×

قرآن کریم؛ انسان  و معاشرہ ساز کتاب رہبر انقلاب آیت اللہ  العظمیٰ سید خامنہ  ای کی نظر میں

WhatsApp Image 2025 05 13 at 3.04.59 PM

قرآن کریم؛ انسان  و معاشرہ ساز کتاب رہبر انقلاب آیت اللہ  العظمیٰ سید خامنہ  ای کی نظر میں

 

 

 

ڈاکٹر سید علی عباس نقوی، صدر نشین البصیرہ

 

خلاصہ

اس مقالہ میں  ایک مسلمان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں قرآن کریم کے مقام  و منزلت کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای  (مد ظلہ العالی) کے خیالات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ رہبر انقلاب کی نظر  میں قرآن کریم صرف تلاوت اور حفظ کرنے کی کتاب نہیں ہے بلکہ عمل، غور و فکر، فردی و اجتماعی  تربیت اور الہی اقدار پر مبنی معاشروں کی تعمیر کے لیے نصیحت بھی ہے۔تلاوت و انس با قرآن  کریم ، تدبر و تفکر قرآن کریم  ،اس کے انفرادی و معاشرتی زندگی میں  کردار  کے عناوین کا جائزہ اور تجزیہ  بھی رہبر انقلاب کی نگاہ میں پیش کیا گیا ہے ۔

تعارف

کلیدی الفاظ: قرآن، رہبر انقلاب، کتاب زندگی، تدبر وتفکر، اسلامی معاشرہ

قرآن کریم، وہ مقدس کلام ہے جو خالق کائنات کی جانب سے تمام انسانوں کے لیے آسمانی ہدایت کی کتاب کے طور پر نازل ہوا۔ یہ محض ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک ایسا نور ہے جس نے طول تاریخ میں گمراہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کی ہے۔ اس کے نورانی ارشادات نے نہ صرف تہذیبوں کو جلا بخشی بلکہ معاشروں کی بنیادیں بھی استوار کیں۔ اس کی فصیح و بلیغ آیات دلوں کو مسخر کرتی اور روحوں کو پاکیزگی عطا کرتی ہیں۔ اس کتاب سے حقیقی فیض یاب ہونے کے لیے محض تلاوت کافی نہیں، بلکہ انس با قرآن یعنی قرآن کے ساتھ گہرا تعلق اور محبت پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ انس اس وقت پروان چڑھتا ہے جب انسان باقاعدگی سے اس کی تلاوت کرے، اس کی آیات پر غور و فکر کرے اور اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ تدبر قرآن کریم ، یعنی قرآن کی آیات میں گہرائی سے سوچ بچار کرنا، اس کی حکمتوں اور پوشیدہ معانی کو جاننے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان کلام الٰہی کی گہرائی میں اتر کر اس کے پیغام کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔

قرآن کریم زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی( انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرتی معاملات تک)ہر مسئلے کا حل اور ہر الجھن کا جواب اس میں موجود ہے۔ قرآن کریم نے انسان کو کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا اور اسے اپنے خالق حقیقی کی پہچان کرائی، جس سے اس کا دنیاوی اور اخروی سفر بامقصد بن جاتا ہے۔

یہ کتاب صرف ماضی کی رہنمائی نہیں کرتی، بلکہ اس کی تعلیمات ہر زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ قرآن کریم تمام بنی نوع انسان کے لیے امن و سلامتی، رحمت و برکت کا ایک ابدی پیغام لے کر آیا ہے۔ اس کی با شعور تلاوت قلوب کو سکون بخشتی ہے اور اس پر تدبر و تفکر کرنے سے عقل و فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ وہ ابدی دستور ہے جو انسانیت کو ہمیشہ تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف رہنمائی کرتا رہے گا۔ بلاشبہ، قرآن کریم انسانیت کے لیے ایک لازوال اور ابدی ہدایت کا سرچشمہ ہے، جس سے تعلق جوڑنا (انس) اور اس میں غور و فکر کرنا (تدبر) ہماری زندگیوں کو منور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

اس اہمیت کے پیش نظر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے انفرادی اور سماجی زندگی میں اپنی تقاریر میں بارہا قرآن مجید  کی اہمیت اور ضرورت کا حوالہ دیا ہے۔ وہ قرآن کریم کو ایک مکمل کتاب سمجھتے ہیں جو انسان کی تمام روحانی اور مادی ضروریات کا جواب دے سکتی ہے  لیکن  ان کی نظر میں قرآن  کریم صرف تلاوت کی کتاب نہیں ہے، بلکہ اسے روزمرہ کی زندگی میں سمجھنا اور عمل میں لانا چاہیے۔ اس مضمون میں ہم انفرادی اور اجتماعی زندگی میں  تدبر قرآن  ، تلاوت اور اس کے عملی اثرات و نتائج رہبر معظم  آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ارشادات کی روشنی میں تجزیہ اور جائزہ لیں گے ۔

  1. قرآن ؛کتاب زندگی

رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ایؒ قرآن کو ایک زندہ اور رہنما کتاب سمجھتے ہیں جو ہر دور میں تمام لوگوں کے لیے قابل اطلاق ہے۔ ان کے خیال میں قرآن  کریم زندگی کے لیے ایک لائحہ عمل ہے جس کا نفاذ ایک مسلمان کی پوری انفرادی اور معاشرتی زندگی میں ہونا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران نے بارہا تاکید کی ہے کہ قرآن صرف تلاوت اور حفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کو عملی رہنمائی فراہم کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ آپ  اپنی ایک تقریر میں اس کے بارے میں فرماتے  ہیں:

"قرآن  کریم زندگی کی ایک جامع  کتاب ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص، کسی بھی حال میں، صحیح راستہ ڈھونڈنا چاہے، تو اُسے قرآن  کریم ہی کی طر ف  رجوع کرناچاہیے۔‘”[1]

یہ بیانات اس امر کے غماز ہیں کہ قرآن کریم فردی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے نزدیک قرآن کریم محض ایک مذہبی کتاب نہیں، بلکہ ایک ایسی جامع دستاویز ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں – سیاست و ثقافت سے لے کر معیشت و معاشرتی تعلقات تک – عملی اصول  پیش کرتی ہے۔ رہبر انقلاب  کا خصوصی زور قرآن مجید سے سیاسی و سماجی مسائل میں رہنمائی لینے پر ہے۔ ان کی نگاہ میں قرآن  کریم وہ مستند ماخذ ہے جسے سیاسی و اجتماعی فیصلوں میں بنیادی مرجع کی حیثیت سے بروے کار لانا چاہیے۔ ایک اور موقع پر ان کا ارشاد ہے:

"اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں ایک اسلامی سیاست دان بننا چاہے، تو اسے لازماً قرآن مجید کو سمجھنا ہوگا اور اس سے صحیح طور پر رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔”[2]

  1. تلاوتِ قرآن: فہم و عمل کی تمہید

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ،قرآن کریم کی تلاوت کو محض ایک عبادت نہیں بلکہ اس کے بلند معانی و مفاہیم سے ارتباط کا ذریعہ سمجھتےہیں۔ ان کی رائے میں تلاوت قرآن کریم کے لیے ضروری ہے کہ مکمل توجہ اور تدبر کے ساتھ کی جائے، کیونکہ صرف اسی صورت میں انسان قرآن پاک کے عمیق معانی سے حقیقی معنوں میں مستفید ہو سکتا ہے۔ آپ اس اہم نکتہ کی بارہا وضاحت فرماتے ہیں کہ تلاوت کا بنیادی مقصد قرآن فہمی ہونا چاہیے نہ کہ محض ثواب کے حصول تک محدود ہو۔ اپنے ایک اہم خطاب میں وہ ارشاد فرماتے ہیں: "تدبر اور معانی کی رعایت کے ساتھ قرآن کی تلاوت، محض ثواب کی نیت سے قرآن خوانی سے بالکل مختلف شے ہے۔”[3]

وہ خصوصیت کے ساتھ خوش الحان اور دلنشین آواز میں تلاوتِ قرآن، نیز قرآن کے معانی کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اپنے دیگر بیانات میں وہ فرماتے ہیں کہ دلکش آواز اور حضورِ قلب کے ساتھ تلاوت، قرآن سے ایک ایسا روحانی رابطہ قائم کر سکتی ہے جو بالآخر انسان کی زندگی پر گہرا اثر انداز ہوتا ہے۔

آقا رہبر فرماتے ہیں:

"تدبر و توجہ کے ساتھ خوش آہنگ صوت میں قرآن کی تلاوت، اس کی تاثیر کو نفوس انسانی پر انتہائی گہرا اور پائدار بنادیتی ہے۔”[4]

وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ قرآن کے معانی کو سمجھنے کے لیے معتبر تراجم اور مستند تفاسیر سے استفادہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک آیات کی ابتدائی تفہیم اور پھر ان میں غور و فکر کرنا، قرآن سے عملی رہنمائی حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔

  1. قرآن میں تدبر: الٰہی ہدایت سے فیض یاب ہونے کی کلید

آیت اللہ خامنہ ای قرآن مجید میں تدبر و تفکر کو قرآن کے معانی کو سمجھنے اور اس سے عملی فوائد حاصل کرنے کی بنیادی کلید قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن میں غور و فکر نہ صرف علماء دین کی ذمہ داری ہے بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے۔ ان کی نظر میں قرآن میں تدبر، تلاوت اور عمل کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ارشاد فرماتے ہیں:

"تدبر سے مراد ہے  سوچنا ،غور و فکر کرنا اور پیغام کو سمجھنا، یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔” [5]

یہ بیانات آیت اللہ خامنہ ای کے اس بنیادی موقف کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہر مسلمان کو قرآن کی تلاوت کے دوران آیات کے معانی پر غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کے الٰہی پیغامات سے صحیح معنوں میں مستفید ہو سکے۔ قرآن میں تدبر انسان کو آیات کی گہرائی تک رسائی فراہم کرتا ہے اور انھیں عملی زندگی میں نافذ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ درحقیقت، تدبر وہ اہم مرحلہ ہے جس کے ذریعے قرآن انسان کے وجود میں سرایت کر جاتا ہے۔حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نزدیک قرآن میں تدبر نہ صرف آیات کے معانی کو سمجھنے کے لیے، بلکہ انھیں فردی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ صرف تدبر ہی کے ذریعے قرآن کو عملی رہنما کے طور پر بروے کار لایا جا سکتا ہے۔

  1. قرآن میں تدبر اور اس سے انسیت کے مراحل

قرآن  کریم سے حقیقی انس اور گہرے تدبر تک پہنچنے کے لیے حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے تجویز کردہ مراحل:[6]

  1. حضور قلب کے ساتھ تلاوت کا آغاز:

قرآن کی تلاوت دل کی یکسوئی اور توجہ کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ اس کا اثر انسان کی روح اور باطن پر پوری طرح مجسم ہو سکے۔[7]

  1. آیات کے بنیادی مفاہیم کی تفہیم

تدبر اور غوروفکر کے لیے آیاتِ قرآنی کے بنیادی معانی کو معتبر تراجم اور تفاسیر کے ذریعے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔[8]

  • آیاتِ قرآنی پر رکنا اور ان میں غور و فکر کرنا

قرآن کی آیات پر غوروفکر کرنے سے ان کے معنی اور پیغام انسان کے دل میں گہرائی تک اتر جاتے ہیں۔[9]

  1. معتبر اور علمی حوالہ جات سے رجوع کرنا

قرآن کی آیات کی صحیح اور گہری تفہیم کے لیے معتبر تفاسیر اور ربانی علماء کی تفسیری رہنمائی ضروری ہے۔[10]

  1. قرآنی پیغامات پر عمل کرنا

قرآنی آیات پر عمل تبھی ممکن ہے جب انسان انھیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرے۔[11]

  1. روزانہ قرآن سے انسیت کا تسلسل

قرآن کے ساتھ انس روزانہ ہونا چاہیے تاکہ فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کا تسلسل برقرار رہے۔ [12]

  1. قرآن اور اسلامی معاشرہ سازی

آیت اللہ العظمی  خامنہ ای قرآن  کریم  کو اسلامی تہذیب اور عدل و الٰہی اقدار پر مبنی معاشرے کی تعمیر کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق، اسلامی معاشرے کی تشکیل قرآن کریم کی تعلیمات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ قرآن، اسلامی حکومت کے منشور کے طور پر، سیاست، سماجی انصاف اور اسلامی اتحاد میں کردار ادا کرے۔ آپ  فرماتے ہیں کہ:

"ہمیں قرآن کے ذریعے معاشرہ تشکیل دینا چاہیے؛ یعنی عدل، استقلال، عزت، علم، اخلاق، عوامی فلاح، یہ سب قرآن سے ممکن ہے۔” [13]

آیت اللہ خامنہ ای کا ماننا ہے کہ قرآن ایک متحرک اور ترقی پسند اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہے۔ درحقیقت، وہ قرآن کو ایک ایسا ماخذ سمجھتے ہیں جو اسلامی معاشرے کے سماجی اور سیاسی شعبوں میں براہ راست مرکزیت اختیار کر سکتا ہے۔ قرآن کو پالیسی سازی، معاشی فیصلوں اور یہاں تک کہ معاشرے کی عمومی ثقافت میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔

نتیجہ

آیت اللہ العظمی  خامنہ ای کا قرآن کے بارے نقطہ نظر عملی، اطلاقی اور تہذیب ساز ہے۔ وہ قرآن کو صرف تلاوت کی کتاب نہیں، بلکہ ایک اسلامی معاشرے اور جدید اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لیے تدبر اور عمل کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ با شعور تلاوت، مسلسل تدبر اور قرآنی آیات کا عملی نفاذ، قرآنی معاشرے کے حصول کے راستے میں تین بنیادی اقدامات ہیں۔ یہ نقطہ نظر ثقافتی ماہرین، تربیتی اساتذہ اور عام لوگوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور وہ یہ کہ وہ قرآن کو زندگی کے حاشیے سے متن میں لائیں اور اس کی تعلیمات کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کریں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن صرف انفرادی زندگیوں تک محدود نہیں رہ سکتا، بلکہ عدل، اخلاق اور عوامی زندگی پر مبنی معاشرے کی تعمیر میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

 

[1]. محفل انس با قرآن میں بیانات، 25/03/1395

[2]. عالم اسلام کے قرآنی اسکالرز سے ملاقات میں بیانات، khamenei.ir

[3]. بین الاقوامی قرآنی قاریوں سے ملاقات میں بیانات، 28/01/1400

[4]. قاریوں سے ملاقات میں بیانات، 10/05/1390

[5]. محفل انس با قرآن میں بیانات، 28/04/1392

[6]. اس موضوع پر ان کے بیانات کو ان کی ویب سائٹ khamenei.ir پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر، رمضان المبارک کے دوران قرآنی محافل میں ان کی تقاریر اس حوالے سے اہم ہیں۔

[7].  خطبہ جمعہ 14/03/1397 ہجری شمسی

[8]. 1400 ہجری شمسی /2021 عیسوی

[9]. 1395 ہجری شمسی /2016 عیسوی

.[10] درس خارج فقہ میں تاکید  1400 ہجری شمسی

[11]. قرآنی اجلاس میں بیان  1399 ہجری شمسی

[12]. ذرائع ابلاغ کے ساتھ انٹرویو 1401ہجری شمسی

.[13] عالم اسلام کے قرآنی اسکالرز سے ملاقات میں بیانات، khamenei.ir

Share this content: