×

فرنگ کی رگ ِجاں پنجۂ یہود میں ہے

nisartirmazi

فرنگ کی رگ ِجاں پنجۂ یہود میں ہے

تحریر: سید نثار علی ترمذی

علامہ اقبال ایک شاعر، فلسفی اور امت محمدی کے مسلمہ راہنماء ہیں۔ انھوں نے اپنی دور بین نگاہوں سے مسائل کا عمیق جائزہ لیا اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ اب امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ علامہ اقبال کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خود کو مصائب و مشکلات سے باہر نکالے۔ علامہ اقبال نے شاعری کے ذریعے سے اپنے پیغام کو پہنچایا ہے، اس کے علاوہ عملی و قلمی خدمات بھی انجام دیں۔ علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے حوالے سے ایک تحریک کی صورت میں کام کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جو صورت حال معرضِ وجود میں آئی، اس کا علامہ اقبال نے بروقت محاکمہ کیا۔ باغ بیرون موچی دروازہ، لاہور میں 30 دسمبر 1919ء ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ایک قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی سرزمین کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا کیا جائے۔ اقبال نے زور دیا کہ کسی بھی مسلم سرزمین کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیئے۔[1]

مسلمانانِ لاہور نے7 ستمبر 1929ء کو انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ایک جلسہ منعقد کیا، جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔ اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کے الم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ’’ہولناک سفاکی‘‘ کی مذمت کی۔[2] 6 دسمبر 1931ء وہ لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی کر رہے تھے تو انھیں فلسطین عالمی کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی۔ علامہ اقبالؒ مؤتمرِ عالم اسلامی (ورلڈ مسلم کانفرنس) کی طرف سے فلسطین پر عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے یروشلم پہنچ گئے۔ اس کانفرنس کا مقصد صہیونی خطرہ پر غور کرنا تھا علامہ اقبالؒ بیت المقدس کے قریب واقع ہوٹل "فندق مرقص” میں ٹھہرے۔ آپ فلسطین ستائیس دن رہے۔ 6 دسمبر 1931ء کی شام روفتہ المصارف میں مؤتمر اسلامی کا تعارفی اجلاس ہوا، جس کے بعد علامہ اقبالؒ مسجدِ اقصیٰ میں آئے۔ پہلے انھوں نے مولانا محمد علی جوہرؒ کی قبر پر فاتحہ پڑھی، پھر مسجدِ اقصیٰ میں نمازِ مغرب ادا کی۔ اس اجلاس میں علامہ اقبالؒ نے خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں آپ کو موتمر نائب صدر منتخب کیا گیا۔

علامہ اقبال کی تقریر کا خلاصہ
اقبالؒ نے کہا اسلام کو اس وقت دو بڑے خطرات لاحق ہیں: مادی الحاد اور وطنی قومیت: انھوں نے کہا کہ اسلام کی روح ان دونوں خطروں کوشکست دے سکتی ہے۔

آیت اللہ کاشف الغطا سے ملاقات:
اس دورے کے دوران علامہ اقبال کی ملاقات آیت اللہ محمد حسین کاشف الغطا سے ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے  فلسطین کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا اور اسلامی وحدت پر زور دیا۔ آیت اللہ محمد حسین کاشف الغطا ایک جید شیعہ عالم دین ہیں۔ آپ پاکستان میں بھی تشریف لا چکے ہیں۔ آپ نے کانفرنس میں جو خطاب کیا، اس کے ترجمہ کی سعادت بھی علامہ اقبالؒ حاصل ہوئی۔ اس کانفرنس کے دوران متعدد مرتبہ آیت  اللہ کاشف الغطا نے مسجد اقصیٰ میں نماز کی امامت کا فریضہ انجام دیا۔ علامہ اقبالؒ سمیت تمام مسلم زعماء نے آپ کی اقتداء میں نمازیں ادا کیں۔ علامہ اقبال نے یہیں پر تلاوت اور نعت خوانی کی ایک محفل میں شرکت کی، نمازِ عشاء بھی یہیں ادا کی اور آخر میں علامہ اقبال ؒنے سب شرکاء کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ وہ مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے۔ علامہ اقبالؒ 27 دن تک مؤتمرِ عالم اسلامی کے اجلاسوں میں شریک رہے اور روزانہ مسجدِ اقصیٰ میں آکر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں کئی مرتبہ انھوں نے فاتح اندلس طارق بن زیاد سے متعلق اپنے فارسی اشعار سنائے، جن کا عربی ترجمہ ایک عراقی عالمِ دین نے کیا۔

برطانوی رائل کمیشن کی مخالفت (1937ء)
1937ء میں برطانیہ کے رائل کمیشن نے فلسطین کی تقسیم اور یہودی ریاست کے قیام کی سفارش کی۔ اقبالؒ نے اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا:
* فلسطین نہ تو برطانیہ کا ہے اور نہ ہی یہودیوں کا، بلکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے۔
* صہیونیت درحقیقت برطانوی سامراج کا اڈہ بنانے کی سازش ہے۔
* انہوں نے عربوں اور ترکوں کو اتحاد کی دعوت دی اور کہا کہ عرب بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں۔

قائداعظم کے نام خط (1937ء)
اپنی وفات سے چند ماہ قبل، 7 اکتوبر 1937ء کو اقبالؒ نے قائداعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط لکھا، جس میں فلسطین کے مسئلے پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے مسلم لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ صرف قراردادوں تک محدود نہ رہے بلکہ عملی اقدامات کرے، جیسے فلسطینیوں کے لیے فنڈ قائم کرنا اور یوم فلسطین منانا ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا: "ذاتی طور پر میں فلسطین کے مسئلے پر جیل جانے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔”

علامہ اقبالؒ کی فلسطین کے حوالے سے شاعری
(سیاسیات مشرق و مغرب)
رندان فرانسيس کا ميخانہ سلامت
پر ہے مے گلرنگ سے ہر شيشہ حلب کا
ہے خاک فلسطيں پہ يہودي کا اگر حق
ہسپانيہ پر حق نہيں کيوں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکيت انگليس کا کچھ اور
قصہ نہيں نارنج کا يا شہد و رطب کا
علامہ اقبالؒ کا فلسطین سے گہرا تعلق اور ان کی حمایت مسلمانوں کے لیے ایک اہم تاریخی حوالہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (’’انوار اقبال‘‘ بشیر احمد ڈار، اقبال اکیڈمی پاکستان، لاہور ایڈیشن دوئم، 1977ء)
[2] (گفتار اقبال، مرتب کردہ، محمد رفیق افضل، طباعت دوم1977ء، ناشر، ادارہ تحقیقات پنجاب ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

Share this content: