×

ہندوستان کا متنازعہ وقف ترمیمی بل2024ء

syedasadabbas

ہندوستان کا متنازعہ وقف ترمیمی بل2024ء

تحریر: سید اسد عباس

ہندوستان کی وزارت دفاع کے پاس 17.95 لاکھ ایکڑ اراضی ہے جبکہ ریلوے کے پاس تقریباً 12 لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ وقف بورڈ 9.4 لاکھ ایکڑ اراضی کے ساتھ تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ انڈیا کی مختلف ریاستوں میں 32 وقف بورڈ ہیں، جن میں شیعہ اور سنّیوں کے خصوصی وقف بورڈ بھی شامل ہیں۔ اتنے وسیع پیمانے پر جائیداد ہونے کے باوجود بھی مبینہ بدعنوانی کے وجہ سے وقف بورڈ کو محض 200 کروڑ روپے کی آمدنی  ہوتی ہے۔ وقف کے معاملات میں بدعنوانیوں کے سبب ہندوستان میں 1954ء وقف ایکٹ کا اطلاق کیا گیا، جسے 1995ء میں منسوخ کرکے نیا وقف ایکٹ منظور کیا گیا۔ بی جے پی حکومت اس وقت 1995ء کے وقف ایکٹ کو ترمیم کر رہی ہے، جس کے حوالے سے بھارت کے مذہبی حلقوں میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ بی جے پی کے رہنماء پریم شُکلاک کے مطابق وقف بورڈ کے پاس 50 ممالک کے رقبے سے زیادہ اراضی ہے، اس لیے اس لینڈ جہاد کو روکنے کے لیے حکومت ایک بل لا رہی ہے، جو وقف بورڈ کو شفاف بنائے گا۔

وقف بورڈ کے پرانے قانون میں تقریباً تین درجن تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جنھیں ناقدین نے مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ترمیم ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کرسکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔ یہ بِل مرکزی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکٹو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کو ریاستی حکومت کے ذریعہ تعینات کرسکے۔ ترامیم کے ذریعے استعمال کے ذریعے وقف (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔ نئی مجوزہ ترامیم کے مطابق اگر کسی جائیداد کا وقف نامہ موجود نہیں تو وقف کی اس جائیداد کی ملکیت مشتبہ تصور کی جائے گی (یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی مانند ہندوستان میں وقف کی اکثر املاک مشتبہ ہی ہیں، کیونکہ نہ ان کا کوئی کاغذ ہے اور نہ کوئی وقف دہندہ)۔

نئے بل کی شق کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کرسکتا ہے، جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلکٹر کو دیا گیا ہے۔ بل کے مطابق حکومت کے قبضے میں وقف املاک سے متعلق تنازعے میں کلکٹر کا فیصلہ موثر مانا جائے گا، نیز وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔ قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے اس بل کے حوالے سے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا: یہ آئین پر حملہ ہے۔ آج مسلمان نشانے پر ہیں، کل کوئی اور برادری نشانہ بن سکتی ہے۔ کئی مسلم تنظیمیں اس نئے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہیں۔ وقف ترمیمی بل پر سپریم کورٹ کے وکیل فضل احمد ایوبی کا کہنا ہے: وقف اراضی حکومت کی نہیں بلکہ عطیہ کی گئی اراضی ہے، جو لوگوں نے اپنی جائیداد سے دی تھی، لیکن حکومت ایسا کر رہی ہے، جیسے وقف نے سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا ہو۔

لوک سبھا میں اس بل پر بحث کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ مجھے لگتا ہے کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ارکان کے ذہنوں میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں اور انھیں پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ ایکٹ مسلم کمیونٹی کے مذہبی حقوق اور املاک میں مداخلت کرے گا۔ یہ مکمل طور پر غلط ہے اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کی محض ایک سازش ہے۔ وقف ایکٹ میں دو طرح کی جائیداد کا ذکر ہے۔ پہلا وقف اللہ کے نام پر ہے، یعنی ایسی جائیداد جو اللہ کے لیے وقف کی گئی ہو اور جس پر میراث کا کوئی حق باقی نہ ہو۔ وقف کی دوسری قسم میں ایسی وقف جائیداد ہے، جس کی دیکھ بھال ورثاء کریں گے۔ اس دوسری قسم کے وقف سے متعلق نئے بل میں انتظام کیا گیا ہے۔ اس سے خواتین کا وراثت کا حق نہیں چھیننا چاہیئے۔ ایک بار جب ایسی عطیہ کی گئی جائیداد وقف کے کھاتے میں آجائے تو ضلع کلکٹر اسے بیوہ خواتین یا ایسے بچوں کی بہبود کے لیے استعمال کرسکے گا، جن کے والدین نہیں۔

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 1998ء میں دیئے گئے اپنے ایک فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ ایک بار جب کوئی جائیداد وقف ہو جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے وقف رہتی ہے۔ وقف املاک کی خرید و فروخت نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ ہی انھیں کسی کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس بل کے حق میں بات کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم جماعت کے قومی صدر مولانا مفتی شہاب الدین رضوی بریلوی نے کہا: اس ترمیم کے ذریعے، مرکزی حکومت وقف بورڈ کی جائیداد کے معاملے میں من مانی کو روک دے گی۔ اس سے لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر وقف املاک کو بیچنے یا لیز پر دینے کے کاروبار پر روک لگ جائے گی۔ کانگریس، ایس پی، ٹی ایم سی سمیت ہندوستانی اتحاد کی جماعتوں نے حالیہ وقف بل کی مخالفت کی جبکہ بی جے پی کی حلیف جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی نے اس بل کی حمایت کی۔

ظاہراً وقف بل کا مقصد بی جے پی حکومت نے اس شعبے میں موجود مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ قرار دیا ہے، تاہم اقلیتوں کے حوالے سے بی جے پی کا کردار اور رویہ کبھی بھی قابل اعتماد نہیں رہا۔ وقف بل کے حوالے سے بی جے پی کے راہنماؤں کے بیانات بھی اس بل کے بارے میں شکوک و شبہات کو بڑھاتے ہیں، مثلاً وقف کو لینڈ جہاد قرار دینا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا اقلیتوں کے خلاف قانون سازی کا پیٹرن نیا نہیں ہے۔ یہ اقدام جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی، شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) اور آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) جیسے اقدامات کا تسلسل ہے۔ ان میں سے ہر ایک قانون نے غیر متناسب طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی کو متاثر کیا ہے۔ مسلم اداروں کو نشانہ بنانا، خواہ قانونی تنظیم نو کے ذریعے ہو یا متنازعہ مسلسل خلاف ورزی، انتظامی غیرجانبداری کا نہیں بلکہ آبادیاتی اور ثقافتی ترتیب نو کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔

ہندوستان کی دیگر جماعتیں اس قانون کی مخالفت کسی کمیونٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین میں چھیڑ چھاڑ کے تناظر میں کر رہی ہیں۔ رکن پارلیمنٹ اور مسلم راہنما اسدالدین اویسی کا کہنا ہے: "غیر مسلموں کو مسلم اوقاف کا انتظام کرنے کی اجازت دینا سیکولرازم نہیں ہے، یہ جبر ہے۔” شیعہ راہنماء علامہ کلب جواد کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مندروں میں بہت سا غیر دستاویزی سونا پڑا ہے، اگر حکومت اس سونے کو سرکاری تحویل میں لے لے تو ڈالر کی قیمت ہندوستانی روپے کی سطح پر آسکتی ہے۔” بادی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ مودی بھارت میں ہندوتوا کے ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کی طرز پر آگے بڑھ رہا ہے۔

Share this content: