مولوی ابراہیم مرحوم
تحریر: سید نثار علی ترمذی
مولوی ابراہیم صاحب مرسیاں، ضلع جالندھر (ہندوستان) سے ہجرت کرکے ہمارے گائوں شیخن میں آباد ہوئے تھے۔ راج گیری پیشہ تھا، جس میں وہ قابل رشک مہارت رکھتے تھے۔ کچھ زرعی زمین بھی تھی۔ ہمارے گائوں ’’شیخن‘‘ کی زیادہ تر آبادی اہل بیتؑ کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ آزادی سے پہلے یہاں چند گھرانے ہندوئوں کے آباد تھے، جن کی جگہ بعد ازاں مولوی ابراہیم اور ان کی برادری کے افراد آباد ہوگئے۔ مولوی ابراہیم شروع ہی سے مذہب کی جانب انتہائی رغبت رکھتے تھے۔ قرآن کی تلاوت و نماز کی پابندی اور دیگر واجبات کی ادائیگی کو فریضہ اولین گردانتے تھے۔ مذہب کے اعتبار سے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخن گائوں میں آباد ہوتے ہی مولوی صاحب نے اپنی ایک علیحدہ مسجد تعمیر کروائی اور خود اس کے امام جماعت اور تراویح سمیت تمام عبادت میں مولوی صاحب اپنی برادری کی راہنمائی کرتے تھے، کیونکہ اپنی برادری میں صرف موصوف ہی پڑھے لکھے تھے۔ اگرچہ مولوی صاحب نے صرف قرآن مجید ہی پڑھا تھا، مگر وہ اردو آسانی سے پڑھ لیتے تھے۔ ادھر تعصب کا عالم یہ تھا کہ شیعوں کے گھر کی کسی چیز کو اپنے لیے روا نہ سمجھتے تھے، کیونکہ مولوی صاحب راج گیری میں مہارت رکھتے تھے، اس لیے دور دور سے لوگ انھیں تعمیر کے لیے لے جاتے۔
ہمارے گائوں سے دو کلو میٹر دور ایک گائوں رتہ کلاں ہے، جہاں تعمیر کے سلسلہ میں مولوی صاحب کو جانا پڑا۔ وہاں مولانا غلام حسن صاحب جو کہ تازہ تازہ مذہب اہل بیتؑ کے حلقہ میں آئے تھے، ان کو مولوی ابراہیم صاحب نے وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ مولوی صاحب سے رہا نہ گیا۔ انھوں نے مولانا غلام حسن صاحب سے پوچھا کہ یہ وضو آپ نے کیسے کیا، یہ تو غلط ہے۔ مولانا صاحب نے کہا میں نے وضو قرآن مجید کے مطابق کیا ہے اور وضو کی آیت پڑھی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میرے گھر قرآن مجید ہے، جو کہ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ شدہ ہے، اس میں سے دیکھوں گا۔ یہ پرانا ایڈیشن تھا۔ جس کی میں نے زیارت کی ہے، گو بعد کے ایڈیشنوں میں مسح کے ساتھ بریکٹ میں دھونا لکھ دیا گیا ہے۔ مولوی صاحب قرآن مجید رغبت سے پڑھتے تھے۔ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی اور خصوصاً وضو والی آیت کو پڑھا، جس کے ترجمہ میں لکھا تھا کہ ’’مسح کرو سر کا اور پائوں کا۔‘‘
مولوی صاحب ترجمہ پڑھ کر حیران ہوگئے۔ انھوں نے اس کے بارے میں اپنے ہم مسلک ایک مولانا سے رابطہ کیا، جو جھنگ شہر میں رہتے تھے اور ان سے کہا کہ قرآن مجید میں وضو اور طرح سے لکھا ہوا ہے، مگر ہم وضو کسی اور طرح سے کرتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں مولوی صاحب نے قرآن کی آیت دکھلائی اور ترجمہ دکھایا، مگر مولانا نے اس کی وضاحت کی کہ آپ اس ترجمہ کو سمجھے نہیں۔ مسح کے مطلب بھی دھونا ہوتا ہے تو مولوی صاحب کیونکہ حق کو پہنچ چکے تھے، انہوں کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پائوں کو دھونے کے ساتھ ہم سر کو کیوں نہیں دھوتے، جس کا جواب مذکورہ مولانا کے پاس نہ تھا۔ یوں مولوی صاحب نے اپنا وضو قرآن کے مطابق شروع کر دیا اور نماز کے بارے میں تحقیق شروع کر دی اور اپنی مخلصانہ تحقیق کے نتیجہ میں جلد ہی دین مذہب حقہ قبول کرلیا۔
مولوی صاحب کے مذہب اہل بیتؑ کی طرف جھکائو پیدا کرتے ہی ان کی برادری نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ مولوی صاحب کو بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا اور تعلقات توڑنے کی دھمکیاں تسلسل کے ساتھ موصول ہونے لگیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مولوی صاحب کثیر العیال تھے۔ سات بیٹیاں اور چار بیٹے تھے، مگر مولوی صاحب نے حق کی راہ میں ذرا بھی پسپائی نہ دکھلائی۔ ایک دن مولوی صاحب کی برادری کے چند قریبی افراد نے انھیں بلایا اور کہا کہ مولوی صاحب آپ ہی تو ہم میں سمجھ دار تھے اور ہم آپ کی تقلید کرتے تھے، مگر آپ نے یہ کیا کیا کہ باپ دادا کا مذہب چھوڑ دیا اور نئے مذہب کو اپنا لیا۔ ہم تو صرف قرآن مجید کو مانتے ہیں، اگر تم قرآن مجید اٹھا کر قسم اٹھائو کہ مذہب شیعہ حق ہے تو ہم تمھارا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ مولوی صاحب نے وضو کرکے قرآن مجید سر پر رکھ کر مذہب اہل بیتؑ کی حقانیت کی گواہی دی۔ یوں مولوی صاحب کی برادری کے کافی لوگ شیعہ ہوگئے۔ وہ مسجد جو کہ مولوی صاحب نے انتہائی شوق اور محنت سے بنوائی تھی۔ اس میں بھی علی ولی اللہ کی اذان بلند ہونے لگی۔
بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ پچاس کے قریب لوگ مولوی صاحب کی وجہ سے مذہب اہل بیتؑ کے حلقہ میں آئے۔ مولوی صاحب انتہائی نیک آدمی تھے۔ ان کی ذات سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ کسی کا بھی کوئی نقصان نہیں کیا۔ راج گیری پیشہ تھا۔ مگر اس میں بھی اصول پسند تھے، دن کا تصور ان کے پاس سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک تھا۔ اس دوران سوائے نماز و طعام کے مولوی صاحب سارا دن کام کرتے رہتے تھے۔ ان کی دیانت اور ایمان داری کی شہرت تھی۔ مزدوروں سے کام اور سامان کی بچت اور کام کی تیزی کا خیال مولوی صاحب اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ مسجد، امام بارگاہ وغیرہ کی تعمیر میں مولوی صاحب اپنا حصہ ضرور ڈالتے اور کئی کئی دہاڑیاں مفت لگاتے، سخت گرمی میں بھی روزہ رکھتے۔ مزدوری کرتے اور سحری کے وقت پورے گائوں کو اٹھاتے۔ اس وقت سپیکر کا رواج نہیں تھا۔ مولوی صاحب ایک ایک دروازہ پر جا کر آواز لگاتے، جب گھر والا جواب دیتا تو تب آگے بڑھتے۔ یہ کام انھوں نے سخت سردیوں میں بھی جاری رکھا۔ جب سپیکر آیا تو مولوی صاحب نے یہ ذمہ داری بھی خود سنبھال لی۔
نماز جماعت کے بہت شیدائی تھے، ہمارے گائوں میں تین مساجد کے باوجود نماز باجماعت کا اہتمام نہ تھا۔ مولوی صاحب کی تحریک پر رمضان المبارک میں پیش نماز آنے لگے۔ گو پیش نماز ہمیں میزبانی کا شرف بخشتے، مگر مولوی صاحب کی کوشش ہوتی کہ چند دن پیش نماز ان کے گھر سے بھی حصول برکات کے لیے ضرور کھائے۔ ہم لوگ گائوں چھوڑ کر اڈے پر نئی آبادی میں چلے آئے، جو کہ ایک کلو میٹر دور ہے۔ یہاں مسجد میں مستقل پیش نماز کا اہتمام کیا گیا۔ اب مولوی صاحب ہر حال میں نماز جمعہ میں شرکت کے لیے تشریف لاتے۔ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں بہت بیمار ہوگئے، مگر نماز جمعہ میں شرکت قضا نہ کی۔ میں نے ایک دن پوچھا کہ آپ اتنی دور کیسے آجاتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ جمعہ کے روز تیار ہو کر سڑک پر آکر بیٹھ جاتا ہوں، کسی آنے جانے والے کے ساتھ سائیکل وغیرہ پر بیٹھ کر نماز جمعہ میں شریک ہو لیتا ہوں۔
مولوی صاحب عدل و انصاف میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے مخالف اپنے مسئلوں میں بھی ان کو ثالث ٹھہراتے تھے اور مولوی صاحب لگی لپٹی لگائے بغیر صحیح اور حق بات کہ دیتے تھے۔ جب علامہ افتخار حسین نقوی صاحب نے ہمارے حلقہ سے الیکشن لڑا تو مولوی صاحب کا جذبہ دیدنی تھا۔ انھوں نے بیماری کی حالت میں بھی کنویسنگ میں بھرپور حصہ لیا، وہ اپنی برادری کے سنی افراد کے پاس بھی گئے اور امیدواروں کا تقابلی جائزہ پیش کرکے انھیں قائل کیا کہ ایک عالم دین کو ووٹ دینا چاہیئے۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے علاقے میں جو بھی نیکی کا کام ہوا، مولوی صاحب کا اس میں باقاعدہ حصہ ہے۔ مولوی صاحب نے زندگی بھر محنت مزدوری کی اور حلال کمایا اور اس میں سے دین کی راہ میں خرچ کیا، ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ جب کوئی انتقال کر جاتا تو مولوی صاحب غسل کفن اور قبر کی تعمیر اور تدفین تک میں شریک رہتے۔
اس دنیا سے ہر ایک نے جانا ہے، مولوی ابراہیم صاحب چلے گئے۔ مگر ان کی یادیں ان کی نیکیاں زندہ رہیں گیں۔ ان کی زندگی کے روشن پہلو دوسروں کے لیے رہنماء اصول کی طرح باقی رہیں گے، جن سے ان کے عقیدت مند اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالتے رہیں گے۔ آپ 19 جون 1996ء کو اس جہان فانی کو چھوڑ گئے۔ إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ اللہ تعالیٰ مولوی ابراہیم مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔ (یہ مضمون 24 اگست 1996ء ہفت روزہ رضاکار اخبار لاہور میں شائع ہوا تھا، جو اب دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے)
Share this content: