مولانا مودودی کا تصور حکومت عقل و خرد کے پیمانے پر
تحریر: سید اسد عباس
مولانا مودودی اپنی کتاب "اسلامی ریاست فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی” میں رقمطراز ہیں: "قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے۔ خلق اسی کی ہے، لہٰذا فطرتاً امر کا حق (right of rule) بھی صرف اسی کو پہنچتا ہے۔ اس کے ملک (dominion) میں اس کی خلق پر خود اس کے سوا کسی دوسرے کا امر جاری ہونا اور حکم چلنا بنیادی طور پر غلط ہے۔ صحیح راستہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت میں اس کے قانونِ شرعی کے مطابق حکمرانی ہو اور فیصلے کیے جائیں۔” پہلی بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے اور امر کا حق اسی کا ہے، تاہم دوسری بات قابل غور ہے کہ انسان اس کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے اس کے قانون شرعی کے مطابق حکمرانی اور فیصلے کرے۔ یہ بات ایک طرح سے پہلی بات کا رد ہے کہ اللہ نے اگر امر نہیں دیا اور کسی انسان کو خلیفہ یا نائب متعین نہیں کیا تو خلق کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ وہ خلیفہ خدا اور نائب الہیٰ کا از خود تعین کرے۔
تاریخ عالم اسلام اس امر پر گواہ ہے کہ مولانا مودودی کی یہ خواہش یا اسلامی نظام سیاست کا فہم عالم اسلام میں متعدد بار آزمایا گیا ہے اور اس ازخود تعین کردہ خلیفۃ اللہ کی کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک خلیفہ دوسرے کا قاتل بنا، ایک نائب نے دوسرے کو اقتدار سے الگ کیا، خلافت کو ایک الہیٰ منصب قرار دے کر مخالفین کو دین دشمن کہہ کر ان کا قلع قمع کیا گیا۔ خلیفہ، نائب الہیٰ، ظل الہیٰ کے احکامات سے اختلاف کرنے والوں کو بغاوت کے جرم میں سخت سزائیں دی گئیں۔اور تو اور خود نواسہ رسول امام حسین ؑ کو باغی کہہ کر قتل کیا گیا۔ مولانا محترم اپنی مذکورہ بالا کتاب "اسلامی ریاست فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی” میں نظریہ خلافت کے ذیل میں رقمطراز ہیں: "زمین میں جو لوگ خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اٹھیں، ان کی حیثیت کیا ہونی چاہیئے تو آپ کا ذہن خود بخود پکارے گا کہ وہ اصلی حاکم کے نائب قرار پانے چاہییں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حیثیت اسلام نے بھی ان کو دی ہے۔
چنانچہ قرآن کہتا ہے: "وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ” (النور24:55) ترجمہ: "جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا، اسی طرح جس طرح ان سے پہلے اس نے دوسروں کو خلیفہ بنایا تھا۔” حیرت ہے کہ وہ انسان جو خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اٹھے یا اس کے لیے کوشش کرے، وہ کیسے خدا کا خلیفہ ہوگیا۔ میرا ذہن تو کہتا ہے کہ ایک مسلمان جس نے اعلائے کلمۃ حق کے لیے جدوجہد کی، وہ عظیم انسان تھا، خدا اس کو اس نیکی پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ ذہن انسانی کبھی بھی نہیں کہتا کہ وہ انسان خدا کا خلیفہ یا نائب الہیٰ ہوگیا۔ خلافت اور نائب مقرر کرنے کا حق اسی کو حاصل ہے، جس کی حقیقی حکومت ہے۔ مذکورہ بالا آیت بھی یہی کہتی ہے کہ اہل ایمان میں سے وہ جو نیک عمل کریں، اللہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔
اب خلق اللہ کے اس حق کو از خود کیسے استعمال کرسکتی ہے اور کیسے کسی اپنے جیسے انسان کو خلیفہ خدا یا نائب الہیٰ بنا سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ نظم قائم رکھنے کے لیے کسی ایک کا تعین کر دیا جائے، تاہم اسے خدا کا خلیفہ کہنا کسی صورت بھی انسان کا اختیار نہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں اس اقدام کے مضمرات پر روشنی ڈالی گئی تو اس کے تناظر میں تو یہ اور بھی مذموم عمل بن جاتا ہے۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں: "کانٹے کی بات اس آیت میں یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنائوں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو خلافت مومنوں کو عطا ہوتی ہے، وہ عمومی خلافت (popular vicegerency) ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا نسل یا طبقے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مومن اپنی جگہ اللہ کا خلیفہ ہے۔”
خلیفہ بناؤں گا کا ترجمہ بنا دیا کرنا مکمل اجتہاد ہے، جو نص قرآنی کے خلاف ہے۔ خداوند کریم کہتا ہے کہ میں خلیفہ بناؤں گا، جبکہ قبلہ فرماتے ہیں کہ خلافت سب مومنوں کو عمومی طور پر عطا کر دی گئی ہے اور یہ کسی شخص، خاندان، نسل یا طبقے سے مخصوص نہیں ہے۔ حالانکہ قبلہ کی یہ بات بھی شیعہ اور سنی مصادر میں نقل ہونے والی صحیح حدیث رسول ؐ سے متصادم ہے۔ "جَابِر بْنَ سَمُرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیؐ، یقُولُ: یکونُ اِثْنی عَشَرَ اَمیراً فَقالَ کلِمَهً لَمْ اَسْمَعْها، فَقالَ اَبی اِنَّهُ قالَ کلُّهُم مِنْ قُرَیشٍ.” ترجمہ: "جابر کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم ؐ سے سنا کہ آپ نے فرمایا: "بارہ امیر ہونگے۔ اس کے بعد کچھ ارشاد فرمایا، جسے میں نے نہیں سنا۔ میرے والد نے کہا: پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ: یہ سب کے سب قریش میں سے ہونگے۔” یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کو موجود نظام ہائے حکومت سے مسئلہ کیا تھا۔؟ انھوں نے کیوں اسلامی جمہوریت کا نظام پیش کیا، جس میں عوام کو محدود اقتدار حاصل ہو اور معاشرے پر قانون اللہ کا نافذ ہو۔
مولانا اپنی اسی کتاب میں اس مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "مسلمانوں کے لیے اگر وہ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دیں اور اپنے انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات کا فیصلہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے مطابق کریں۔ اسلام اس بات کو گوارا کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں کہ آپ ایمان کا اعلان تو کریں اللہ رب العالمین پر اور زندگی کے معاملات طے کریں غیر الٰہی قانون کے مطابق۔ یہ وہ سب سے بڑا تناقض ہے، جس کا تصور کیا جاسکتا ہے اور اسلام اس کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں، اسلام اس تناقض کو مٹانے کے لیے آیا اور اسلامی ریاست اور اسلامی دستور کے مطالبے کی پشت پر دراصل یہی احساس کار فرما ہے کہ اگر مسلمان خدا کے قانون کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا دعویِ اسلام ہی مشتبہ ہو جاتا ہے۔”
مانا کہ اسلام کے انفرادی اور اجتماعی معاملات (جہاں ممکن ہو) کا فیصلہ خدا کے قانون کے مطابق ہونا ہیئے، تاہم یہ بات غلط ہے کہ اسلام کو گوارا نہیں کہ انسان ایمان کا اعلان کرے اور زندگی غیر الہیٰ قانون کے مطابق گزارے۔ اسلام ایسا غیر فطری تقاضا نہیں کرسکتا۔ اگر ایسا ہو تو آج مغرب میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں کا اسلام مشتبہ ہو جائے گا۔ ثانیاً اگر ہم مولانا کی درج بالا بات کو درست مان بھی لیں تو اس سے نیابت الہیٰ یا خلافت خدا ثابت نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ ایک ایسا معاشرہ ثابت ہوتا ہے، جہاں الہیٰ قوانین نافذ ہوں۔ راقم کی نظر میں خلافت الہیٰ یا نیابت خدا کا تصور مولانا نے عالم اسلام کی گذشتہ مثالوں کو پیش نظر رکھ کر دیا نیز وہ چاہتے تھے کہ حاکم کے عہدے کو الہیٰ قوت سے نوازا جائے، تاکہ یہ ایک طاقتور عہدہ ہو اور کوئی اس کے خلاف بغاوت کا سوچ بھی نہ سکے۔ باغی کی وہی سزا ہو، جو اسلام میں متعین کی ہے۔
مولانا اپنی کتاب میں اصول طاعت و وفاداری کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "مندرجہ بالا تصورِ حاکمیت و خلافت کا فطری اور منطقی تقاضا یہ ہے کہ اطاعت اور وفاداری کا مرجع بھی خالق اور اس کی ہدایات ہوں اور ریاست میں باقی تمام وفاداریاں اسی بنیادی وفاداری کی تابع ہوں۔ اس اصول کی وضاحت قرآن نے اس طرح کی ہے: "اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔” ساتھ ہی نہایت سادگی یا تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے، باقی جو کچھ بھی ہے، اس کے بعد ہے۔
مسلمان کی انفرادی زندگی اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرماں برداری اور وفاداری ہے۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدمقابل نہ ہوں، بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں، ورنہ ہر وہ حلقۂ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا، جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو۔” اول تو مولانا نے درج بالا آیت کو اہل سنت منابع کے معنی میں لیا اور اس کے دیگر معانی پر غور نہیں کیا کہ جس اولی الامر کی اطاعت کا واضح اور صریح حکم دیا جا رہا ہے، کیا وہ انسانوں کا از خود بنایا ہوا اولی الامر ہوگا یا خدا کی جانب سے متعین کردہ اولی الامر۔ ثانیاً مولانا قائل ہیں کہ خلیفہ خدا یا نائب الہیٰ مختار کل ہوگا، یعنی تمام حکومتی اختیارات، وسائل، امکانات اس کے پاس ہوں گے اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ اگر وہ خدا کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کا حلقہ اطاعت اتار دیا جائے۔ اس موقع پر قبلہ نے تاریخ اسلام اور اس میں موجود تجربات کو یکسر فراموش کر دیا۔
61 ہجری میں اگر امام حسین ؑ نے یزید کے خلاف قیام نہ کیا ہوتا تو باقی عالم اسلام تو رام ہوچکا تھا۔ مفتیان کرام نے باغی کے قتل کے فتوے جاری کر دیئے تھے، اکثر تابعین بیعت کرکے سکون کی زندگی گزار رہے تھے، دمشق میں باغی کے قتل پر جشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اختلاف کرنے والے صحابی اور تابعین یا قتل ہوگئے یا پس زندان تھے۔ ایسا فقط کربلا میں نہیں ہوا، تاریخ اسلام ایسے واقعات سے پر ہے۔ مودودی صاحب قبلہ فراموش کر گئے کہ ہر اختلاف کرنے والا حسین ؑ نہیں ہوتا، نہ ہی اس کی بات ویسی موثر ہوتی ہے، جتنی حسین ؑ کی تھی۔ جس طوق کو اتار پھینکنے کا اعلان مولانا نے نہایت سادگی سے کر دیا، اس کے لیے حسین ؑ جیسا فہم، شخصیت اور قربانی درکار ہے۔ جس خلیفہ خدا کا وہ تصور پیش کر رہے ہیں، اس سے جان چھڑوانا اتنا آسان نہیں، جتنا مودودی صاحب قبلہ کو محسوس ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Share this content: