ایران امریکہ مذاکرات و توقعات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ممالک کے درمیان مذاکرات شروع سے ہی شطرنج کی چالوں کی طرح الجھے ہوئے اور دماغی صلاحیتوں کا امتحان رہے ہیں۔ آج کل اس میں ایک اور عنصر بھی شامل ہوگیا ہے کہ دنیا کے کچھ ممالک نے خود ساختہ پولیس مین کا کردار سنبھال لیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ہر صورت میں ان کی مانی جائے اور مذاکرات کو وہ اپنی شرائط پر معاہدے کے لیے ہونے والی بات چیت قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جب ان کی تجاویز کے مقابلے میں تجاویز آتی ہیں تو بات دھمکیوں اور پابندیوں کی طرف چلی جاتی ہے۔ ٹرمپ نے روس یوکرین جنگ رکوانے کا مطلب یہ لیا کہ بس وہ اعلان کریں اور جنگ رک جائے۔ جب ایسا نہیں ہوا تو محلے کی لڑاکوں ساس کی طرح طعنہ بازی شروع کر دی۔ روس نے بالکل درست کہا کہ عارضی جنگ بندی مسائل کا حل نہیں ہے، ہمیں ان وجوہات پر پہلے بات کرنا ہوگی کہ جنگ شروع کیوں ہوئی تھی۔؟
اگر ہم ان وجوہات کو ڈھونڈنے اور ان کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ایک مستقل جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ امریکہ کی پالیسی تو یہ لگتی ہے کہ وہ یورپ کو ڈرا کر اور زیلنسکی کو ذلیل کرکے اپنا غلام بنانا چاہتا ہے اور ساتھ میں روس پر ایک احسان کرنا چاہتا ہے کہ ہم نے تمہیں جنگ سے نکالا ہے۔ روس نے بھی اچھا پتہ پھینکا ہے کہ جن معدنیات کے لیے تم کنٹرول سے باہر ہو رہے ہو، وہ تمہیں مل جائیں گی، ذرا ہم سے بات چیت کرکے اور ہاتھ ملا کر دیکھو۔ یہ یورپ کو بھی ایک پیغام تھا، آپ نے دیکھا کہ روس سے تو کوئی معاہدہ نہ ہوسکا، یوکرین نے امریکہ سے ایک ذلت آمیز معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں، روس کے اندر سے روسی اڈوں پر اس قدر خطرناک حملے یوکرین کی افواج یا سکریٹ سروس ہرگز نہیں کرسکتی۔ یہ بین الاقوامی طاقتوں کی کارروائی ہے، جس میں وہ پس پردہ کئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ کے نئے دور میں عمان کے تعاون سے ایران امریکہ مذاکرات شروع ہوئے، یہ بہت اچھا اقدام ہے۔ کسی بھی طور پر مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن زیادہ ہیں، جب براہ راست مذاکرات نہیں ہوتے تو دشمن زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی ٹیم اپنا موقف بہترین انداز میں پہنچا اور منوا سکتی ہے۔ ان مذکرات کے مسقط اور اٹلی میں کئی دور ہوچکے ہیں اور ابھی بات فائنل تجاویز کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کی طرف سے فائنل تجاویز اسلامی جمہوریہ ایران کو عمان کے ذریعے وصول ہوچکی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں ایرانی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی کو مکمل طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس کا مقصد اس کنسورشیم کے ذریعے ایران کے پاور پلانٹس کے لیے جوہری ایندھن فراہم کرنا ہے۔
اس تجویز کے بظاہر دو حصے ہیں، ایک حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ یورینیم کی افزودگی کو روکنے سے متعلق ہے۔ یورینیم کی افزدوگی کو روک کر ایران سے باہر کہیں سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کا حصول ایک غیر عاقلانہ تجویز ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کو کسی بھی صورت میں اس حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیئے۔ ماضی میں اسی جیسے جتنے معاہدے ہوئے، ان کا انجام دوبارہ محتاجی کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ اور دیگر قیادت بار بار اس کا اظہار کرچکی ہے کہ یورینیم کی افزدوگی کے حق سے محرومی کسی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی۔ جہاں تک خطے میں ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادے کے لیے کسی کنسورشیم کی تجویز ہے تو یہ اچھی بات ہے، اس میں امریکہ نہ بھی شامل ہو تو ایران کو خطے کے ممالک کی اس صلاحیت کی پرامن مقاصد کے لیے ترقی میں ساتھ دینا چاہیئے۔
آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہر دوسرے ہفتے یہ خبر منظر عام پر آرہی ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے ہی والا ہے۔ یا فلاں ہفتے کو حملے کا پروگرام طے تھا، عین وقت پر امریکی صدر کو اطلاع مل گئی اور انہوں نے اس حملے کو رکوا دیا۔ یہ سب نفسیاتی حربے ہیں، جن کے ذریعے سے اسلامی جمہوریہ ایران پر نفسیاتی دباو بڑھایا جاتا ہے۔ امریکہ یہ کہنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تو علاقے کا بڑا ہوں، جس نے ایران کو اسرائیلی حملوں سے بچایا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ایک ہی ہیں، اسرائیل امریکہ کی مرضی کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔ موجودہ دور میں اس طرح کی حرکتیں بچگانہ کھیل لگتی ہیں، جب مجھ جیسا عام لکھاری اس گیم کو سمجھ رہا ہے تو دارالحکومتوں میں بیٹھے بڑے سفارتکار اس صورتحال سے کیسے ناآشنا ہوسکتے ہیں۔؟
ایک بات طے ہے کہ امریکہ کا مقصد ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ ایران کا اسلامی نظام ہے۔ یہ نظام امریکہ، یورپ اور اسرائیل کو قبول نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک قدم پیچھے ہٹے گا تو یہ دس قدم آگے بڑھنے اور چڑھائی کی کوشش کریں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ انقلاب اسلامی دن بدن مضبوط ہو رہا ہے اور اقتصادی و سائنسی طور پر ترقی یافتہ ایران انہیں قبول نہیں ہے۔ مذکرات میں الجھا کر رکھا جا رہا ہے۔ آپ عرب میڈیا کو دیکھیں تو ابھی تک اسلامی جمہوریہ ایران نے اس خط کا جواب ہی نہیں دیا، مگر ان کی امریکہ سے وفادارنہ سرخیاں جاری ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں، بس بتانے کے لیے خط لکھا جا رہا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی شرائط پر اسلامی جمہوریہ ایران کبھی بھی معاہدہ نہیں کرے گا، کیونکہ یہ تو سیدھا سیدھا سرینڈر کرنا ہوگا۔ جو بات انہیں معلوم نہیں ہے، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتکاری کی صلاحیتیں ہیں، جو ایران کی عوام کے لیے غیرت مند اور آبرو مندانہ راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Share this content: