مغرب نے عملاً طے کرلیاہے کہ مذہب کا سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے نزدیک مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ عیسائیت‘ یہودیت‘ اسلام یا سکھ مذہب وغیرہ میں سے جو ’’مذہب‘‘ بھی اختیار کرنا چاہیں‘ آزاد ہیں۔
البتہ آپ کے مذہب کا سوسائٹی‘ گورنمنٹ اور پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔پارلیمنٹ اس سے آزاد رہ کر قانون سازی کرے گی۔ بائیبل کیا کہتی ہے اور قرآن کیا کہتا ہے ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یعنی پارلیمنٹ اس لیے شراب کوحرام قرار نہیں دے سکتی کہ قرآن نے اسے نجس اور ’’ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ‘‘(۶) قرار دیا ہے۔