مولانا مودودی کا تصور حکومت عقل و خرد کے پیمانے پر(2)
تحریر: سید اسد عباس
اپنی گذشتہ تحریر بعنوان "مولانا مودودی کا تصور حکومت عقل و خرد کے پیمانے پر” میں راقم نے قارئین کے لیے بیان کیا کہ مولانا مودودی اس بات کے قائل تھے کہ حاکمیت اعلیٰ خدا سے مخصوص ہے۔ انھوں نے دوسری بات یہ کی کہ اس کے ملک (dominion) میں اس کی خلق پر خود اس کے سوا کسی دوسرے کا امر جاری ہونا اور حکم چلنا بنیادی طور پر غلط ہے۔ اس غلطی کے سدھار کے لیے مولانا مودودی نے جو حل نکالا وہ یہ تھا کہ "صحیح راستہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت میں اس کے قانونِ شرعی کے مطابق حکمرانی ہو اور فیصلے کیے جائیں۔” اس مقصد کے لیے مولانا قرآن کریم سے دلائل لائے کہ اللہ نے مومنین کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔(النور55) لہذا جو بھی مومن ہے اور نیک کام کرتا ہے، وہ خلیفہ ہے۔ حالانکہ قرآن کی آیات واضح طور پر کہتی ہیں کہ خدا نے یہ حق کبھی بھی انسانوں کو نہیں دیا کہ وہ اس کے خلیفہ یا نائب کا تعین کریں۔ مولانا مودودی سورۃ نور کی درج بالا آیت کے تناظر میں اس امر کے قائل ہوئے کہ پوری امت کے نیک لوگ اللہ کے نائب اور خلیفہ ہیں۔
اب ساری امت تو حکمرانی کرنے سے رہی، لہذا مولانا مودودی اپنی کتاب "اسلامی ریاست فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی” میں رقمطراز ہیں: "اسلامی مملکت میں صدر کا انتخاب عام لوگوں کی رضامندی پر منحصر ہے۔ کوئی شخص خود زبردستی امیر بن جانے کا حق نہیں رکھتا۔ کسی خاندان یا طبقے کا اس منصب پر اجارہ نہیں ہے اور انتخاب کسی جبر کے بغیر مسلمانوں کی آزادانہ رضامندی سے ہونا چاہیئے۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی پسند کیسے معلوم کی جائے تو اس کے لیے اسلام میں کوئی خاص طریق کار مقرر نہیں کر دیا گیا ہے۔ حالات اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، بشرطیکہ ان سے معقول طور پر یہ معلوم کیا جاسکتا ہو کہ جمہور قوم کا اعتماد کس شخص کو حاصل ہے۔”۔
مولانا خلیفہ کی جانب سے شوریٰ کی تشکیل کو اسلامی اصول نہیں گردانتے بلکہ اسے اوائل اسلام کے معاشرے کی ضرورت قرار دیتے ہیں، تاہم شوریٰ کی تشکیل کے قائل ہیں اور قائل ہیں کہ خلیفہ کو مسلمان معاشرے کی معتمد شخصیات سے مشورہ لینا چاہیئے۔ اب جو لوگ ابو بکر البغدادی، ملا عمر یا جولانی کو خلیفہ مانتے ہیں، انھیں کیسے سمجھایا جائے کہ آج کی دنیا کے "نظریہ پرداز نظام اسلامی و حاکمیت اسلامی” کے مطابق نہ تو آپ خلیفہ ہیں، نہ آپ کی شوریٰ اسلامی شوریٰ، کیونکہ آپ زبردستی وارد ہوئے ہیں یا کیے گئے ہیں اور آپ کی شوریٰ بھی ریاست کے عوام کی معتمد نہیں ہے۔ اگر مولانا مودودی کی گفتگو پر غور کیا جائے تو بنیادی طور پر مولانا مودودی دنیا پر اللہ کی حاکمیت چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ فقط اسلامی ریاست کے قیام کے ذریعے ممکن ہے۔
اب اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو فارمولا انھوں نے پیش کیا، وہ صدر اسلام کی مثالوں اور اسلامی تعلیمات کا مکسچر ہے۔ اس مکسچر پر خلافت الہیٰ کا تڑکہ مولانا نے اپنی جانب سے لگا دیا۔ یہ شاید مولانا کی مجبوری تھی، کیونکہ وہ جس معاشرے سے مخاطب تھے، وہ خلافت راشدہ کو ہی جانتا اور سمجھتا تھا، نیز پسند بھی کرتا تھا۔ اس معاشرے کو اطاعت اولی الامر کے ذریعے ہی مطیع کرنا ممکن تھا۔ مولانا نے اپنے اسلامی حکومت کے تصور میں بھرپور کوشش کی کہ خلیفہ کی خصوصیات اور ذمہ داریاں، اسلامی حکومت کی خصوصیات اور ذمہ داریاں، خلیفہ کی حد، اس کے انتخاب کا طریقہ کار، خلیفہ کی اطاعت کی حد، شوریٰ کے انتخاب کا طریقہ کار ان کی خصوصیات اور حد، احتساب کا نظام، اداروں کی حدود و قیود وغیرہ سب کو بیان کیا جائے۔
مگر میں اب تک جو بات نہیں سمجھ پایا، وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کرنے، شورائی نظام حکومت تشکیل دینے، عدل و انصاف کی عملداری، اقامت دین، عوامی بھلائی، احتساب کے نظام، اسلامی معیشت کے لیے سربراہ مملکت کو اللہ کا خلیفہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔؟ یہ تمام کام اس مقبوضہ یا خود ساختہ ٹائیٹل کے بغیر بھی تو ممکن ہیں۔ جب خدا نے واضح طور پر فرما دیا "جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔ اسی طرح جس طرح ان سے پہلے اس نے دوسروں کو خلیفہ بنایا تھا” تو پھر اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے لیے خلیفہ چننا چہ معنی دارد۔؟ مولانا کے تصور حکومت اسلامی میں خلیفہ اللہ اور نائب خدا کے عوام یا شوریٰ کے ذریعے تعین کا تصور قرآنی تعلیمات اور سنت رسولؐ کے منافی تصور ہے، اسے زیادہ سے زیادہ بعض صحابہؓ کی سیاسی روش کی پیروی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر مولانا خلیفہ کو اللہ کا خلیفہ قرار دینے کی سیاسی اور نظری وجوہات کو بیان کر دیتے تو نہایت مناسب ہوتا، ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی واضح کر دینا چاہیئے تھا کہ صدر اور وزیراعظم نام کا انسان وہ کام کیوں نہیں کرسکتا، جو اسلامی ریاست کے تناظر میں ان کے مدنظر ہیں۔ مولانا مودودی بہت بڑے مفکر اور محقق تھے، تاہم انھوں نے نہ جانے کیوں رسول اللہ ؐ کی اس متفقہ حدیث کو نظر انداز کر دیا: (ترجمہ: جابر کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم ؐ سے سنا کہ آپ نے فرمایا: "بارہ امیر ہونگے۔ اس کے بعد کچھ ارشاد فرمایا، جسے میں نے نہیں سنا۔ میرے والد نے کہا: پیغمبر اکرم ؐفرماتے ہیں کہ: یہ سب کے سب قریش میں سے ہونگے۔) رسول اللہ ؐ نے خلیفہ کا تعین نہیں کیا، اس حدیث کی روشنی میں جھوٹ ہے۔ بارہ کون ہیں، اس کے حوالے سے امت میں مردم شماری جاری ہے۔ شیعہ ان کو اہل بیت ؑ سے قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر مسالک مختلف افراد کے نام سامنے لاتے ہیں۔
میری نظر میں تو بحث اس بات پر کی جانی چاہیئے کہ صدر اور وزیراعظم وہ کام کیوں نہیں کرسکتے، جو مولانا کا شورای خلیفہ انجام دے گا۔؟ مولانا مودودی کے تصور خلافت الہیہ یا نیابت خدا پر درج بالا حدیث نیز اس سے ملتی جلتی احادیث و روایات کے تناظر سے تنقید نہیں کی گئی ہے۔ خلافت الہیہ کے بعد از رسول ؐ تسلسل پر یقین رکھنے والوں کو اس موضوع پر باقاعدہ علمی رد پیش کرنا چاہیئے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ خلافت صدر اسلام کا حصہ کن حالات میں بنے اسے امت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے، نیز گذشتہ امتوں میں موجود خلافت الہیہ یا نیابت کی مثالوں کے تناظر میں واضح کیا جانا چاہیئے کہ سورۃ نور کی آیت سے مراد پوری امت یا سب نیکوکاروں کی نیابت خدا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عام انسانی اقتدار کو الہیٰ اقتدار کا تسلسل قرار دینے کی آفات پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہیئے اور یہ بھی جائزہ لیا جانا چاہیئے کہ کیا مولانا مودودی کی خلیفۃ اللہ کے حوالے سے بیان کردہ احتیاطی تدابیر اور خلیفہ کے احتساب کا طریقہ کار فقط نظریاتی خواہشات ہیں یا ان کا عملی اطلاق بھی ممکن ہے۔
چند اہل سنت علماء کی مولانا مودودی کے سیاسی نظریات پر نقد
