مذہبی سیاسی اہداف، معاشرتی تقسیم کا نقطہ آغاز
تحریر: سید اسد عباس
برصغیر کے معاشرے میں ہندو، سکھ اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ ان کے مابین اگرچہ مذہبی عقائد پر اختلاف موجود تھا اور معاشرتی رہن سہن میں بھی ان کے مذہبی عقائد کے سبب فرق تھا، تاہم اس کے باوجود دیگر مشترکات جیسا کہ نسل، زبان، ثقافت، لباس، رہن سہن، مشترکہ خطہ وہ چیزیں تھیں، جس کی وجہ سے وہ اختلافات کے ساتھ بھی مل جل کر زندگیاں گزار رہے تھے۔ سکھوں کے مذہبی اجتماعات کے موقع پر مسلمان پانی کی سبیلیں لگاتے تھے اور مسلمانوں کے اجتماعات میں سکھ اور ہندو شرکت کرکے عقیدت و محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ بعض علاقائی مناسبتیں تو مکمل طور پر مشترکہ جوش و جذبہ سے منائی جاتی تھیں جیسے بیساکھی کے میلے، بسنت، جیٹھ ہاڑ کے میلے، کبڈی کے مقابلے، نیزہ بازی، بیلوں کی ریس وغیرہ وغیرہ۔
انگریز حکومت کے زیراہتمام ہونے والی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر پورے پنجاب کی کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.2 فیصد، ہندو 29.1 فیصد، سکھوں کی آبادی 14.9 فیصد جبکہ عیسائیوں کی آبادی 1.4 فیصد تھی۔ سترہ اگست 1947ء کو مشترکہ پنجاب جو اب تقسیم ہوگیا تھا میں بڑے پیمانے پر ہجرت کا آغاز ہوا، مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغواء ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔
ہندوستان میں معاشرتی تقسیم کا نقطہ آغاز
ہندوستان میں مسلمان، ہندو اور سکھ سینکڑوں برس ایک دوسرے کے ہمراہ زندگی کرتے رہے۔ مغل بادشاہوں کے درباروں میں تو کئی ایک ہندو اور سکھ بادشاہ کے مصاحب اور وزراء کے منصب پر بھی تعینات ہوئے۔ عالمگیر کے علاوہ ہمیں کسی بھی مغل بادشاہ کے دور میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا، جس میں کسی بھی مذہب یا مسلک کے ماننے والے کے ساتھ اس کے مذہب کی وجہ سے امتیازی رویہ رکھا گیا ہو۔ ہندوؤں کے دل و دماغ میں یہ درد ضرور تھا کہ مسلمان باہر سے آکر ہم پر مسلط ہوئے ہیں، تاہم عوام نے برصغیر میں موجود بندوبست کو قبول کیا ہوا تھا۔ انگریز کی آمد کے بعد تینوں مذاہب کے پیروکاروں نے مل کر انگریز کے خلاف جنگ آزادی لڑی اور اس میں قربانیاں پیش کیں۔ ہندو اور سکھ قائدین نے جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد اپنی حکمت عملی کو بدلا اور انگریز کے قریب ہونے لگے، جبکہ مسلمان اپنی سابقہ روش پر قائم رہے۔
مسلمانوں نے انگریز تعلیمی اداروں، حکومتی مناصب کا بائیکاٹ کیا اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اسی دوران خلافت عثمانیہ پر حملہ اور اس کے خاتمے کی خبریں آنے لگیں، جس نے مسلمانوں کو بہت دکھ دیا۔ مغلوں کی نام نہاد اسلامی حکومت کا خاتمہ، خلافت عثمانیہ کا خاتمہ مسلمانان برصغیر بالخصوص مذہبی قائدین کے لیے ناقابل تحمل صدمے تھے۔ برصغیر میں تحریک خلافت کی بنیاد رکھی گئی، جس میں کانگریس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ تحریک ترک موالات کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ انگریز حکومت کے خطابات واپس کیے جائیں، کونسلوں کی رکنیت سے استعفی دیا جائے، سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کی جائے، تعلیمی ادارے امداد لینا بند کریں، سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں مقدمات پیش کیے جائیں، انگریز مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ تقریباً ایک طرح کی سول نافرمانی تحریک تھی اور اس کا سربراہ گاندھی کو بنایا گیا۔
تحریک ہجرت اور کانگریس کی تحریک سے علیحدگی
تحریک خلافت، تحریک ترک موالات میں ناکامی کے بعد ہندوستان کے علماء نے فیصلہ کیا کہ مسلمان برصغیر کو ترک کر دیں۔ تحریک خلافت کے دوران میں 1920ء میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، پیر مولانا دوست محمد بارکزئی صوابی حاص، مولانا ظفر علی خان اور عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت کچھ علماء نے برصغیر کو دار الحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر ہمسایہ ملک افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم تعاون کے باعث ناکام ہوگئی اور مسلمانوں کو اس سے کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
اتر پردیش میں ایک تھانے پر حملے کا بہانہ بناتے ہوئے گاندھی اس تحریک سے جدا ہوگئے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور تحرک ہجرت خالصتاً اسلامی مقاصد اور اہداف کے لیے اٹھنے والی تحریکیں تھیں، جس سے کانگریس والے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ تاثر عام ہوا کہ کانگریس نے اس تحریک کی کامیابی کے وقت اس تحریک کو ناکام بنایا ہے۔ گاندھی نے اس وقت تحریک کے خاتمے کا اعلان کیا، جب پوری مسلمان قیادت جیل میں تھی۔ گاندھی کے ان اقدامات کے سبب انگریز کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا رخ کانگریس اور ہندو کی جانب ہوگیا۔
برصغیر میں اسلامی ریاست و حکومت کا خواب، مذہبی خلیج کی ابتداء
ترک خلافت کے خاتمے کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک خلافت سے منسلک علماء، دانشوروں، پیروں، گدی نشینوں نے برصغیر کی مسلمان آبادی کو خالص اسلامی ریاست کے فضائل اور تبرکات گنوانے شروع کیے۔ تحریک کے قائدین خلافت اور اسلامی ریاست کے قیام کے موضوع پر اس قدر متشدد تھے کہ انھوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور یہاں سے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر اکسایا۔ یہ ہجرت افغان حکومت کے عدم تعاون کے باعث ناکامی کا شکار ہوئی۔ بہت سے مہاجرین جلد وطن لوٹ آئے اور خیبر پختونخوا اور شمالی پنجاب کے علاقوں بالخصوص راولپنڈی ڈویژن میں آباد ہونا شروع ہوئے۔ تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک ترک موالات "خلافت عثمانیہ” کی تو حفاظت نہ کرسکی، تاہم برصغیر بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں اس نے ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کا تصور ضرور اجاگر کیا۔
مسلمان اس تصوراتی ریاست کو کوئی نام نہیں دے سکے، تاہم خواب اور اس کی تعبیر بالکل واضح تھی اور اس خواب کی راہ میں واحد رکاوٹ پنجاب اور برطانوی سرحد کے علاقے میں موجود ہندو اور سکھ آبادی تھی، جو کسی بھی صورت مذہب کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل نہیں چاہتی تھی، یہی وجہ ہے کہ 1935ء تک پنجاب میں مسلم لیگ کے بجائے یونینسٹ پارٹی پنجاب کی نمائندہ جماعت تھی۔ تحریک خلافت کے واعظین جو علماء، گدی نشینوں، پیروں میں موجود تھے، انھوں نے معاشرے میں خلافت کی بنیاد پر ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کی ترویج شروع کر دی، اس سلسلے میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم سے فارغ ہوکر آنے والے تربیت یافتہ سپاہی ان کے لیے اچھا سرمایہ ثابت ہوئے۔ معاشرے میں مذہبی اختلاف کی لکیر گہری ہونی شروع ہوگی۔ سبیلیں، ایک دوسرے کے اجتماعات میں شرکت کم ہوگئی اور اس کی جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑوں نے لے لی۔
مسجد باغ سرداراں اور گرو ارجن کا جلوس
برطانوی دور میں راولپنڈی شہر کی آبادی 43 فیصد مسلمان، سترہ فیصد سکھ، تینتیس فیصد ہندو افراد پر مشتمل تھی۔ راولپنڈی شہر میں ہندو کاروباری اور سکھ جاگیردار تھے۔ اس شہر میں سوجان سنگھ ایک بااثر انسان تھا، جس نے اس شہر میں بہت سے فلاحی کام کیے اور لائبریری بھی قائم کی۔ 1896ء میں امان اللہ خان افغان بادشاہ کا بیٹا پنڈی آیا۔ امان اللہ خان نے مسلمانوں سے علاقے میں بڑی مسجد تعمیر کرنے کا کہا۔ اس مقصد کے لیے باغ سرداراں پنڈی میں اٹھارہ کنال زمین خریدی گئی، چونکہ اس مسجد کی جگہ کے بالکل پیچھے سکھوں کا ایک گردوارا تھا، لہذا اس مسجد کے حوالے سے سکھوں نے اعتراض کیا، بالخصوص سوجان سنگھ اس کا مخالف تھا۔ سکھوں کا کہنا تھا کہ مسجد اور گردوارے کے قریب ہونے کی وجہ سے آئندہ تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔ پیر مہر علی گولڑوی نے سوجان سنگھ سے اس مسجد کے حوالے سے مذاکرات کیے کہ چونکہ ہمارا آج تک باہم کوئی تنازعہ نہیں ہوا، لہذا اس مسجد کے بننے سے آئندہ بھی کوئی تنازعہ نہیں ہوگا۔
سکھ چونکہ پیر مہر علی شاہ کا احترام کیا کرتے تھے، لہذا مسجد بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ مسجد 1901ء میں تعمیر ہوئی۔ 1926ء تک مسلمان اس مسجد کے سامنے ہندوؤں اور سکھوں کے قومی تہواروں کے موقع پر سبیلیں لگایا کرتے تھے۔ 1926ء میں مسجد کے پیچھے موجودہ خورشید سینما جو پہلے لکشمی سینما کہلاتا تھا، بنانے کی بات کی گئی۔ مسلمانوں نے اس سلسلے میں عدالت میں کیس کیا کہ مسجد کے قریب سینما نہیں ہونا چاہیئے، حالانکہ خورشید سینما جو آج بھی موجود ہے، اس کے درمیان اور مسجد میں کافی فاصلہ ہے۔ عدالت نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کیا اور سینما گھر بن گیا۔ اسی دوران کلکتہ میں ایک تحریک چلی، جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی مساجد کے سامنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے جلوس نہیں گزرنے چاہییں، اگر گزریں گے بھی تو مذہبی وعظ نہیں کریں گے۔ یہ آواز پنڈی بھی پہنچی، اس آواز کے پیچھے سینما گھر والی ٹینشن بھی موجود تھی۔
سجاد اظہر کے بقول سکھوں کے پانچویں گرو، گرو ارجن کی یاد میں سکھ سالانہ ایک جلوس نکالتے تھے۔ اس حوالے سے گرو ارجن کا جلوس باغ سرداراں میں 13 جون 1926ء کو نکلنا تھا، جس کے حوالے سے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ آپ یہ جلوس مسجد کے سامنے سے مت گزاریں اور اگر آپ کو مسجد کے سامنے سے گزرنا بھی ہے تو خاموشی سے گزریں۔ اس جلوس میں عموماً پانچ ہزار سکھ ہوتے تھے، اس روز چونکہ اتوار کا روز تھا تو سکھوں کی تعداد تقریباً دس ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ شاید ہمارے منع کرنے کے باوجود اتنی تعداد میں سکھوں کا آنا کسی خاص مقصد کے تحت ہے، لہذا جب وہ مسجد کے سامنے سے گزرے تو شام سات بجے مسجد سے ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ جس سے پنڈی میں فسادات پھوٹ پڑے۔ گنج منڈی، غلہ منڈی میں 172 دکانیں جلا دی گئیں، گردوارے کا گھیراؤ ہوا، فائرنگ ہوئی۔ سینکڑوں لوگ قتل ہوئے، حتی سید پور گاؤں میں پانچ امیر ہندو اور سکھ قتل ہوئے۔
سجاد اظہر کی تحقیق کے مطابق ان فسادات کی وجہ ایک مولوی صاحب تھے، جن کا نام راولپنڈی کے معروف ادیب عزیز ملک نے اپنی 1970ء میں شائع ہونے والی کتاب "راول دیس” میں مولوی اسحاق مانسہروی لکھا ہے۔ اسحاق مانسہروی انگریز حکومت کا ناقد تھا اور جنگ عظیم اول کے لیے مانسہرہ میں ہونے والی بھرتیوں کے خلاف اس نے آواز بلند کی تھی۔ مولوی اسحاق کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا اور اس کے بعد صوبہ بدر کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1901ء میں آج کے خیبر پختونخوا کے علاقوں کو پنجاب سے جدا کرکے این ڈبلیو ایف پی کے نام سے الگ صوبہ بنایا گیا تھا۔ مولوی مانسہروی، مانسہرہ سے بے دخل ہونے کے بعد راولپنڈی آیا اور باغ سرداراں کی جامعہ مسجد کا امام بن گیا۔ مولوی مانسہروی تحریک خلافت کا سرگرم رکن تھا، اسی طرح مجلس احرار تحریک میں بھی فعال تھا اور شہید گنج کمیٹی کا بھی رکن تھا۔ عزیز ملک کے مطابق مولوی مانسہروی رمضان کے ایام میں ہندو دکان داروں کو کھاتا پیتا دیکھ کر گھوڑے سمیت دکانوں میں گھس جاتا تھا اور ہر چیز کو تہ و بالا کر دیتا تھا۔
برصغیر میں ہند و مسلم، مسلم سکھ فسادات کے چند بڑے واقعات
تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک ترک موالات جو انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں برپا ہوئیں اور اپنے ظاہری اہداف یعنی خلافت عثمانیہ کے دفاع کے مقصد کو نہ پا سکیں، ان کے بعد برصغیر کا معاشرہ واضح طور پر عقیدتی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہوگیا۔ 1896ء سے 1947ء کے درمیان مذہبی بنیادوں پر فسادات اور قتل و غارت کے بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ 1926میں مسلم اکثریتی علاقے کلکتہ میں ایک تحریک چلی، جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی مساجد کے سامنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے جلوس نہیں گزرنے چاہییں، اگر گزریں تو مذہبی وعظ نہ کریں۔ یہ آواز پورے برصغیر میں پھیل گئی اور جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے، وہاں اس طرح کے مطالبے سامنے آنے لگے۔ راولپنڈی باغ سرداراں مسجد کا سانحہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قتل و غارت کو ہم نے قبل ازیں بیان کیا ہے۔
47 کے فسادات اور مذہبی تصادم جس میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے، کروڑوں کو بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرنی پڑی، ہزاروں کو جبری طور پر اپنا دین بدلنا پڑا، اس کا آغاز ہندوستان کے مشرق میں مسلم اکثریتی علاقے کلکتہ میں فسادات سے ہوا۔ مسلم لیگ کا راست اقدام کا اعلان ان فسادات کا نقطہ آغاز قرار پایا۔ مشرقی بنگال کا علاقہ نواکھلی 10 اکتوبر 1946ء کو فسادات کی لپیٹ میں آیا۔ یہاں کی اکثریتی آبادی بھی مسلم تھی۔ ملحقہ صوبے بہار میں فسادات 25 اکتوبر 1946ء کو شروع ہوئے، جہاں ہندو آبادی اکثریت میں تھی۔ پنجاب کے شمال مغربی علاقوں مثلاً راولپنڈی، ٹیکسلا، واہ، کہوٹہ، جہلم اور گوجر خان وغیرہ میں فسادات 4 مارچ 1947ء کو شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ مرکزی پنجاب کی طرف بڑھتے گئے۔ مشرقی پنجاب میں فسادات اواخر جولائی 1947ء میں شروع ہوئے اور ستمبر بلکہ اکتوبر 1947ء کے وسط تک جاری رہے۔ مشرقی پنجاب میں مسلمان اقلیت میں تھے۔
وسطی ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلمان تہذیبی اور معاشی طور پر بالادست، لیکن عددی اقلیت میں تھے، (مثلاً دہلی، پانی پت، گڑگاؤں، لکھنو، میرٹھ، بلند شہر، بدایوں، مظفر نگر) میں فسادات جولائی، اگست 1947ء میں شروع ہوئے۔ یہ امر معنی خیز ہے کہ ہندوستان کے متعدد جنوبی صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد بے حد کم تھی، مثلاً کیرالہ، گجرات، کرناٹک وغیرہ، وہاں بالکل فسادات نہیں ہوئے۔ امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست1946ء کی رپورٹ کے مطابق کلکتہ کے فسادات کے دوران اس شہر کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہوچکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی، ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہوگیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔
یوم راست اقدام سے شروع ہونے والی چنگاری سلگتی رہی۔ فسادات کا اگلا اہم واقعہ نواکھلی میں پیش آیا (جو اب بنگلہ دیش کا حصہ ہے)۔ 10 اکتوبر 1946ء کو اس مسلم اکثریتی علاقے میں شروع ہونے والے فسادات کو اخبارات میں ”مسلم ہجوم کا منظم غیظ و غضب“ قرار دیا گیا۔ جلد ہی فسادات کی یہ آگ رائے پور، لکشمی پور، بیگم گنج، سندیپ، فرید گنج، چاند پور میں پھیل گئی۔ ہندو اخبارات نے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں بیان کی۔ مسلم اخبارات نے سرے سے فسادات ہی سے انکار کر دیا۔ سرکاری طور پر 200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی، تاہم فسادات کے بعد نواکھلی میں کوئی ہندو شہری نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا تھا۔ دو ہفتے بعد بہار کے مسلم اقلیتی صوبے میں یوم نواکھلی منایا گیا۔ اس روز یعنی 25 اکتوبر 1946ء کو بہار کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بہار میں مذہب کے نام پر مسلمان باشندوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس کا ذکر بھی انسانیت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ پٹنہ، مونگر اور بھاگل پور کے اضلاع بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ہندو مسلم، مسلم سکھ فسادات اور قتل و غارت کے تمام واقعات کو اس مختصر تحریر میں لکھنا ممکن نہیں، تاہم ان تمام واقعات کی وجہ کو جاننا نہایت اہم ہے۔
برصغیر نسلی تصادم اور فسادات پر ہونیوالی چند تحقیقات
تقسیم ہند سے قبل اور اس کے دوران میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے بہت سی شخصیات نے تحقیقی کام کیا ہے، جس میں انگریز، سکھ، مسلمان محققین اور لکھاریوں کا کام شامل ہے۔ اس میں ایک اہم رپورٹ Muslim League Attack on Sikhs and Hindus in the Punjab 1947 گربچن سنگھ طالب کی ہے۔ پنجاب کی تقسیم کے دوران ہونے والے واقعات کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتاب پاکستانی نژاد سویڈش پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی ہے، جو انگریزی زبان میں تحریر کی گئی اور اس کا اس وقت تک اردو، ہندی اور گرمکھی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب The Punjab Bloodied Partitioned And Cleansed کو اس انداز سے تحریر کیا ہے کہ اگر مولف کا نام معلوم نہ ہو تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مصنف مسلمان ہے، ہندو ہے یا سکھ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "پنجاب کا بٹوارہ: ایک المیہ ہزار داستان” کے عنوان سے ہوچکا ہے اور پاکستان کے بڑے کتاب خانوں میں دستیاب ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ ایک پاکستانی صحافی اور مصنف سجاد اظہر بھی پنجاب میں فسادات پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے راولپنڈی ڈویژن میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے ایک کتاب مرتب کی ہے، جو شائع ہونے والی ہے۔ اس حوالے سے ایک اور اہم دستاویز پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کا استعفیٰ ہے، جو انھوں نے وزیراعظم پاکستان کو ہندوستان سے روانہ کیا۔ جو گندرناتھ منڈل لکھتے ہیں: "کلکتہ کی خونریزی اکتوبر 1946ء میں ”نواکھلی کے بلوہ“ پر منتج ہوئی، جہاں ہندوؤں کو بشمول اچھوت ذاتوں کے قتل کیا گیا اور سینکڑوں کو مسلمان بنا لیا گیا۔ ہندو عورتیں ریپ اور اغوا کی گئیں۔ میری برادری کے افراد کو بھی زندگی اور املاک سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ہندوؤں پر پڑی خوفناک بپتا نے مجھے ماتم زدہ کر دیا، لیکن اس کے باوجود میں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کی پالیسی جاری رکھی۔”
برصغیر نسلی تصادم پر ہونے والی تحقیقات کے حوالے سے اہم سوالات
تقسیم ہند سے قبل اور دوران میں ہونے والا تصادم، قتل و غارت، لوٹ مار اور جلاؤ گھراؤ کا عمل اتنا وسیع ہے کہ اس کا ایک یا دو جلدوں میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ لاکھوں انسانوں کا قتل، ہزاروں خواتین کی آبروریزی، جبری مذہب کی تبدیلی، اغواء، لوٹ مار کے واقعات اس قدر ہیں کہ محقق ان واقعات کے حقیقی عامل، اسباب اور نتائج کو کوشش کے باوجود بیان نہیں کرسکتا۔ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کے حوالے سے یہ سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔
- • برصغیر میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم اقلیت کو خطرہ کے طور پر کیوں دیکھا گیا اور ان کے خاتمے کو لازم کیوں گردانا گیا۔؟
- • غیر مسلم اقلیت مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان ریاست کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کو اپنے لیے خطرہ کیوں سمجھتی تھی، کیا مسلم قیادت غیر مسلموں کو مذہبی آزادی، جان و مال کا تحفظ دینے کی یقین دہانی نہ کروا سکی۔؟
- • کیا مسلم لیگ اور کانگریس کی اعلیٰ قیادت تقسیم ہند کے نتائج یعنی قتل و غارت، لوٹ مار، عصمت ریزی، جبری منتقلی سے آگاہ تھی اور یہ قتل و غارت تقسیم ہند کے منصوبے کا حصہ تھا۔؟ اگر ایسا نہیں تو یہ قیادت معاشرے کے مذہبی فہم کو سمجھنے میں ناکام کیوں ہوئی۔؟
- • اگست 1946ء اور مارچ 1947ء میں مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والے شدت پسندانہ اقدامات حادثاتی تھے یا ان کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔؟
• اگست 1946ء اور مارچ 1947ء میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے غیر مسلم آبادی کے قتال، لوٹ مار، اغواء اور جبر میں مذہبی تنظیموں، اہم مذہبی و سیاسی شخصیات، گدی نشینوں، مساجد، مدارس اور صوفی سلسلوں کا کیا کردار تھا۔؟• مشرقی پنجاب میں ہونے والے مسلمان آبادی کے قتل و غارت سے ایک برس قبل، مسلم اکثریتی علاقوں میں بسنے والے غیر مسلموں کی املاک، جان و مال، آبرو کو کون سے اسلامی احکام کے تحت مباح قرار دیا گیا اور کیا مشرقی پنجاب میں ہونے والے قتل و غارت کے بدلے کے طور پر غیر مسلموں کا خون، املاک اور آبرو مباح ہو جاتا ہے۔؟
• برصغیر میں ہونے والے نسلی تصادم کو کنڑول کرنے میں انگریز حکومت کا کیا کردار تھا۔؟
• نسلی تصادم اور قتل و غارت گری کے واقعات کے ذمہ داران کے خلاف کیا اقدامات کیے گئے، کیا کسی مجرم کو پاکستان یا ہندوستان کے قانون کے مطابق سزا دی گئی۔؟
• ایک ذیلی سوال یہ بھی ہے کہ صدیوں سے بین المذاہب ہم آہنگی کے ساتھ رہنے والی برصغیر کی مسلم و غیر مسلم آبادی اچانک مذہبی بنیادوں پر ریاستوں کے حصول کی جدوجہد میں کیونکر مشغول ہوگئی۔ اس مذہبی سیاست کے پس منظر میں کیمونزم کے برصغیر پر اثرات اور انگریزوں کی جانب سے کمیونزم کے برصغیر میں رسوخ سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی کا کیا کردار ہے۔؟
خواہ پاکستان ہو یا ہندوستان، دس یا تیس لاکھ انسانوں کے قاتلوں، ہزروں خواتین کی عصمت ریزی کرنے والوں، لوٹ مار کرنے والوں کا تعین کیے بغیر ہم کسی طور اپنے معاشرے کو مہذب معاشرہ نہیں کہہ سکتے۔ ہم ایک ایسے جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں اونچی اونچی پگڑیوں اور لمبی لمبی داڑھیوں کے پیچھے درندے چھپے ہوئے ہیں، جن کے اجداد کے ہاتھ انسانی خون اور غصب شدہ اموال سے آلودہ ہیں۔ ہم جب تک اس اندوہناک جرم کے حقیقی مجرموں کا تعین نہیں کرتے، اس وقت تک پورا معاشرہ مجرم ہے۔ سکھوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو ظلم کیا، وہ قابل مذمت ہے، تاہم رحمت للعالمین کی امت کی پیشانی پر ناحق خون کے دھبے، لوٹ مار، عصمت ریزی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
ہمیں اپنے اسلامی ریاست کے تصور کو بھی پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کونسی اسلامی ریاست ہے، جہاں رحمتوں کے مہینے یعنی رمضان المبارک میں ہزار سے زیادہ افراد کو فقط اس لیے قتل کر دیا جائے کہ ان کا عقیدہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہے۔ عقیدے کے اختلاف کے سبب مخالف فرقے یا مذہب کی خواتین کو مجاہدین کے لیے مباح قرار دینا اور انھیں لونڈیاں بنا دینا کونسا اسلام ہے۔ اسلامی ریاست کا ایسا متشدادانہ تصور جو اقلیتوں یا مخالفین پر ظلم کو جائز سمجھے، غیر مسلم یا دوسرے مسلک کو انسانیت کے درجے سے گرا کر ان کی جان اور مال کو حلال جانے اسلام اور مسلم معاشرے کے لیے ایک وبال ہے۔
Share this content: