Skip to content

مسئلہ کشمیرپر KMS کے سربراہ شیخ تجمل الاسلام کا اہم انٹرویو

اینکر و ترتیب: سید اسد عباس

شیخ تجمل الاسلام کا تعلق وادی کشمیر سے ہے ۔ ان کی پیدائش 1954ء میں سرینگر میں ہوئی۔ وہیں پلے بڑھے اور یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کی ۔وہ ایک عرصے سے پاکستان میںتحریک آزادی کشمیر کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔1999ء سے کشمیر میڈیا سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور مسئلہ کشمیر پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ شیخ تجمل الاسلام مقبوضہ وادی میںکئی سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے ۔ سرینگر میں روزنامہ ’’اذان ‘‘کے چیف ایڈیٹر کے علاوہ کئی ہفت روزوں اور روزناموں میںمدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ سرینگر میں ہی وکالت بھی کی ۔ 1975میں شیخ عبد اللہ اور اندرا گاندھی کے معاہدے کے خلاف اور اس کے مضر اثرات کو لوگوںپر آشکار کرنے کے لیے کافی کام کیا ۔ اس سلسلے میں آپ ایک موثر آواز تھے ۔ متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں جس کے بعد آپ کو وادی سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنی پڑی ۔ مسئلہ کشمیرپر KMS کے سربراہ شیخ تجمل الاسلام کا اہم انٹرویو

مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی

بھارت پر حاکم انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی نے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی راہ میں حائل بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 5 اگست 2019 کو یعنی ایک برس قبل ختم کیا، اگرچہ یہ دفعات بھی کشمیریوں کے اطمینان کے لیے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں جو غیر قانونی ہی تھیں تاہم اس سے کشمیر کے باسیوں کو کم از کم یہ تحفظ حاصل تھا کہ باہر سے کوئی ہندوستانی باشندہ آکر ان کی ریاست میں زمین نہیں خرید سکتا یا مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو بدلنے کا کوئی حربہ بروئے کار نہیں لایا جاسکتا ہے تاہم اب ہندوستان کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ کشمیری باشندوں کے مطابق یہ بھارت کی طرف سے کشمیر میں 27 اکتوبر 1947کے بعد دوسری بڑی جارحیت تھی۔ یاد رہے کہ 27 اکتوبر 1947 میں بھارت نے تقسیم ہند کے اصول کے منافی نیز کشمیریوں کی خواہشات کے بر عکس سرینگر کے ہوائی اڈے پر فوج اتاردی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی

یوم یکجہتی کشمیر

پاکستان میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم5 فروری یوم کشمیر کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔یہ دن منانے کا اعلان جماعت اسلامی کے سابق امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سابق صدر قاضی حسین احمد مرحوم نے 5جنوری 1989کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔اس اعلان کے بعد پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلی میاںمحمد نواز شریف اور سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے اس اعلان کی تائید کی۔ پہلا یوم یکجہتی کشمیر5فروری 1989 کو منایا گیا جبکہ 1990میں تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری قوم اور کشمیریوں نے یوم یکجہتی منایا۔اب گذشتہ 31برسوں سے پاکستانی قوم اور دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی و کشمیری شہری 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے مناتے ہیں۔مرحوم قاضی حسین احمد نے یوم یکجہتی کشمیر کا اعلان مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی جانب سے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے نیز کشمیری عوام کی جانب سے مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد کیا۔کشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیری نوجوانوں کے قافلوں نے آزاد کشمیر کا رخ کیا۔
یوم یکجہتی کشمیر

مسئلہ کشمیر اور چین کا کردار

برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے بعد سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اہم ترین مسائل میں سے شمار ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر بھارت اور پاکستان کے مابین ایک مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بنیادی فریق خود کشمیری ہیں۔ تاہم چین بھی کئی پہلوئوں سے اس مسئلے سے وابستگی رکھتا ہے بلکہ اگر اسے بھی اس مسئلے کا ایک فریق کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سی پیک کے معاہدے کے بعد اس مسئلے سے چین کی دلچسپی اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ہم اس مضمون میں مسئلہ کشمیر سے متعلق چین کے نقطہ نظر کا بھی ذکر کریں گے۔ نیز کشمیر کے بارے میں مختلف حوالوں سے چین کے موقف کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔مسئلہ کشمیر اور چین کا کردار

امت اسلامیہ کا نوحہ

 امت مظلوم کے کس درد کا نوحہ لکھوں۔ وسائل کی فراوانی کے باوجود مسلم عوام کی کسمپرسی کا حال کہوں، یا سوا ارب سے زیادہ آبادی کے حامل مسلمان ممالک کے نا اہل حکمرانوں کی عیاشیوں کا فسانہ چھیڑوں، امت اسلامیہ کی علمی و فکری پسماندگی کی حکایت بیان کروں یا آپس میں دست و گریباں مسلمانوں کی بپتاکہوں۔ایک جانب پاکستانی حکمران ہیںکہ جنہوں نے اپنے تین بے جرم و خطا شہریوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کواپنے ہی قانون کا سہارا لیتے ہوئے فرار کرایاتو دوسری جانب لیبیا اور خلیجی ریاستوں کے حکمران ہیں جو اپنے ہی نہتے عوام کو بارود اور بندوق کے زور پر خاموش کرنے کے درپے ہیں۔

امت اسلامیہ کا نوحہ

قیام الحسین ؑ ۔فی۔ کلام الحسین ؑ

تلخیص:
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ خلفائے راشدینؓ کی خلافت سے صلح امام حسن ؑ تک امت ہر معاملے میں ہمیشہ دو نظریاتی گروہوں میں منقسم رہی۔تاہم حسین ؑ کا قیام ایسا اقدام ہے جس پر مسلمان تو مسلمان ،غیر مسلم بھی امام عالی مقام کی عظمت کے قائل نظر آتے ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سید المرسلین ؐ کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں جس ہستی کے اقدام کو بلا تخصیص مسلک و گروہ حق سمجھا گیا ، امام حسین ؑ کی ذات والا صفات ہے ۔

قیام الحسین ؑ ۔فی۔ کلام الحسین ؑ

موحدون، دروزیہ ایک اجمالی تعارف

موحدون یا دروزیہ کا تعلق بھی بنیادی طور پر اسماعیلیہ کے فاطمی سلسلے سے ہے۔ اِس کا شمار بھی دنیا کے اُن فرقوں میں ہوتا ہے جن کی تعداد بہت کم ہے۔موحدون، دروزیہ خالص عرب ہیں۔اِن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ملین سے دو ملین تک ہے۔موحدون، دروزیہ کی ایک بڑی تعداد لبنان، شام اور فلسطین میں آباد ہے؛ جبکہ دنیا کے دیگر ممالک خاص کر مغربی ممالک میں بھی اِن کی کچھ تعداد موجود ہےجو عرب خطوں سے ہجرت کر کے وہاں گئی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف براٹینیکا کے مطابق موحدون، دروزیہ کی تعداد لبنان میں تقریباً تین لاکھ سے زائد، شام میں اندازاً چھ لاکھ سے زائد جبکہ فلسطین میں ان کی تعدادکا تخمینہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ نفوس یا اس سے زائد پر مشتمل ہے، جبکہ موحدون،دروز کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد دو ملین سے کچھ زیادہ ہے۔

موحدون، دروزیہ ایک اجمالی تعارف

عقیدۂ توحید کے معاشرتی اثرات

عقیدے کی وحدت ہی امت کی وحدت پر منتج ہوتی ہے بشرطیکہ عقیدے کو اس کی روح کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ عقیدہ توحید ہی اسلام کے ہر دوسرے عقیدے ،اخلاقی تعلیمات اور احکام عبادی کی روح رواں ہے۔ 

اس عقیدے کے معاشرتی پہلوؤں پر غور کیا جائے تو یہ امر کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ اس کی مدد سے ہم ایک امت ہی نہیں ،ایک عظیم امت بن سکتے ہیں۔پیش نظرسطور اسی امر کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

عقیدۂ توحید کے معاشرتی اثرات

معرفت دین کی ابتداء

دین اور غیر دین میں حدفاصل ماورائے مادۂ کائنات کاتصور ہے ۔ایک نظریے کے مطابق ساری کائنات اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ یہ لوگ حیات بعد ازممات کو بھی نہیں مانتے کیونکہ یہی ان کے تصور کائنات کا تقاضا ہے ۔

 قرآن شریف میں بھی اس نظریے کے حامیوں کا نقطۂ نظر نقل کیا  گیا ہے :
 وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِِلَّا الدَّہْرُ۔۔۔(۱)

معرفت دین کی ابتداء

نبوت ،نبی اور عقل

تلخیص:
جو لو گ عقل کی نفی اور توہین پر عقید ۂ نبوت کی بنا استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ نبو ت کے کمال آفرینی کے اہم منصب اور حکمت نبوت سے ناآشنائی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ عقل ہی تو انسان کا عظیم مابہ الامتیاز ہے ۔ عقل انسان کو مخلوقات عالم میں ممتاز کرتی ہے ۔ نبوت کی ضرورت کو عقل کی نفی اور کمزوری و نارسائی کی دلیل سے ثابت کرنا عقل کی توہین کے مترادف ہے ۔ ہم قرآن حکیم میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بار بار عقل انسانی کو پکارتا ہے ۔ انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ اندھی تقلید تر ک کرنے کے لیے اسے دلیل کی بنیاد پردعوت دیتا ہے ۔ انسان کو دنیا کے سب رنگوں کو چھوڑ کر فطر ت کا الٰہی رنگ اختیار کرنے کی طر ف ابھارتا ہے ۔ 

نبوت ،نبی اور عقل

نسائیات چند متفرق تحریریں

ہم اپنے اِس مضمون کا آغاز، برصغیر کے مشہور مفسر، مولانا امین احسن اصلاحی کے پیرا گراف سے کرتے ہیں، آپ لکھتے ہیں” آدمی جب تک بیوی سے محروم رہتا ہے وہ کچھ خانہ بدوش سا بنا رہتا ہے۔

 اور اس کی بہت سی صلاحیتیں سکڑی اور دبی ہوئی رہتی ہیں۔ اسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہتی ہے اس کی حیثیت بھی اس بیل کی ہوتی ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھولنے پھلنے سے محروم ہو۔ لیکن جب عورت کو شوہر مل جاتا ہے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہو جا تی ہے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور زندگی کے میدان میں جب وہ دونوں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی جدو جہد میں برکت دیتا ہے اور ان کے حالات بالکل بدل جاتے ہیں”۔
(تفسیر تدبرِ قرآن، جلد 5، صفحہ 400)

نسائیات چند متفرق تحریریں

مغرب کے اور ہمارے تصور مذہب میں فرق

مغرب نے عملاً طے کرلیاہے کہ مذہب کا سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے نزدیک مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ عیسائیت‘ یہودیت‘ اسلام یا سکھ مذہب وغیرہ میں سے جو ’’مذہب‘‘ بھی اختیار کرنا چاہیں‘ آزاد ہیں۔

 البتہ آپ کے مذہب کا سوسائٹی‘ گورنمنٹ اور پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔پارلیمنٹ اس سے آزاد رہ کر قانون سازی کرے گی۔ بائیبل کیا کہتی ہے اور قرآن کیا کہتا ہے ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یعنی پارلیمنٹ اس لیے شراب کوحرام قرار نہیں دے سکتی کہ قرآن نے اسے نجس اور ’’ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ‘‘(۶) قرار دیا ہے۔

مغرب کے اور ہمارے تصور مذہب میں فرق