×

آئیے! فسطائیت کو پہچانیں(۱)

syedasadabbas

آئیے! فسطائیت کو پہچانیں(۱)

تحریر: سید اسد عباس

جنگ عظیم دوم میں فاشزم اور نازی ازم نے یورپ کو تباہی سے دوچار کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ اس جنگ کے بعد یورپ کے تمام ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ فاشزم ایک خطرناک اور تباہ کن نظریہ ہے، جسے کبھی دوبارہ پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ آج فاشزم کا نام یورپ میں نفرت اور شرمندگی کی علامت ہے، تاہم فاشزم یا فسطائیت نیز نازی ازم کے مظاہر مختلف معاشروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام، کیمونزم، لبرل ازم اور دیگر ازم کی مانند فاشزم کو بھی سمجھا جائے۔ یورپ میں فاشزم اور نازی ازم چونکہ ایک قابل نفرت نظریہ بن گیا، لہذا اس کی جدید شکلیں خود کو ان ناموں سے منصوب نہیں کرتی ہیں۔ ہم فاشزم، فسطائیت، نازی ازم کے عملی ارتقاء، خصوصیات، نظری بنیادوں اور طریقہ واردات کے ذریعے ہی اس کو پہچان سکتے ہیں۔

فسطائیت کی انگریزی Fascism ہے، جسے اطالوی زبان میں fascismo کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ اطالوی اصطلاح fascio سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے”لاٹھیوں کا بنڈل۔” اطالوی لفظ کی بنیاد لاطینی لفظ fasces ہے۔ قدیم روم میں یہ بنڈل رومن مجسٹریٹ کی مکمل سول اور فوجی طاقت کی مادی علامت تھا، جسے امپیریم کہا جاتا تھا۔ 1914ء سے پہلے، یورپ کی مختلف سیاسی تحریکوں میں fasces علامت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ Fasces رومن ریپبلک اور اس کے وقار کی علامت بھی ہے۔ فاشزم کو بطور نظریہ بیان کرنا ایک ناممکن نہیں تو مشکل کام ضرور ہے۔ ایک انگریز مورخ کے مطابق فاشزم کو بیان کرنا جیلی کو دیوار پر کیل کے ذریعے ٹانکنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ "فاشسٹ” گروہوں میں کچھ منفرد عناصر ہوتے ہیں، تاہم ہر فاشسٹ نے کیمونزم، سوشلزم، قدامت پسندی اور پارلیمانی لبرل ازم پر حملہ کیا، جبکہ انتہائی دائیں بازو کی حمایت حاصل کی۔

فاشزم بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ میں ابھرنے والی ایک مقبول تحریک تھی، جو محض چند افراد کی سازش نہیں بلکہ عوامی حمایت یافتہ نظریہ بن چکی تھی۔ اس تحریک نے انڈسٹری، بینکنگ، کامرس اور معیشت کے دیگر شعبوں پر کنٹرول حاصل کیا۔ فاشزم کی فکری بنیاد جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کے خیالات میں ملتی ہے، جو مذہب خصوصاً عیسائیت کو غلامانہ سوچ قرار دیتا تھا۔ نطشے نے "سپر مین” اور "Will to Power” جیسے نظریات پیش کیے، جن کے مطابق انسان کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر زندگی گزارنی چاہیئے اور طاقت ہی اچھائی کا معیار ہے۔ نطشے کے ان افکار نے فاشزم کے نظریئے کو ایک فکری بنیاد فراہم کی۔ ڈاکٹر مبارک علی فاشزم کے ارتقاء اور ظہور کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ فرانسیسی اور صنعتی انقلابات نے یورپ کے معاشرتی ڈھانچے کو بدل دیا، جس کے نتیجے میں نئے نظریات جیسے قوم پرستی، سیکولرازم اور سوشلزم نے جنم لیا۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ میں شدید معاشرتی و معاشی بحران پیدا ہوا، خاص طور پر اٹلی اور جرمنی میں۔ 1917ء میں روسی انقلاب کے بعد کیمونزم کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ گیا، جس سے بچنے کے لیے اٹلی اور جرمنی کے بورژوا طبقے (سرمایہ داروں) نے فاشزم اور نازی ازم جیسے نظریات کی سرپرستی کی۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی تحریر "فاشزم کا تاریخی کردار اور تباہ کاریاں” کے ذیل میں فاشزم کی چند اہم بنیادوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: فاشزم اور نازی ازم میں ان کے لیڈروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ایسی کسی بھی تحریک کا رہنماء خود پسند تو ہوتا ہی ہے، لیکن ساتھ میں خود کو عقل کل اور عوام کا نام نہاد نجات دہندہ تصور کرتا ہے۔ جیسا کہ ہٹلر اور موسولینی نے خود کو جو القابات عطا کیے، وہ ان کی شخصیت کو مقدس اور باوقار بنانے کی ایک ناکام کوشش تھے۔

جیسے موسولینی نے اپنے لیے گریٹ لیڈر اور ہٹلر نےFührer یعنی رہنماء کا انتخاب کیا۔ ان دونوں راہنماؤں کے ادوار میں فاشزم کے اہم نکات درج ذیل رہے۔
* ریاست کا ادارہ بے انتہاu طاقتور تھا، جبکہ انفرادی آزادی ختم ہوگئی تھی۔
ایک ہی سیاسی پارٹی کی حکومت ہوتی تھی۔
کسی کو ریاستی یا سیاسی آزادی نہیں تھی۔
لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے شاندار ماضی کو ابھارا جاتا تھا۔
جمہوری روایات کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس کی جگہ آمرانہ طرز حکومت قائم ہوگئی تھی۔
اگرچہ فاشسٹ حکومت مذہبی معاملات میں دخل تو نہیں دیتی تھی مگر مذہب کے تسلط کو بھی ختم کر دیا جاتا تھا اور سیکولر روایات کو فروغ دیا تھا۔

تعلیم پر ریاست کی اجارہ داری تھی اور نوجوان نسل فاشسٹ نظریئے کے تحت قوم پرستی کے جذبے سے سرشار ہوتی تھی۔
فاشسٹ حکومت جنگ کو بطور ہتھیار استعمال کرکے اس کے ذریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرتی تھی۔
فاشسٹ حکومت کے تحت ادب، آرٹ، سائنس اور سماجی علوم کے لیے لازمی تھا کہ وہ اس کے نظریات کی تبلیغ کرے۔ دانشوروں کا بھی یہ فرض تھا کہ اپنی تخلیقات کے ذریعے خیالات کو لوگوں تک پہنچائیں۔
فاشسٹ حکومت خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے لوگوں کی نگرانی کرتی تھی اور مخالفوں کو قید و بند کی سزائیں دی جاتی تھیں۔
فسطائیت کا ہر معاشرے میں رنگ جداگانہ ہوتا ہے، تاہم چند کلیدی خصوصیات رہنماء کی مطلق اطاعت ("مسولینی ہمیشہ درست ہے”)، پارلیمانی جمہوریت کا انکار، جنگ کو "قومی عظمت” کا ذریعہ سمجھنا مشترک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this content: