×

قرآن و عترت کےمتعلق طرز فکرکی اصلاح

WhatsApp Image 2025 05 13 at 3.04.59 PM

قرآن و عترت کےمتعلق طرز فکرکی اصلاح

ڈاکٹر سید علی عباس نقوی
چیئرمین البصیرہ ،ادارہ التنزیل پاکستان

تعارف:قرآن کریم سے استفادہ اور تلاوت کے لیے ہمارا طرز نگاہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم اکثر غلط طرز نگاہ و نظریہ کے ساتھ کتاب خدا یا دیگر متون سے استفادہ کی کوشش کرتے ہیں جس کے سبب ہم وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے جو کسی بھی تحریر کے مطالعہ سے حاصل کرنے چاہئیں۔ مطالعہ قرآن کریم، تدبر قرآن کے حوالے سے ہماری سوچ میں کونسی ممکنہ خامیاں ہوسکتی ہیں اور ان کی اصلاح کیسے ممکن ہے اسی عنوان سے تحریروں کا سلسلہ قارئین پیام کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ البصیرہ کے صدر نشین ڈاکٹر علی عباس نقوی جو قرآنیات میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں اور گذشتہ پندرہ برس سے قرآنیات کے شعبے میں عملی خدمات سرانجام دے رہے ہیں نے اس سلسلے میں ’’قرآن کے متعلق طرز نگاہ کی اصطلاح‘‘،’’ طریقہ تلاوت کے متعلق طرز نگاہ کی اصلاح‘‘،’’دیگر نظریات سے قرآن کے مقائسہ کی روش کی اصلاح‘‘ ،’’قرآن فہمی کے حوالے سے اصلاحی نقطہ نظر‘‘ کے عناوین کے ذیل میں اس موضوع سے متلعق اپنی گذارشات کو قارئین پیام کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ درج ذیل مضمون اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امید ہے ان مضامین کے ذریعے ہمیں قرآن کے ذریعے ہمیں قرآن کریم کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کی توفیق نصیب ہوگی اور ہم بہتر طریقے سے قرآنی معارف سے مستفید ہو سکیں گے۔ (ادارہ)

جب بھی قرآن مجیدمیں غوروفکرکی بات آتی ہےتو جوحدیث ثقلین کوتسلیم کرتاہووہ قرآن مجیدکےدوسرے’’ثقل‘‘یعنی عترت کوبھی مدنظررکھتاہےلیکن اس سلسلےمیں بعض افرادایک غلط فہمی کاشکارہوتےہیں اوروہ یہ کہ جب وہ اسلامی مصادرمیں کسی موضوع کی تحقیق کرتے ہیں توموضوع بیان کرنےکےسلسلےمیں قرآن اورکلام اہل بیت ؑ کےباہمی تعلق کوبخوبی سمجھ نہیں پاتے۔جس کےنتیجہ میں وہ موضوع یااس کےکسی ایک حصہ کوسمجھنےمیں غلطی کاشکارہوجائےیاتحقیق کاراستہ ہی گم کربیٹھتے ہیں۔فرض کیجئےآپ سےپوچھاجائے: قرآن مجیدکےنقطہ نظرسےسورۃ مدثرکوسامنےرکھتےہوئےنظم و نسق کی ذمہ داری اٹھانےوالےشخص کی مطلوبہ خصوصیات کیاہونی چاہئیں؟ اگر آپ اس سوال کاجواب یوں دیں:
اس سلسلےمیں نقطہ نظرکامعلوم کرنادشوارہے۔لہٰذابہترہےکہ اس سےصرف نظرکرتےہوئےروایت اورحدیث کامطالعہ کیاجائےجو نسبتاًآسان ہے۔مثال کےطورپرنہج البلاغہ میں براہ راست اس شخص کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جواسلامی معاشرہ میں انتظامی ذمہ داری ادا کرناچاہتاہے۔(جیسےوہ خطوط جوامام ؑ نےاپنےنمائندوں کےنام لکھےہیں۔)
اس جواب سےپتہ چلتاہےکہ آپ نےسورۃ کےمطالعہ سےفرارکرنےکےلیےایک ایسی روایت کی جانب رجوع کیاہےجس کی جانب ہمیشہ نظم و نسق میں راہنمائی کے وقت رجوع کیا جاتا ہے۔اس طرح کےجواب سےمعلوم ہوتاہےکہ ہم قرآن کوبہترانداز میں سمجھنےکےلیے نہیں بلکہ قرآن فہمی سےفرارکےلیےروایات اہل بیت ؑ کی جانب رجوع کرتےہیں۔یہ احادیث کےمتعلق نادرست نقطہ نگاہ کاایک نمونہ ہے۔
یہ فصل دینی مطالعات میں قرآن مجیدکی مرکزیت اورقرآن و عترت کےلاینفک رشتہ کی وضاحت کرتی ہے۔
۱۔ موضوعات کی وضاحت کےسلسلےمیں قرآن و عترت کاباہمی تعلق
قرآن مجیدکےمتعلق جومسائل درپیش ہوتےہیں ان میں سےایک قرآن و عترت کاباہمی تعلق ہے۔اس سلسلےمیں عترت طاہرہ کےمعتقدین کی جانب سےدرج ذیل نظریات بیان کیےگئےہیں:
۱۔ قرآن جوحقائق بیان کرناچاہتاہےوہ عترت سےالگ ہیں۔اس نظریہ میں قرآن مجیدکی تعظیم کوبہانہ بناکرعترت سےبےاعتنائی برتی جاتی ہےبلکہ بسااوقات انھیں بھلادیاجاتاہے۔

۲۔ قرآن نےجوحقائق بیان کیے ہیں وہ عترت کےبغیرواضح نہیں ہیں اورقرآن سےصرف اسی صورت میں استفادہ ممکن ہےجب اس کی تفسیر سنت و عترت کےذریعہ انجام پائے۔اس نظریہ میں عترت کی تعظیم و تجلیل کوبہانہ بناکرقرآن مجیدکوایک بےفائدہ یاکم استفادہ کتاب کےطور پردیکھاگیاہے۔البتہ بعض حضرات کےنزدیک یہ وقتی ہےاورظہورامام ؑ کےبعدانسانوں کی قرآنی معارف سےیہ محرومی ختم ہوجائےگی۔
۳۔ قرآن ذاتاًمحکم ہےاوراس کےحقائق کی تفصیل کاکام عترت کےذریعہ انجام پاتاہے۔یہ نظریہ اگرچہ قرآن و عترت دونوں کوساتھ لےکر چلناچاہتا ہےلیکن اس میں علم ومعرفت کےلیےقرآن مجیدکے متن اورافہامی شان کونظرانداز کردیاگیاہے۔اس نظریہ کےمطابق اکیلے قرآن مجیدکےذریعہ اسلامی نظریات تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
مذکورہ بالاتینوں نظریوں میں سےکسی بھی نظریہ کےانتخاب کی صورت میں قرآن کی جانب واپسی کی راہ میں ہمارےسامنےمختلف چیلنج آئیں گےجنھیں اگرحل نہ کیاجائےتو قرآن و عترت سےہمارااستفادہ یاکم ہوجائےگایابالکل ختم ہوجائےگا۔
دوسری طرف واضح ہےکہ رسول اکرم ؐ کےاس معروف فرمان کوسامنےرکھتےہوئےجس میں آنحضرت ؐ نےقرآن و عترت کو گران قدر چیزیں قراردیاہےجوہرگز ایک دوسرےسےجدانہیں ہوں گی،موضوعات کی وضاحت کےسلسلےمیں ہمیں قرآن کواس انداز میں دیکھناہوگاکہ وہ عترت سےالگ نہ ہواوراسی طرح عترت کوبھی اس انداز میں دیکھناہوگاکہ وہ قرآن سےالگ نہ ہو۔
۲۔ حقائق کی وضاحت کےسلسلےمیں قرآن و عترت کاباہمی تعلق
قرآن وعترت کےتعلق کوسمجھنےکےلیے،روایات معصومین ؑ اوران کی سیرت طیبہ سےجوکچھ سمجھ میں آتاہےاس کی بنیادپردرج ذیل مواردکو سامنےرکھا جاسکتا ہے اوراس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہےکہ قرآن و عترت کاایک دوسرےسےالگ نہ ہوناضروری ہے:
۱۔ عترت کاکام آیات قرآنی کےلیےمصداق فراہم کرناہے۔اس صورت میں قرآن کےکسی لفظ یاآیت کےمعنی کوعترت کےذریعہ مصداق فراہم ہوتاہے۔عذاب سےمتعلق کلمات اورآیات دشمنان اہل بیت ؑ کےسلسلےمیں ہیں اورفلاح و نجات سےمتعلق کلمات وآیات پیروان اہلبیت ؑ کےسلسلےمیں ہیں۔
۲۔ جوشخص قرآن مجیدکامطالعہ کرتاہےاوراپنی انفرادی اوراجتماعی زندگی کےمختلف شعبوں میں اس پرعمل کرناچاہتاہےاسےایک چیز کی اور ضرورت ہےجوکہ رسولﷺ اورآل رسول ؐ کی سنت ہے۔اس لیےکہ بعض مواردمیں مذکورہ آیت کی تفصیل کتاب خدامیں نہیں ہےاورسنت رسول ؐ سےہی اس کی تشریح ہوتی ہے۔
۳۔ رسول اکرم ؐ قرآن مکتوب کی تلاوت کرنےوالےہیں اورقرآن آپ کی زندگی کی شکل میں جلوہ گرہواہے۔یہ کیسےممکن ہےکہ قرآن کوسمجھ لیاجائےاوراس کےعینی نمونےسےبےخبررہیں۔عترت طاہرہ بھی ہردورمیں قرآن کی تلاوت کرنےوالےہیں۔قرآن مجیدکامطالعہ کرنے والوں کےلیےلازمی ہےکہ ان کےکان اورآنکھیں اہل بیت ؑ کی تلاوت کی جانب متوجہ رہیں۔
۴۔ سنت رسول ؐ نےآئمہ اہل بیت ؑ کےذریعہ اسلامی ثقافت میں جگہ بنائی ہے۔ان حضرات کےذریعہ رسول اکرمؐ کاقول و فعل بھی ہم تک پہنچاہےاورانھوں نےہمیں انفرادی اوراجتماعی زندگی میں قرآن مجیدکےنفاذ کےسلسلےمیں سنت رسول اکرمؐ کی دوسری جھلک بھی دکھائی ہے۔
۳۔ قرآن مجیدسےاہل بیت ؑ کارشتہ
قرآن و اہل بیت ؑ کےایک دوسرےسےالگ نہ ہونےکاتعلق کتاب و ہدایت کےایک دوسرےسےالگ نہ ہونےسےہے۔کیوں کہ ہدایت کتاب کی بنیادپرانجام پاتی ہےاوریہ ایک ایساامرہےجوخارج میں محقق ہوتاہے۔اسی لیےامام کی شان یہ ہےکہ وہ کتاب کوبنیادبناکرہدایت کاکام انجام دیتاہے۔
قیادت اوررہبری کےمعنی میں امامت ایک ایساوصف ہےجوقرآن و سنت میں اہل بیت ؑ کوعطاکیاگیاہے۔یہ وصف اس نقش راہ کےذریعہ محقق ہوتاہےجواللہ نےکتاب کےذریعہ ان پرنازل کیاہے۔اس بنیادپرکہاجاسکتاہےکہ امامت،آیات کی تلاوت کرنےاورقرآن کونافذ کرنےوالی ہے۔
یہ وہی مقام ہےجوخداوندعالم نےاپنےرسولؐ کومعاشرہ کےامام کی حیثیت سےعطاکیاہے۔خداوندعالم نےانفرادی اوراجتماعی شعبوں میں کتاب کےنفاذ کی ذمہ داری مومنین کی مددسےرسول ؐ کےدوش مبارک پررکھی ہے۔لہٰذاہرزمانہ میں ہرمسلمان کوقرآن کاسامناایک انسان ساز، معاشرہ ساز اورتمدن ساز کتاب کی حیثیت سےکرناچاہیے اوریہ
صرف اس صورت میں ممکن ہےجب کتاب کوبنیادبناکرامام کااتباع کیاجائے۔
اس طرح قرآن مجیدکامطالعہ قرآن فہمی کےعلاوہ نصرت دین بھی ہے۔اگرنصرت دین نہ ہوتو حقیقی معنوں میں فہم قرآن بھی محقق نہیں ہو سکتا۔قرآن مجیدکی حقیقی قرات کےسلسلےمیں کہاجاسکتاہےکہ فہم قرآن اورنصرت امامؑ ایک دوسرےسےالگ نہیں ہوسکتے۔
۴۔ مطالعہ قرآن میں کلام معصوم ؑ سےکس طرح استفادہ کیاجائے؟
مذکورہ بالانکات کوسامنےرکھتےہوئےکسی بھی موضوع کےسلسلےمیں اسلام کانقطہ نظرمعلوم کرنےکےلیےقرآن مجیدسےاس موضوع کا نقشہ دریافت کرناہوگا۔اس کےبعدروایات کی مددسےایسےمطالب کااستخراج کرناہوگاجواس نقشہ کی بیشترتشریح کرسکے۔
روایات کا مطالعہ کرتے ہوئےمشکل درپیش ہوتی ہےوہ یہ ہےکہ روایات پراگندہ ہیں۔اگران روایات کی تنظیم وباب بندی کےطریقہ کارکی منظم شکل میں تعلیم نہ دی جائےتو جوتحقیقی کام سامنےآئےگاوہ بھی پراگندہ اورمنتشرہوگا۔
دوسرامسئلہ کلام خداوراحادیث معصومین ؑ میں الفاظ کےفرق کاہے۔جیساکہ عرض کیاگیاکوئی بھی چیز کلام الٰہی کےہم پلہ نہیں ہے۔اس لیےجب تک قرآن سےمانوس نہ ہواجائےاورمسلسل روایات کامطالعہ نہ کیاجائےاوران کےبارےمیں ایک منظم نقطہ نگاہ تشکیل نہ دیاجائےآیات اور روایات کی صحیح پہچان اوران کاباہم تجزیہ ممکن نہیں ہے۔
روایات سےحاصل شدہ مفاہیم جب قرآنی موضوعات کی روانی میں قرارپاتےہیں تو قرآنی حقائق کوحقیقت سےنزدیک کردیتےہیںکیوں کہ روایات کاتعلق زندگی میں موضوعات کےوقوع پذیرہونےسےہوتاہے۔اس صورت میں قرآن و عترت کی ہمراہی ویسی ہی ہےجیسےعلم و عمل کی ہمراہی جو ایک دوسرےکےبغیربےمعنی ہیں۔
اس نقطہ نظرکےمطابق چونکہ قرآن فکری بنیادکی حیثیت رکھتاہےاس لیےموضوعات کےتسلسل کی بناپربڑی آسانی سےمختلف اورمتعدد روایات کی جستجوکاامکان فراہم ہوجاتاہےجس کانتیجہ یہ ہوتاہےکہ موضوع کی وضاحت اوراس کانفاذ زیادہ پائیدار انداز میں ہوسکتاہے۔
۵۔ مطالعہ قرآن کےساتھ ساتھ کلام معصوم ؑ سےواقفیت کی ضرورت
مسلمانوںکےلیےجس قدرقرآن پڑھنااہمیت رکھتاہے،قرآنی آیات کےعملی ہونےکےلیےاحادیث معصومین ؑ سے واقفیت بھی اتنی ہی ضروری اوراہم ہے۔
ہرمسلمان کےلیےضروری ہےکہ وہ اپنےلیےاحادیث معصومین ؑ کےمطالعہ کامنظم لائحہ عمل تشکیل دے۔اس لائحہ عمل میں قرآن مجیدمیں کسی خاص موضوع سےواقف ہونےاورخداوندعالم نےاس موضوع کےمتعلق جوحقائق بیان کیے ہیں ان کی چھان بین کرنےکےبعداحادیث معصومین ؑ کی جانب رجوع کیاجاسکتاہےنیز یہ بھی ممکن ہےکہ ان میں سےہرایک کےلیےایک واضح مطالعاتی سلسلہ اختیارکرےتاکہ اس موضوع کےمتعلق مفاہیم رفتہ رفتہ فردکےاندرگھرکرجائیں اوراس کےلیےروائی اورقرآنی مطالب میں تعلق مشخص ہوجائے۔
اس نکتہ پرتوجہ ضروری ہےکہ کلام معصوم ؑ کوسمجھنےکےلیےکچھ اصول و مبانی کاجانناضروری ہےجوہمیں کلام معصوم ؑ کوسمجھنےکےلیےایک باضابطہ اورمستحکم راستہ کی جانب لےکرجاتےہیں۔
ایک اہم ترین اصول یہ ہےکہ قرآن مجیداوردیگرروایات سےقطع نظرمحض کسی ایک روایت کولےکرکسی موضوع کےمتعلق اسلامی نقطہ نظر بیان نہیں کیاجاسکتا۔اسی لیےمختلف طریقوں سےکوشش کی جاتی ہےکہ کسی موضوع کےمتعلق روایات سےایک جامع نظریہ حاصل کیا جائے۔

Share this content: