×

قرآن خوانی یا قرآن فہمی؟

dr-sajjad-astoori

قرآن خوانی یا قرآن فہمی؟

ڈاکٹر سجاد علی استوری
تلخیص: مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید ہر دور کے لئے ہدایت ہے۔ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق بنی نو انسان کو راہنمائی کرسکتی ہے۔ وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں ، بدلتے حالات اور اس کے تقاضوں کا حل قرآن مجید ہی سے مل سکتا ہے ۔ہر زمانے کے مسائل کا حل قرآن سے حاصل کرنے کے لئے ہر زمانے میں قرآن میں تدبر کرنا لازمی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پر تدبر کی دعوت دی ہے۔قرآن کی عظمت اور فضیلت کا تقاضا ہے کہ دنیا وی کامیابی اور اخروی نجات کے لئے قرآنی ہدایات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کی تلاوت و قرأت کا مطلب صرف الفاظ کا دہرانا نہیںبلکہ قرآنی تعلیم کا حصول کمال دنیوی اور نجات اخروی کے لئے ہے ۔ اس کی تلاوت کرنے کے خاص آداب ہیں اور اس پر تدبر کے بھی کچھ آداب ہیں اسی طرح اس کے ظاہری احترام کے حوالے سے بھی کچھ آداب ہیں۔ احادیث میں آتا ہے کہ جس گھر میں قرآن مجید نہیں پڑھا جاتا اور نہ ذکر الٰہی ہوتا ہے اس کی برکتیں کم ہوجاتی ہیں۔ قرآن رسول اکرم ؐ کا زندۂ جاوید معجزہ ہے ،جیسے جیسے ذہین انسان کی ارتقا ہوگی ویسے ویسے قرآن کے اسرار و رموز بھی انسان کے لئے واضح ہوتے جائیں گے۔ دور حاضر میں مسلمانوں کو جس ہزیمت کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اہلبیتؑ اور قرآن کو تقدس کی حدود میں مقید کر رکھا ہے ۔
____________

اسلام ایک مکمل نظام حیات کا نام ہے ۔حکم الٰہی ہے:
اُدخُلُوا فی السِّلمِ کَافَّۃ۔
اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔(۱)
اسلام میں مکمل داخل ہونے کے لئے زندگی کے تمام شعبوں کو قرآنی تعلیمات کے مطابق استوار کرنا ضروری ہوگا کیونکہ قرآن مجید انسانیت کے تمام شعبوں میں سرچشمہ ہدایت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لا رطبِِ وّ لا یابسِِ اِلَّا فِی کِتابِِ مُّبینِ ۔
کوئی خشک و تر ایسا نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں نہ ہو۔(۲)
ایک دوسری جگہ ارشادہوتا ہے :
وَ نَزَّلنا عَلَیکَ الکِتٰبَ تِبیَاناً لِّکُلِّ شَیئِ ۔
ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب بھیجی ہے جو ہر چیز کو واضح کرتی ہے۔(۳)
مسلمانوں کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید ہر دور کے لئے ہدایت ہے۔ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تقاضوں کے مطابق قرآن سے ہدایت حاصل کرنا ہرانسان کی اپنی ضرورت ہے۔ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق بنی نو انسان کو راہنمائی کرسکتی ہے۔قرآن کو نہ جدید کہاجاسکتا ہے اور نہ قدیم بلکہ اس کی ہدایت ہمیشہ تازہ رہتی ہے اور رہی گی ۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: یہ ایک ایسا کلام نہیں جو بیکار اورسرسری طور پر بیان کیا گیا ہو۔ یہ مطلب کو یوں بیان کرتا ہے کہ اس کی دلیل کی روشنی آگے بڑھتی رہتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے سب اشخاص کے لئے زندہ اور پائندہ ہے ۔ (۴) جیسا کہ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:
اِنَّ القُرآنَ ظَاہرہ اَنیقُُ وَ بَاطنُہُ عَمیقُُ لَا تَفنِی عَجَائِبَہُ، وَ لَا تَنقَضِی غَرَائِبَہُ، وَ لَا تُکشَفُ الظُّلُمَاتُ اِلَّا بِہِ
یہ قرآن وہ ہے جس کا ظاہر خوبصورت اور باطن عمیق اور گہرا ہے ۔ اس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں اور تاریکیوں کا خاتمہ اس کے علاوہ اور کسی کلام سے نہیں ہوسکتا ہے۔(۵)
حضرت علی علیہ السلام کے ان جملوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قرآن مجید ایک لامتناہی علمی چشمہ ہے جس سے ہر زمانے کے لوگ اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق استفادہ کرتے ہیں۔ وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں ، بدلتے حالات اور اس کے تقاضوں کا حل قرآن مجید ہی سے مل سکتا ہے ۔ اس لئے ہر دور میں وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے قرآنی ہدایات کو تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ہر زمانے کے مسائل کا حل قرآن سے حاصل کرنے کے لئے ہر زمانے میں قرآن میں تدبر کرنا لازمی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پر تدبر کی دعوت دی ہے اور یہ دعوت کسی خاص زمانے اور مکان کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَفَلا یَتَدَبّرونَ القُرآنَ اَم عَلَی قُلوبِِ اَقفالُھَا
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے کیا (ان کے ) دلوں پر تالے پڑے ہیں۔ (۶)
اسی طرح سورہ ص میں ارشاد ہوتا ہے:
کِتابُُ انزلناہُ اِلَیکَ مُبارکُُ لِیَتدبَّرُوا آیَاتِہِ وَ لِیتذَکَّرَ اُوْلُواالالبابِ
یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل نصیحت حاصل کریں۔(۷)
حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:
اَلا لا خیر فی قرآئۃ لا تدبر فیہ
یاد رکھو جس قرائت قرآن میں تدبر نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (۸)
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لئے ایک ابدی ہدایت ہے اور افراد اور امتوں کی ترقی کا راز قرآنی تعلیمات کی پیروی میں مضمر ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
اِ نَّ ھَذَا القرآنَ یَھدِی لِلَّتِی ھِیَ اَقوَمُ
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔ (۹)
الغرض قرآن مجید اپنے اندر جن حکمتوں کو سموئے ہوئے ہے، ان حکمتوں سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے قرآن پر تدبر کرناضروری ہے تاکہ ہر زمانے کا ہر انسان قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرسکے۔ تدبر قرآن سے مراد قرآنی مفاہیم کا اخذ کرنا ہے اور قرآنی الفاظ کے معانی و مطالب کو تفصیلاً سمجھنا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں:
وَتعلّموا القرآن فَاِنّہ احسنَ الحدیث و تفقّھوا فیہ فَاِنّہ رَبیع القلوب وَاسْتشفوا بِنورہ فَاِنّہ شِفاء الصُّدُور، وَاَحسنوا تِلاوتہ فَاِنّہ اَنفع القصص، وَ اِنَّ اَلعَالم العامل بِغَیر علمہ کَالْجَاھلِ الحَائر (الجائر) الذی لا ستفیق من جھلہ، کل الحُجّۃ علیہ اَعظم وَ الحسرۃُ لہ اَلزمُ ، وَ ھُوَ عند اللہِ اَلوَمُ
قرآن مجید کا علم حاصل کرو۔ یہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کا بہار ہے۔ اس کا نور سے شفا حاصل کرو کہ یہ دلوں کے لئے شفا ہے اور اس کی تلاوت کرو کہ یہ مفید ترین قصّوں کا مرکز ہے اور یاد رکھوکہ اپنے علم کے خلاف عمل کرنے والا عالم بھی حیران و سرگرداں جاہل جیسا ہے جسے جہالت سے کبھی افاقہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر حجت خدا زیادہ عظیم تر ہوتی ہے اور اس کے لئے حسرت واندوہ بھی زیادہ لازم ہوتا ہے اور وہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ قابل ملامت ہوتا ہے۔ (۱۰)
پس قرآن کی عظمت اور فضیلت کا تقاضا ہے کہ دنیا وی کامیابی اور اخروی نجات کے لئے قرآنی ہدایات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے قرآن کی تعلیم پر زور دیا ہے۔
خیرکم من تعلم القرآن و علمہ
تم میں سے وہ بہتر ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے۔(۱۱)
تعلیم قرآن سے مراد تلاوت و قرأت کرنا ہی نہیں بلکہ تلاوت و قرات مقصود کے حصول کے ذرائع ہیں ، قرآن کی تلاوت و قرأت کا مطلب صرف الفاظ کا دہرانا نہیں یعنی قرآنی تعلیم کا حصول تقدس کی بنا پر نہیں بلکہ کمال دنیوی اور نجات اخروی کے لئے لازم ہے ۔قرآن ایک ایسی جامع کتاب ہے جو اس کو تلاوت کرتاہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ بات چیت کررہا ہے۔ بات چیت میں طرفین کی طرف سے جس زبان میں بات ہورہی ہے اس زبان کا سمجھنا ضروری ہے۔ پس قاری القرآن سمجھ کر تلاوت کررہا ہے تو تلاوت کا صحیح حق ادا کررہا ہے۔ قرآن مجید نے اس طرف اشارہ کیا ہے:
الّذینَ اٰتینٰھُم الکِتٰب یَتلونَہ حقَّ تِلاوتِہ اُولٰئِکَ یُومنونَ بِہِ
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ لوگ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جو اس کے پڑ ھنے کا حق ہے۔ (۱۲)
پس تلاوت سے مراد قرآن خوانی نہیںبلکہ قرآن فہمی ہے۔ البتہ قرآن خوانی قرآن فہمی کے لئے مقدمہ ہے ۔ قرآن خوانی کے بغیر قرآن فہمی کے مراحل میںداخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد قرآن خوانی نہیں ہے بلکہ اس کی تعلیمات کوسمجھ کر اس پر عمل کرنا اس کا اصل مقصود ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہوتا ہے:
وَ ھَذَا کِتٰبُُ اَنزَلناہُ مُبٰرَکُُ فَاتَّبِعُوہُ
اور یہ کتاب جس کو ہم نے نازل کیا ہے ، برکت والی ہے تو تم اس کی پیروی کرو۔(۱۳)
پس تلاوت قرآن کا حقیقی مفہوم قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے ۔اس لئے تلاوت قرآن پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے تواس سے مراد قرآن کو بہت زیادہ سمجھنے کی کوشش کرنے کے ہیں نہ کہ بہت کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ قرآن خوانی کرنا ۔ رسول خدا ؐ سے روایت ہے:
من قراالقرآن اقل من ثلاث لم یفقھہ
جو شخص تین دن سے پہلے قرآن ختم کرلے وہ اسے نہیں سمجھ سکتا ۔ (۱۴)
آداب تلاوت
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری اور سب سے عظیم کتاب ہے۔ تقدس اور احترام میں یہ ایک لاثانی کتاب ہے اس لئے اس کی تلاوت کرنے کے خاص آداب ہیں اور اس پر تدبر کے بھی کچھ آداب ہیں اسی طرح اس کے ظاہری احترام کے حوالے سے بھی کچھ آداب ہیں۔ باوضو ، باطہارت اور صاف ستھر ا ہوکر قرآن کی تلاوت کی جائے نیز کتاب کے حضور میں باادب اور متواضع ر ہنا چاہئے ۔ ہر مسلمان پر قرآن کا احترام کرنا واجب ہے۔ بعض علماء بغیر وضو کے قرآن مجید کے عربی ٹیکس کو چھونے کو بھی جائز نہیں سمجھتے ۔ حمام یا بیت الخلاء جیسی جگہوں پر قرآن کی تلاوت کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ ہر قاری کو تلاوت کے لئے بہتر سے بہتر جگہ تلاش کرنا چاہئے۔ متبرک مقامات جیسے مسجد وغیرہ نیز مسلمانوں کے گھروں میں قرآن کی تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ جس گھر میں قرآن مجید نہیں پڑھا جاتا اور نہ ذکر الٰہی ہوتا ہے اس کی برکتیں کم ہوجاتی ہیں ،وہاں سے ملائکہ چلے جاتے ہیں اور اس پر شیاطین قبضہ کرلیتے ہیں۔ آداب تلاوت قرآن مجید میں سب سے اہم یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے استعاذہ اور تسمیہ کی تلاوت کی جائے۔ تلاوت شروع کرنے سے پہلے شیطان کے شر سے خدا وند عالم کی پناہ مانگے اور استعاذہ( اَعوذُ باللّٰہ )کی تلاوت کرے کیونکہ خدا قرآن میں فرماتا ہے:
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
استعاذہ کے بعد تسمیہ (بسم اللہ) کی تلاوت کرکے قرآن کی تلاوت شروع کرے۔ (۱۵)
آداب تلاوت قرآن میں ایک ادب ’’ترتیل ‘‘ ہے۔ قرآن میں آتا ہے :
وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا
اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو۔‘‘ (۱۶)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ تلاوت اتنے آرام آرام سے ہونی چاہئے کہ پڑھنے والے کو سوچنے اور غور کرنے کا موقع بھی ملتا رہے۔
قرآن مجید کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ قاری، تلاوت قرآن کے وقت حزن و ملال کا انداز اپنائے کیونکہ یہ قرآن کے معانی کو سمجھنے کا اثر ہے اور اس لئے بھی کہ یاد خدا سے دل میں خشوع پیدا ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا ہے:
اقرو القرآن بالحزن فانہ نزل بالحزن
قرآن کو سوز کے ساتھ پڑھو کیونکہ قرآن مجید سوز کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ (۱۷)
قرآن مجید میں بھی ارشاد ہوا ہے:
اَلَم یَانِ لِلَّذینَ آمَنُوا ان تَخْشَعَ قُلُوبُھم لِذِکرِ اللہ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الحَقِّ
کیا صاحبان ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہوجائیں۔ (۱۸)
اسی طرح سورہ انفال کی ابتدائی آیات میں مومن کی نشانیوں میںسے ایک نشانی ذکر قرآن سے خشیت الٰہی کا پیدا ہونا بتا یا گیا ہے:’’اور جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل (خوف خدا سے) ہل جاتے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: قرآن کریم اور 19 کا عدد https://albasirah.com/urdu/quran-19-adad/

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری اور سب سے مقدس کتاب ہے جو بنی نوع انسان کے لئے تا قیامت مکمل ضابطہ حیات ہے۔ انسان کو دین و دنیا میں کامیابی اور کامرانی کے لئے قرآن کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ قرآن رسول اکرم ؐ کا زندۂ جاوید معجزہ ہے جیسے جیسے ذہین انسان کی ارتقا ہوگی ویسے ویسے قرآن کے اسرار و رموز بھی انسان کے لئے واضح ہوتے جائیں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پر تدبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کی عظمت اور فضیلت کا مقر انسان پر لازم ہے کہ قرآن کی عظیم حکمتوں اور ہدایتوں کو اپنے دین اور دنیا کی زندگی لئے مشعل راہ بنائیں اور اسلام سے وابستگی کا عملی مظاہرہ قرآن سے رشتہ کو مربوط کرنے پر مشروط ہے ۔ رسول اکرمؐ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں فرمایا تھا:
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی۔۔۔الخ
میں تم لوگوںکے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میرے اہل بیت ، جب تک تم ان دونوںسے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہیںہونگے۔(۱۹)
دور حاضر میں مسلمانوں کو جس ہزیمت کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اہلبیت اور قرآن کو تقدس کی حدود میں مقید کر رکھا ہے ۔مسلمانوں کے زندگی کے اکثر شعبے سیرت اہل بیت اور تعلیمات قرآن سے خالی ہیں ۔مسلمانوں کو اپنی خستہ حالی سے چھٹکارا پانے کے لئے قرآنی تعلیمات کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا ہوگا قرآن ہی وہ کتاب ہے جس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان ایک قوم کی طرح دنیا میں زندگی گزار سکتے ہیں ، قرآن ہی سے مسلمانوں کو صحیح راستے کی طرف ہدایت مل سکتی ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہوتا ہے:
قَالُوْا یٰقَوْمَنَآ اِِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْٓ اِِلَی الْحَقِّ وَاِِلٰی طَرِیْقٍ مُسْتَقِیْم
انھوں نے کہا اے ہماری قوم ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی اور تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو تمھارے پاس ہے اور جو حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے اورجو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرنے والی ہے ۔(۲۰)
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید لوگوں کی رہنمائی سچائی کی طرف کرتی ہے اور انھیں ایک ایسا راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا اور ہر قسم کے تضاد اور تناقض سے پاک ہے ۔

حوالہ جات
۱) بقرہ :۲۔ ۲۰۸
۲) نحل: ۱۶۔۸۹
۴) طارق :۸۶۔ ۱۳
۵) نہج البلاغہ ، سید رضی، مترجم و شارح ذیشان حیدر جوادی، خطبہ نمبر ۱۸، ص ۵۹، رحمت اللہ بُک ایجنسی، کھارادر، کراچی،۱۹۹۸ء
۶) محمد :۴۷۔۲۴
۷) ص :۳۸۔ ۲۹
۸) بحار الانوار :ج۸۹، باب ۲۶، ص ۲۱۰
۹) بنی اسرائیل :۱۷۔ ۹
۱۰ ) نہج البلاغہ ، سید رضی، مترجم و شارح ذیشان حیدر جوادی، خطبہ نمبر ۱۸، ص ۲۱۸،۲۱۹، رحمت اللہ بُک ایجنسی، کھارادر، کراچی، ۱۹۹۸ء
۱۱ ) بقرہ :۲۔۱۲۱
۱۳ ) انعام :۶۔۱۵۶
۱۴ ) سنن ابن ماجہ، حدیث ۱۳۴۷
۱۵ ) نحل:۱۶۔ ۹۸
۱۶ ) مزمل :۷۳۔ ۴
۱۷) کنز العمال، علاء الدین علی المتقی الہندی، ج۱،فصل ثالث ، ص ۶۰۲،حدیث ۲۷۷۷،موسسہ الرسالہ، بیروت،۱۴۰۹ھ
۱۸ ) حدید:۵۷ ۔ ۱۶
۱۹ ) صحیح ترمذی، جلد ۵ ص ۳۲۸، حدیث ۳۸۷۴، مطبوعہ دارالفکر بیروت
۲۰) احقاف:۴۶۔ ۳۰

Share this content: