو۔
کینہ:
اَطْلِقْ عَنِ النَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْد۔ ( خط ۵۳ ) لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کھول دو۔
شکر:
وَاَكْثِرْ اَنْ تَنْظُرَ اِلَى مَنْ فُضِّلْتَ عَلَيْهِ، فاِنَّ ذَلِكَ مِنْ اَبْوَابِ الشُّكْرِ۔ ( خط ۶۹ )
جو لوگ تم سے کم حیثیت کے ہیں انہی کو زیادہ دیکھا کرو کیونکہ یہ تمھارے لیے شکر کا ایک راستہ ہے۔
زبان پر کنٹرول:
هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَه۔ (حکمت ۲)
جس نے خود پر زبان کو حاکم بنالیا اُس نے اپنی شخصیت کو ذلیل و رسوا کیا۔
فقر:
اَلْفَقْرُ یُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِهِ۔ (حکمت ۳)
فقر و تنگدستی عقلمند کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے گونگا بنا دیتی ہے۔
عفو و درگذشت:
اِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ، فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْهِ۔ (حکمت ۱۰)
دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔
احمق سے دوستی:
اِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْاَحْمَقِ۔ ( حکمت۳۸ )
بے وقوف سے دوستی نہ کرنا۔
زبان کی اہمیت:
لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَآءَ قَلْبِهِ وَ قَلْبُ الْاَحْمَقِ وَرَآءَ لِسَانِهِ۔ ( حکمت۴۰ )
عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اُس کی زبان کے پیچھے ہے۔
غرور:
سَيِّئَةٌ تَسُوءُكَ خَيْرٌ عِنْدَ اللّهِ مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ۔ (حکمت۴۶ )
وہ غلطی جو تمھیں پشیمان کرے اُس اچھائی سے بہتر ہے جو تمھیں مغرور کردے۔
زبان کے خطرات:
اَللِّسَانُ سَبُعٌ اِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ۔ (حکمت۶۰ )
زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اُسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔
خاموشی:
اِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ۔ ( حکمت۷۱ ) جب عقل پختہ ہوتی ہے تو گفتگو کم ہو جاتی ہے۔
علم:
وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ۔ ( حکمت۸۲ )
اگر تم میں سے کسی سے ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ ’’میں نہیں جانتا۔
تجربہ کی اہمیت:
رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ وَ رُوِيَ مِنْ مَشْهَدِ الْغُلَامِ۔ (حکمت۸۶ )
بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے۔
تکبر:
عَجِبْتُ لِلْمُتَکَبِّرِ اَلَّذِی کَانَ بِالْأَمْسِ نُطْفَةً وَ یَکُونُ غَداً جِیفَةً۔(حکمت۱۲۶)
مجھے تعجب ہے متکبر و مغرور پر جو کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہوگا۔
عظمت خدا:
عَظُمَ الْخالِقُ فى اَنْفُسِهِمْ، فَصَغُرَ ما دُونَهُ فى اَعْيُنِهِمْ۔ ( حکمت۱۲۹ )
خالق کی عظمت کا احساس انسانوں کی نظروں میں اس کے غیر کو کم ترکر دیتا ہے۔
عورت کا جہاد:
جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّل‏۔( حکمت۱۳۶ ) عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔
صدقہ:
اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ۔ (حکمت۱۳۷ ) صدقے کے ذریعے رزق و روزی طلب کرو۔
مشورہ:
مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِهِ هَلَكَ، وَمَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا۔( حکمت۱۵۸ )
جو اپنی ہی رائے کو سب کچھ سمجھتا ہے وہ ہلاک ہوگا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔
رازداری:
مَنْ كَتَمَ سِرَّهُ كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِهِ۔ ( حکمت۱۶۲ )
جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
جہالت:
النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا۔ ( حکمت۱۷۲ ) لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔
غور و فکر:
مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوهَ الْآرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ۔ ( حکمت۱۷۳ )
جو شخص مختلف آراء کا سامنا کرتا ہے وہ خطاؤں کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔
وسعت صدر:
آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ۔ ( حکمت۱۷۶ ) سرداری کا ذریعہ سینے کی وسعت ہے۔