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نظریات، خاص طور پر ان کے تصورِ حکومت، خلافت، اور اسلامی ریاست کے حوالے سے، مختلف سنی علماء اور مکاتبِ فکر نے تنقیدی آراء کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ اسلامی ریاست میں حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیئے اور انسان اس کے نائب (خلیفہ) کی حیثیت سے حکومت کریں۔ مولانا مفتی محمد شفیع (دیوبندی) نے کہا کہ مودودی کا یہ نظریہ "خلافت” کے کلاسیکی سنی تصور سے مختلف ہے، جس میں امامت/خلافت کے لیے اجماعِ امت اور اہلِ حل و عقد کی رائے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی (اہل حدیث) نے تنقید کی کہ مودودی کا نظریہ "حاکمیتِ الہیٰ” اتنا سخت ہے کہ اس میں انسانی اجتہاد اور فقہی اختلافات کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ جاوید احمد غامدی کا خیال ہے کہ مودوی کا نظریہ "حاکمیتِ الہیٰ” کو اتنی شدت سے پیش کرتا ہے کہ انسانی عقل اور اجتماعی مصلحت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
مولانا مودودی اسلامی ریاست کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے تحت معاشرے میں اسلامی اقدار کو نافذ کرے۔ مولانا وحید الدین خان جیسے مفکرین کا کہنا ہے کہ یہ نقطۂ نظر (دین میں کوئی جبر نہیں) کے قرآنی اصول کے منافی ہے۔ جدید حقوقِ انسانی کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس طرح کا نظام شہریوں کی انفرادی آزادیوں کو محدود کرتا ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب "خلافت و ملوکیت” میں خلافتِ راشدہ کو مثالی نظام قرار دیا، جبکہ اموی و عباسی دور کو "ملوکیت” بادشاہت) سے تعبیر کیا، جو ان کے خیال میں اسلام کے اصل تصورِ حکومت سے انحراف تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا ہے کہ مولانا مودودی نے خلافتِ راشدہ کے بعد کے ادوار کو یکسر مسترد کر دیا، حالانکہ ان ادوار میں بھی اسلامی اصولوں کی پاسداری کی گئی۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ خلافتِ راشدہ کا نظام بھی مکمل طور پر جمہوری نہیں تھا، بلکہ اس میں بھی بعض خلفاء کے انتخاب میں تنازعات رہے۔
مولانا مودودی نے اسلامی نظامِ حکومت کو ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے قائم کرنے پر زور دیا اور جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست کا قیام ایک منظم تحریک کے بغیر ممکن نہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے علماء کا کہنا ہے کہ اسلام صرف ایک سیاسی نظام نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں روحانی، اخلاقی اور سماجی اصلاح بھی شامل ہے۔ بعض ناقدین جیسے ڈاکٹر اسرار احمد کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا طریقۂ کار بعض اوقات فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بنا۔ مولانامودودی کا تصورِ حکومت ایک مثالی اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ جدید دور میں عملی طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔؟ بعض معاصر مفکرین جیسے ڈاکٹر طارق رمضان کا کہنا ہے کہ مودودی کا نظریہ بعض جگہوں پر انتہائی سخت اور لچک سے عاری ہے، جو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دوسری طرف، بعض اسلامی اسکالرز جیسے یوسف القرضاوی کا ماننا ہے کہ مودودی کے افکار کو وقت کے ساتھ نئے اجتہادات کی روشنی میں اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
Share this content: