×

نسائیات چند متفرق تحریریں

مفتی امجد عباس

نسائیات چند متفرق تحریریں

ہم اپنے اِس مضمون کا آغاز، برصغیر کے مشہور مفسر، مولانا امین احسن اصلاحی کے پیرا گراف سے کرتے ہیں، آپ لکھتے ہیں” آدمی جب تک بیوی سے محروم رہتا ہے وہ کچھ خانہ بدوش سا بنا رہتا ہے۔

 اور اس کی بہت سی صلاحیتیں سکڑی اور دبی ہوئی رہتی ہیں۔ اسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہتی ہے اس کی حیثیت بھی اس بیل کی ہوتی ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھولنے پھلنے سے محروم ہو۔ لیکن جب عورت کو شوہر مل جاتا ہے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہو جا تی ہے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور زندگی کے میدان میں جب وہ دونوں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی جدو جہد میں برکت دیتا ہے اور ان کے حالات بالکل بدل جاتے ہیں”۔
(تفسیر تدبرِ قرآن، جلد 5، صفحہ 400)

خُفیہ جنسی تعلقات قرآنی اخلاقیات کی روشنی میں:

قرآن مجید میں مختلف فقہی، سماجی، عقائدی اور اخلاقی احکام کے کلیات بیان کیے گئے ہیں۔ کئی ایک احکام کو ضمنی طور پر بھی لایا گیا ہے۔
جنسی اخلاقیات کو بھی دیگر اخلاقی مسائل کی طرح ذکر کیا گیا ہے، ضمنی طور پر دو آیات میں اِس طرف اشارہ ہے کہ چوری چُھپے جنسی تعلقات قائم کرنا نادرست ہے، بلکہ جنسی تعلقات سماج میں رائج طریقے کے مطابق ہوں اور خُفیہ نہ ہوں، لڑکی رضامند ہو اور اُس کا ولی بھی آگاہ اور رضامند (اگر زندہ) ہو۔
سورہ نساء کی آیت ۲۵ ملاحظہ ہو:

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔

اور تم میں سے جو شخص مالی حیثیت سے اس کی قدرت نہ رکھتا ہو کہ وہ (خاندانی) مسلمان آزاد عورتوں سے نکاح کر سکے۔ تو وہ ان مسلمان لونڈیوں سے (نکاح کرلے) جو تمہاری ملکیت میں ہوں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم (اسلام کی حیثیت سے) سب ایک دوسرے سے ہو۔ پس ان (لونڈیوں) کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو۔ اور بھلائی کے ساتھ ان کے حق مہر ادا کرو۔ تاکہ وہ (قید نکاح میں آکر) پاکدامن رہیں۔ اور شہوت رانی نہ کرتی پھریں۔ اور نہ ہی چوری چھپے آشنا بناتی پھریں۔ سو جب وہ قید نکاح میں محفوظ ہو جائیں تو اگر اب بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کے لئے آزاد عورتوں کی نصف سزا ہوگی۔ یہ رعایت (کہ خاندانی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت نہ ہو تو کنیز سے نکاح کرنے کا جواز) اس شخص کے لئے ہے جسے (نکاح نہ کرنے سے) بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اگر ضبط سے کام لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
سورہ مائدہ کی آیت ۵ ملاحظہ ہو:

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔

آج تمہارے لئے سب پاک و پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اور اہل کتاب کا طعام (اناج) تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا طعام (اناج) ان کے لئے حلال ہے اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں (اہل کتاب) کی پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے۔ (وہ تمہارے لئے حلال ہیں) بشرطیکہ تم ان کے حق مہر دے دو۔ اور وہ بھی اپنی پاکدامنی کے تحفظ کی خاطر نہ کہ آزاد شہوت رانی کی خاطر اور نہ ہی چوری چھپے ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لیے۔ اور جو ایمان کا انکار کرے (اور کفر اختیار کرے) تو اس کے سب عمل اکارت ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔
اِن دونوں آیات میں اِس نکتے کو ضمنی طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جنسی تعلقات خُفیہ طور پر قائم نہ کیے جائیں۔ پہلی آیت میں مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ استعمال کیا ہے کہ عورتیں ایسی نہ ہوں جو چوری چُھپے یاری لگاتی ہوں۔ جبکہ دوسری آیت میں مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ استعمال کیا گیا ہے کہ مرد ایسے نہ ہوں جو چُپکے دوستی لگائیں۔
مذکورہ بالا قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں سے مخفی جنسی تعلقات استوار کر لینا جیسے اُن کے اولیاء، گھر والوں اور سماج سے چوری چھپےدائمی نکاح کر لینا یا اِسی طرح چُپکے سے نکاحِ متعہ کرنا درست نھیں۔ عورتوں کو بیوی بنانا چاہیے نہ کہ مخفی دوست۔ شادی معاشرے میں رائج اُصولوں یا قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔

نکاحِ مؤقت (متعہ) اباحت، حُرمت، دلائل اور اعتراضات کا اجمالی جائزہ:

کچھ دوستوں کا اصرار تھا کہ میں نکاحِ مؤقت کا اجمالی جائزہ لوں۔ مجھے لمبے چوڑے دلائل نہیں پیش کرنے، میں چند بنیادی باتوں پر اکتفاء کروں گا اور اختصار سے اعتراضات کا جائزہ بھی پیش کیے دیتا ہوں۔

نکاحِ مؤقت (متعہ) کی عہدِ رسالت میں حلیت پر سبھی مُسلمانوں کا اتفاق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس کی اجازت دی۔ اہلِ سنت کے ہاں سات بار تک اس کی اجازت و ممانعت کی روایات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فُلاں موقع پر اجازت دی بعد میں روک دیا، پھر فُلاں موقع پر اجازت دی، فُلاں موقع پر منع کر دیا۔ ہمارے بعض اہلِ سنت دوستوں کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رفتہ رفتہ، جاہلیت کے کاموں سے روکا جیسے شراب، پہلے آرام سے کہا نہ پیو، پھر حرام قرار دی، اِسی طرح نکاحِ مؤقت کا حال ہے کہ آخر میں روک دیا۔ جوابی طور پر عرض ہے کہ کیا ایک بار بھی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شراب پینے کی اجازت دی؟ قرآن کہتا ہے کہ میرا نبی خباثتوں سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزروں کو حلال کرتا ہے، اگر نکاحِ مؤقت (متعہ) اتنا ہی غلط تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار ہی سہی، کرنے کی اجازت کیوں دی؟ جبکہ کتبِ احادیث، سیرت و تواریخ سے دیکھیے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار بھی کسی حرام، غلط اور بدکاری کی کسی صورت اجازت نہیں دی۔

اہلِ سنت کے مختلف مسالک اور شیعہ کتبِ احادیث میں (بشمول صحاح ستہ و کتبِ اربعہ) نکاحِ متعہ کا ذکر موجود ہے، ساتھ میں کئی صحابہ کرام کی گواہیاں موجود ہیں کہ حضرت عمر کے دور کے شروع تک، متعدد صحابہ کرام نے نکاحِ مؤقت کیا، وہ اِس کی حلیت کے قائل تھے، پھر حضرت عمر نے اِس سے روک دیا۔ صرف صحیحین کو ہی دیکھ لیا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ نکاحِ مؤقت سے روکنا حضرت عمر کا وقتی، انتظامی نوعیت کا فیصلہ قرار پا سکتا ہے۔
اُمت میں صحابہ کرام کے دور سے اِس نکاح میں اختلاف چلا آرہا ہے، چوتھی صدی ہجری کے مشہور عالم امام ابن منذر (متوفیٰ 318ھ) نے اپنی کتاب “الاجماع” میں ایسے سبھی مسائل کو جمع کیا، جن پر سبھی مسلمانوں کا اتفاق ہے، لکھتے ہیں کہ نکاحِ متعہ کی حُرمت پر اتفاق نہیں ہے۔ یہ شافعی عالم، امام احمد بن حنبل کی وفات کے لگ بھگ پیدا ہوئے، یہ امام بخاری، امام ترمذی، امام ابوحاتم رازی کے شاگرد جبکہ ابوبکر خلال اور ابن حبان کے اُستاد ہیں، اِن کی کتاب “الاجماع” انتہائی مفید اور قدیم کتابوں میں سے ہے۔
نکاحِ مؤقت پر کیے جانے والے اشکال، نکاحِ دائمی پر بھی وارد ہوتے ہیں۔
اِن دونوں میں بنیادی فرق صرف مُدت کا ہے، باقی شرائط ملتی جلتی ہیں، نکاح متعہ کی بھی عدت ہے۔ (ذہن میں رہے اگر مرد کسی عورت سے دائمی نکاح کر لے، بعد میں کسی بھی وقت طلاق دینا جائز ہے، بلکہ طلاق کی نیت سے ہی نکاح کرلے تب بھی جائز ہے) البتہ بعض نکاحِ مؤقت میں بعض دیگر حقوق سے عورت محروم ہوجاتی ہے جیسے نکاحِ مسیار میں ہے۔
نکاح کا مقصد جنسی خواہش کا پورا کرنا اور افزائشِ نسل ہے، تاہم عزل کرنا (جماع کرنا لیکن افزائشِ نسل نہ ہونے دینا) بھی جائز ہے۔ اگر نکاح کا ہدف صرف افزائشِ نسل ہوتا تو کبھی بھی مانعِ حمل کوئی طریقہ، جائز نہ ہوتا۔
احباب کا خیال ہے کہ نکاحِ مؤقت میں عورت کو جنسی خواہش کی تسکین کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے، عرض ہے یہی دائمی نکاح میں بھی ہوسکتا ہے۔ آپ نکاح کیجیے، شبِ عروسی کے بعد، طلاق دیجیے، یہ جائز ہے (ہاں ہے شدید ناپسندیدہ عمل) پھر کسی اور سے نکاح کیجیے، شبِ عروسی کے بعد طلاق دیجیے، یہاں بھی عورت استعمال کے بعد فارغ۔ اب کیا نکاح کے بعد طلاق ہی ناجائز قرار دی جائے؟
اصل بات اتنی ہے کہ معاشرے نے دائمی نکاح کو سماجی تحفظ بخشا ہے، لڑکا اور لڑکی دونوں کے خاندان لاکھوں روپے لگا کر نکاح و شادی کرتے ہیں، ایسے میں جلدی طلاق دینا دونوں کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اگر صرف شرعی طریقے پر، سادہ انداز میں شادی کی جائے تو طلاق کی نسبت بہت بڑھ جائے۔ مؤقت نکاح کو بھی سماجی تحفظ اور قبولیت ملتی تو اُس کے ضوابط بھی سماج طے کر کے اُسے بھی تحفظ دیتا۔
مزید سُنیے، اسلام میں بے شمار لونڈیوں کی اجازت ہے، وہ بھی عورتیں ہوتی ہیں، انسان ہیں۔ اُن سے جنسی تعلق کے لیے نکاح کی حاجت بھی نہیں ہوتی۔ (یہ الگ کہ اب لونڈیاں ختم ہیں، اگر ہوتیں تو یہ احکام بھی لاگو ہوتے)۔ ایک بیوی سے جنسی تسکین بھی ہے، اولاد بھی ہے، اِس کے باوجود مرد بیک وقت چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔ ابھی تک کسی فقہ کے مفتی نے اِس عمل کو ناجائز قرار نہیں دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد شادیوں کے کئی سیاسی، مذہبی اور اخلاقی پہلو تھے، یہ بات بھی واضح ہے کہ شادی کا مقصد صرف شہوت رانی نہیں ہوتا۔ مؤقت نکاح سے بھی بیوگان کو تحفظ، اُن کی اولاد کو سہارا دینا جیسے مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں۔ حافظ ابن قیم جوزیہ نے “اغاثۃ اللھفان” کی جلد اول میں لکھا ہے کہ حافظ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نکاحِ مؤقت، (رائج) حلالہ سے بارہ وجوہات کی بنا پر بہتر ہے، جن میں سے ایک وجہ نکاحِ مؤقت کا پہلے حلال ہونا ہے، جبکہ رائج حلالہ حلال نہ تھا، نیز کئی صحابہ آخری وقت تک متعہ کے جواز کے قائل رہے جیسے حضرت ابن عباس و حضرت عبد اللہ بن مسعود۔
چند مزید نکات کی طرف اشارہ کردوں کہ فقہ حنفی میں بالغ لڑکا اور لڑکی، اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر صرف دو گواہوں کی موجودگی میں کسی بھی زبان میں نکاح کر سکتے ہیں۔ آپ ذرا ذہن میں کورٹ میرج کا تصور لائیے، فقہِ جعفری میں نکاح خواہ مؤقت ہو یا دائمی، لڑکی کے اولیاء کی اجازت سے مشروط ہے،کورٹ میرج کو مناسب نہیں جانا جاتا، نکاح بھی عربی میں پڑھنا لازم ہے۔آج کے معاشرے میں جہاں بے حیائی اور مخلوط تعلیم عام ہے، فقہ حنفی کی رُو سے بالغ لڑکی اور لڑکا آسانی سے اپنے دو ساتھیوں کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کر کے جنسی تسکین کے حصول کے بعد جدا ہوسکتے ہیں، جبکہ دیگر فقہوں میںلڑکی کے اولیاء کی رضایت لازم ہے۔ نکاحِ عُرفی، حلالہ اور نکاحِ مسیار کے جواز پر اہلِ سنت کے کئی علماء متفق ہیں۔ اِن میں اور نکاحِ مؤقت میں ضرور مقایسہ کریں تو جوہری فرق نہ ملے گا۔
ملحوظ رہے کہ عقدِ مؤقت، فقہ جعفری میں صرف جائز ہے، لازم ہرگز نہیں، جیسے طلاق جائز ہے لیکن لازم نہیں، پسندیدہ بھی نہیں۔ اسلام میں ایک ہی وقت چار شادیاں بھی جائز ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کے نزدیک مناسب ایک ہے۔ میں عقدِ مؤقت کو انتہائی اضطراری حالات میں ہی مناسب جانتا ہوں۔ خدا توفیق دے تو دائمی شادی ہی کرنی چاہیے، وہ بھی ایک۔ مؤقت نکاح میں اولیاء کا راضی ہونا لازم ہے،مخصوص حالات میں، مجبوری کی صورت میں اِس کی نوبت آہی جائے تو اِسے کُھل کر کرنا چاہیے، چوری چھُپے یاریاں درست نہیں۔ نکاح کی حکومتی سطح پر یا رائج طریقے پر رجسٹریشن بھی کروانی چاہیے۔ جنسی تعلقات دائمی ہوں یا وقتی، انھیں جدید قانون سازی کے ذریعے منظم کیا جانا چاہیے۔

نکاحِ مؤقت (متعہ) پر اصحابِ علم کے مباحث:

نکاحِ مؤقت پر ابحاث زور و شور سے جاری تھیں، میں نے بھی جوابی طور پر اپنی معروضات پیش کیں، تاہم اِس مسئلے کی متعدد جہات ہیں، جنھیں سمجھے بنا گتھی نہیں سُلجھائی جا سکتی، اِس بات کی طرف جناب ثاقب اکبر صاحب نے متوجہ کیا، ابھی ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب نے نکاحِ مؤقت (متعہ) کے حوالے سے دو سوالات کیے، جن پر جوابی حاشیہ آرائی حضرت مفتی محمد فاروق علوی صاحب نے فرمائی، اُسے نقل کرنے پر ہی اکتفاء کروں گا۔
ڈاکٹر محترم محمد طفیل ہاشمی صاحب نے فرمایا کہ
اول: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاحِ متعہ کرنے کی اجازت ثابت نہیں، اگر یہ جائز ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتاتے۔
دوم: سورہ المؤمنون مکی ہے، اُس میں ارشاد ہے « إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿6﴾ » (بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں) سے پتہ چلتا ہے کہ عقدِ مؤقت (متعہ) جائز نہیں۔ مکہ میں بھی یہ منع تھا کیونکہ ممتوعہ دونوں میں شامل نہیں۔

حضرت مفتی محمد فاروق علوی کا جوابی حاشیہ:

قبلہ ہاشمی صاحب نے جو بات کی ہے بحث کو اس طرف لے جانا چاہیے، فضول گفتگو اور طعنہ زنی سنجیدہ لوگوں اور اہل علم کا کام نہیں، الزامی جوابات کے بجائے تحقیقی اور علمی جواب تحریر کیے جائیں تو اس سے فائدہ ہوگا ۔
قبلہ ہاشمی صاحب کے دونوں سوالات بڑے اہم ہیں۔
جہاں تک پہلے کی بات ہے تو کتب احادیث میں اس کی باربار اجازت دینا اور باربار منع کرنا ازخود دلیل ہے کہ رسول مکرم نے کہا کہ متعہ کرلو فتح مکہ اور حنین کے موقع پر بھی اجازت دی گئی، لیکن مدینہ کے اندر اس کی اجازت دی گئی ہو ایسا میرے علم میں نہیں۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ آنحضرت نے عند الضرورت لوگوں کو اجازت دی ۔
جہاں تک سورہ المؤمنون کا تعلق ہے تو اس میں اولاً تو بطور نص ایسی کوئی بات موجود نہیں ۔
ثانیاً اس آیت سے بطور استنباط یہ حکم ثابت کیا جاتا ہے۔
ثالثاً جیسا آپ نے فرمایا کہ یہ سورہ مکی ہے ، اگر اس آیت سے متعہ کی حُرمت مُراد ہوتی تو پیغمبر اکرم مدنی دور میں اس کی اجازت کبھی نہ دیتے کیونکہ جس چیز کو قران نے حرام کردیا ہو اسے پیغمبر کیسے حلال کر سکتا ہے، اس پر از خود یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر واقعی سورہ مومنون کی یہ آیت حُرمت متعہ کے لیے ہے اور یہ چیز ہم نے سمجھ لی ہے تو پیغمبر نے اس آیت سے یہ بات کیوں نہیں سمجھی ۔
میرے خیال میں مولانا مودودی نے جو بات کی ہے وہی درست ہے کہ قرآن کی کسی بھی آیت میں متعہ کو حرام نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حُرمت احادیث رسول کی بنا پر ثابت کی جاتی ہے۔
لیکن یہاں ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر سنت میں متعہ کی حُرمت واضح طور پر موجود ہوتی تو حضرت جابر وغیرہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر کے دور تک متعہ کرتے رہے تو یہ صحابہ سنت کی اس طرح کھلی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے ؟ نیز حضرت عمر کا متعہ سے منع کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دور تک متعہ ہورہا تھا تبھی انہیں منع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
اگر ایسا تھا تو سورہ مومنون تو ان حضرات نے بھی پڑھی تھی اور اس کے مفہوم کو بھی وہ ہم سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے ۔
آخری بات یہ کہ حضرت ابن عباس کا متعہ کے جواز کا قائل ہونا معروف ہے، بعض ان کا رجوع بھی ذکر کرتے ہیں لیکن ابن عباس سے جواز کی روایات کے مقابلہ میں وہ انتہائی کمزور ہیں جو قابل استدلال نہیں ، حضرت عمر نے جب منع کیا تو وہ امیر المومنین کے حکم کے سامنے خاموش ہوگئے ، انہیں فتوی دینے سے منع کردیا گیا، ان کی اس خاموشی کو رجوع نہیں کہا جا سکتا۔
ابن عباس حبرالامہ ہیں اور صحابہ میں چوٹی کے مفسرین میں سے ہیں ان کا آخری قول جو ہماری نظر سے گذرا ہے وہ یہ ہے کہ متعہ لحم خنزیر کی طرح ہے جس کا جواز حالت اضطرار میں ہوتا ہے ۔
اب اگر یہی بات مان لی جائے تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مجبوری میں یہ جائز ہوگا اور جہاں مجبوری نہ ہوتو وہاں عدم جواز کی راہ اختیار کی جائے گی ۔

بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا:

شیخ حیدر حُب اللہ، لبنانی مذہبی سکالر ہیں جو آج کل ایران میں درس و تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہیں۔ اِن کا سبھی اسلامی فقہوں کا گہرا مطالعہ ہے۔ شیخ سے ایک خاتون نے سوال کیا ہے کہ میں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکل سکتی ہوں؟ جس کے جواب میں شیخ فقہی حوالے سے لکھتے ہیں کہ اسلامی فقہوں میں یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ بعض فقہاء نے کسی بھی صورت میں گھر سے باہر نکلنے کو جائز نہیں جانا، جب تک شوہر اجازت نہ دے۔ بعض فقہاء باہر جانے کو تب اجازت سے مشروط جانتے ہیں جب باہر جانے سے شوہر کے حقِ زوجیت کی تلفی ہوتی ہو۔
اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ” توصّلت إلى أنّ الرجل والمرأة لهما حكم واحد، وهو عدم جواز الخروج من البيت لو نافى الخروج حقّ الطرف الآخر لا مطلقاً، سواء اعتبرنا الخروج محرّماً في نفسه أو اعتبرناه متضمّناً أو مستلزماً للحرام الذي هو عدم تسليم الحقّ للطرف الآخر.” کہ میں اِس (نتیجہ) پر پہنچا ہوں کہ گھر سے (بلا اجازت) نکلنے کے مسئلے میں شوہر و بیوی دونوں کا ایک ہی حکم ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک کے گھر سے جانے سے دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہوتو گھر سے بلا اجازت باہر جانا، شوہر اور بیوی ہر دو کے لیے جائز نہیں۔ پس اجازت لیکر باہر جانے کا تعلق حق تلفی سے ہے (اگر حق تلفی نہ ہوتی ہو تو اجازت شرط نہیں ہے۔) اب خروج (بلا اجازت) کو آپ جس طرح بھی حرام مان لیں، اصل بات یہی ہے کہ دوسرے فریق کے حق کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ شیخ حیدر حُب اللہ کی نظر میں شوہر کا بھی گھر سے بیوی کی اجازت کے بغیر جانا درست نہیں ہے، اگر بیوی کی حق تلفی ہوتی؛ ایسے میں شوہر کو بیوی کی اجازت سے باہر جانا چاہیے۔

خواجہ سرا اور عورتیں بھی انسان ہیں:

قرآن مجید میں کسی بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل گردانا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔(سورہ المائدہ، آیت 32)
جس نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک جان کو بچا لیا، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا ۔
اِسی طرح اِس آیت کو ملاحظہ کیجیے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ۔(سورہ الحجرات، آیت 13)
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
اِسی طرح سورہ النساء کی آیت 93 میں ارشاد ہے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا۔
رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
اِن آیات میں بیان کردہ حقوق و احکام، خواجہ سراؤں اور عورتوں کو بھی شامل ہیں کہ یہ بھی برابر کے انسان ہیں۔
خواجہ سرا بھی اولادِ حضرت آدم و حوا علیھما السلام ہیں، سورہ النساء کی پہلی ہی آیت يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ۔ (وگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا) انسانی برابری کو بتاتی ہے۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آنے والا جملہ ’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ‘‘ اے لوگو! اپنی وسعت کے لحاظ سے مردوں، عورتوں اور خواجہ سراؤں کو بھی شامل ہے۔

 حقوقِ نسواں اور ہمارا معاشرہ:

ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو اُنہیں ملنا چاہیے تھا۔ انسان ہونے کے ناتے اُنہیں برابر کے حقوق میسر ہیں۔ عملی حوالے سے ذمہ داریوں کے مختلف ہونے اور بعض انتظامی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے کچھ حقوق و فرائض میں اختلاف ہے لیکن اُس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو انسانیت میں برابری سے محروم رکھا جائے۔ میراث اورگواہی کی بعض صورتوں میں عورت کو نصف شمار کیا جانا عورتوں کی سماجی حیثیت اور دیگر امور کو مدنظر رکھ کر کیے گئے وقتی انتظامی نوعیت کے فیصلے قرار پا سکتے ہیں، جنہیں دائمی جاننا مشکل ہے، ان مسائل پر بعض نئی بحثیں جاری ہیں۔ عورتوں کا مکمل احترام، اُن کی رائے کا احترام، اُنہیں میراث میں حصہ دینا، اُنہیں جنگ کے دوران بھی تحفظ دینا جیسی اسلامی تعلیمات دائمی ہیں۔ مسلمان فقہاء کی اکثریت مردوں پر مشتمل رہی ہے چنانچہ اُنھوں نے عورتوں کے حقوق و فرائض کے متعلق محدود معاملات کی حد تک ہی بات کی ہے۔ یہ درست ہے کہ مرد اگر گھر کا سرپرست ہوتو بطور سربراہ اُسے بہت سے انتظامی اختیارات حاصل ہوں گے، لیکن اگر عورت گھر کی سربراہ ہوتو اُسے بھی بطور انتظامی سربراہ یہ حقوق میسر ہوں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سکول اور کالج میں پرنسپل صاحبان کو انتظامی امور میں بہت سے اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اِن میں عورت اور مرد کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان فقہاء کی عائلی فقہ میں مردانہ غلبے کے آثار غالب ہیں، جیسے بیوی کے شوہر کے مکمل تابع ہونے جیسے انتظامی نوعیت کے معاملے کو خالص مذہبی فریضہ قرار دینا وغیرہ۔ ہمارے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر عورتیں بھی فقہ کی تدوین کرتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔ بطور انسان اور مسلمان، ہمیں عورتوں کے حقوق و فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہیے، اب عورت ماں ہو یا بہن، بیٹی ہو یا بیوی یا ہماری طرح معاشرے کا ایک فرد، انسان ہونے کے ناتے وہ مردوں کے برابر ہے۔ معاشرتی سطح پر طے ذمہ داریوں کے مختلف ہونے کی بنا پر بعض حقوق و فرائض میں اختلاف ہے جو انتظامی نوعیت کا معاملہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کم تر سمجھنے جیسے امتیازی رویوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قرآن اور انسانی مساوات:

قرآن مجید کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان ہونے کے ناتے سے عورت اور مرد برابر ہیں، اِن کی تخلیق ایک ہی مادے سے ہوئی ہے، عورت برابر کی انسان ہے۔ سورہ نساء کی پہلی ہی آیت کچھ یُوں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔
قرآن مجید نے اعمالِ صالح کے لحاظ سے بھی مرد و وعورت کو ہم پلہ قرار دیا ہے؛ سورہ آلِ عمران کی آیت 195 میں ہے
أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ۔
میں (اللہ) تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواه وه مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔
البتہ سورہ النساء کی آیت 34 میں بتایا گیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف جہات سے، ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے؛ عام طور پر مرد، گھریلو اخراجات پورے کرتا ہے، اِس لیے وہ گھر کا منتظم ہے اور بدنی لحاظ سے مضبوطی کی وجہ سے عورتوں کا محافظ بھی، یہ انتظامی فوقیت ہے، چنانچہ فرمایا:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا۔
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (تادیباً ہلکا سا) مار سکتے ہو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے۔
اِس آیت میں بتائیے گئے تادیبی مراحل بھی اِس بات کو بتاتے ہیں کہ مرد گھر کا منتظم ہے، ایسی صورت میں اُسے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے، وہ ظلم نھیں کر سکتا۔ یہاں اُسے ترجیح محض ایڈمینسٹریٹر ہونے کے لحاظ سے ہے۔
ایسے ہی سورہ بقرہ کی آیت 228 میں ارشاد ہے کہ عورتیں اور مرد، ایک جیسے حقوق رکھتے ہیں، ہاں یک گونہ فضیلت مرد کو حاصل ہے، وہ اُس کا عملی طور پر گھر یا خاندان کا سربراہ ہونا ہے، دیکھیے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ
اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ حاصل ہے۔
بعض صورتوں میں عورتوں کی گواہی کا نصف ہونا، میراث میں کم حصہ ہونا اور ایسے ہی دیگر امور، اُن کی سماجی حیثیت، خدمات کو دیکھ کر طے کیے گئے ہیں جن پر کلام ہو سکتا ہے، اس پر شاہد احادیث ہیں جن میں ایسے احکام کی علتیں مذکور ہیں۔

ہمارا اسلام :

ہمارا اسلام ہماری اپنی پسند ناپسند پر مبنی ہے، ہم اپنے مفادات کے تحفظ کی حد تک مسلمان ہیں ۔ ہم نماز روزے اور بحث و مباحثے میں مُسلمان ہیں لیکن حقوق کی ادائیگی اور حُسنِ معاشرت کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر عمل کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ علماء کرام نے جتنا زور بدعات کے خاتمے، مناظروں اور نماز کی ترویج پر دیا، اِس سے کہیں کم حقوق العباد کی ادائیگی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے پر دیا جاتا تو آج معاشرہ بہتر ہوتا۔
ماہ رمضان میں فطرہ کی ادائیگی نہ کرنے والوں، قربانی کی کھالیں نہ دینے والوں کے خلاف گھنٹوں تقریریں کی جا سکتی ہیں لیکن بیٹیوں کو میراث نہ دینے والوں کے خلاف علماء کرام عام طور پر نہیں بولتے۔ افسوس کہ ہم لوگوں کو نہیں بتا سکتے کہ قبائلی علاقوں میں پردے کے نام پر عورتوں کو گھروں میں بند کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ عورتوں پر تشدد، اُنھیں باہر آنے جانے اور کالج، یونیورسٹی میں پڑھنے سے روکنا، موبائل فون اور انٹر نیٹ سے محروم رکھنا درست نہیں ۔ ہمارے ہاں غیرت کے نام پر ہونے والا عورت کا قتل، ظلم ہے، ظلم۔ ایک بے گناہ عورت کا قتل بھی انسانیت کا قتل ہے۔ اگر وہ خطاکار ہے تو قاضی کے علاوہ اُسے از خود سزا نہیں دی جاسکتی۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مشرقی معاشروں میں ابھی تک عورت کو عملی طور انسان نہیں جانا جاتا۔ ہمارے ہاں عورت کی باگ ڈور مرد کے ہاتھوں ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حقوق العباد کی ادائیگی اور حسنِ معاشرت کے بغیر ہم مکمل مسلمان نہیں ہیں۔

عورت اور ہمارا سماجی رویہ:

عورتوں کے حوالے سے سماجی رویوں کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے، اِس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
برصغیر میں علماء نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے قابلِ ذکر کردار ادا نھیں کیا؛ ہاںمذہبی اجتماعات میں حضرت سیدہ فاطمہ و سیدہ زینب سلام اللہ علیھما و ازواجِ نبی رضی اللہ عنھن کا تذکرہ کیا جاتا ہے لیکن اُن کی سیرت بیان نھیں کی جاتی۔
انقلابِ اسلامی، ایران کے آنے کے بعد، ایران میں خواتین کو بہت سے حقوق ملے، آج وہاں کی عورت بہت حد تک خود مختار ہے، لبنان میں بھی اِس حوالے سے صورت حال اچھی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار، اسلام آباد میں، ایک بین المذاہب ہم آہنگی کے پروگرام میں ایک ہندو پنڈت نے کہا کہ ہندو مت سب سے زیادہ روا دار مذہب ہے۔ اِس میں کسی کے لیے نفرت نھیں پائی جاتی۔
ہمارے ایک دوست نے پروگرام کے اختتام پر پنڈت صاحب سے دریافت کر ہی لیا کہ ہمارے بزرگان کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے کے ہندو بہت متعصب ذہنیت کے تھے؛ کوئی مسلمان اُن کے برتن چھو لیتا تو وہ اُس برتن کو نجس جان کر پھینک دیتے۔
پنڈت صاحب مسکرائے اور پوچھا کہ تُم سُنی ہو یا شیعہ؟ اُس نے کہا شیعہ۔
پنڈت صاحب کہنے لگے کہ اہلِ تشیع میں سید و غیر سید کی شادی جائز ہے ناں، اُس نے تائید میں سر ہلایا۔
پنڈت صاحب بولے لیکن ایسی شادیاں آپ کے ہاں ہوتی نھیں ہیں۔ سید حضرات، غیر سید خواتین سے شادی کر لیتے ہیں لیکن اپنی بیٹیاں غیر سید مرد سے نھیں بیاہتے۔ شیعہ مسلک میں ایسی شادی جائز ہے لیکن عوامی سطح پر ایسا ہوتا نھیں؛ یہ ایک غلط سماجی رویہ بن چکا ہے۔ یہی حال ہندو مت میں ہے کہ پنڈت/ برہمن اپنے سوا دوسروں کو گھٹیا سمجھتے ہیں جیسے آپ کے ہاں سید حضرات۔۔۔ہم اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔
سیدہ سے غیر سید مرد کی شادی شرعی لحاظ سے جائز اور درست ہے، ہاں لازم ہرگز نھیں۔ علماء نے اِس بابت ابھی تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے، سننے میں آیا ہے کہ کسی عالم نے تو یہاں تک کہا کہ برصغیر میں ایسی شادی جائز نھیں، وجہ یہ بتائی کہ عوام قبول نھیں کرتے۔
شادی لڑکی، لڑکے اور دونوں کے اولیاء کی رضامندی سے ہونا چاہیے، جہاں یہ سب فریق راضی ہوں، وہاں سید و غیر سید کی بنیاد پر فتنہ برپا کرنا غلط ہے؛ سید و غیر سید کا شادی کے لحاظ سے کوئی فرق نھیں ہے۔
آج برصغیر کے اچھے خاصے پڑھے لکھے پاشمی/ سید اپنی بیٹیاں بد کردار پاشمی/سید سے تو بیاہ دیتے ہیں لیکن باکردار، نیک سیرت غیر سید سے نھیں۔
ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی، مذہبی ہاشمی/ سید خاندانوں نے بھی اب صرف “سید لڑکا” کی ہی رٹ لگائی ہوتی ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان خود ہاشمی/سید لڑکیوں کو ہو رہا ہے کہ مناسب رشتہ با آسانی نھیں مل پاتا۔
اِس امتیاز کو مذہبی رنگ بھی دیا جاتا ہے، اِس میں برصغیری سید علماء پیش پیش ہوتے ہیں، اِس مسئلے پر کبھی کُھل کر بات نھیں کی جاتی۔ افسوس۔

کس قیامت کے یہ “مسئلے” میرے نام آتے ہیں (نابالغ لڑکی کا نکاح):

مجھ سے کیسے کیسے مسئلے دریافت کیے جاتے ہیں، یہ بتانا مشکل ہی نھیں، نا ممکن ہے۔ فون، خط اور بالمشافہ پوچھے جانے والے سوالات کو لکھنے، بیان کرنے کے لیے نہ وقت ہے، نہ ہمت۔
ایک بار کسی نے یُوں مسئلہ دریافت کیا کہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان بیچ اِس مسئلہ کے کہ آج سے کم از کم دس، بارہ سال پہلے مُسماۃ فاطمہ (فرضی نام) کی عمر دو، تین سال کی تھی، اُس کا نکاح، اُس کے والد کی اجازت سے مُسمیٰ زید (فرضی نام) سے پڑھا گیا، جس کی اُس وقت عمر چار، پانچ سال ہوگی۔ نکاح مقامی مولوی صاحب نے پڑھایا، یہ زبانی تھا، رجسٹرڈ نہ تھا۔ لڑکی نے جب سے ہوش سنبھالا ہے وہ اِس عقد سے انکاری ہے۔ (لڑکی اب پڑھ لکھ چکی، لڑکا اُس کا کفو، ہم پلہ نہیں ہے) جبکہ لڑکے کا والد مُسلسل رخصتی کے لیے لڑکی کے والدین پر مُسلط ہے۔
میں نے اُس مولوی صاحب کا موبائل نمبر لیا، اُنھیں کال کی اور دریافت کیا کہ جناب عالیٰ نے کسی دو، تین سالہ بچی کا نکاح پڑھایا تھا؟ مولوی صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے، کہا کہ ایک مدت ہوئی، مجھے مکمل یاد تو نھیں، شاید دعائے خیر ہوئی تھی یا زبانی نکاح ہوا تھا، اب کنفرم نہیں ہے، ہاں کچھ ہُوا ضرور تھا۔
لڑکے کے باپ سے بات کی تو وہ کہنے لگا کہ لڑکی والے طلاق چاہتے ہیں، میرا بیٹا نہییں مانتا، وہ کہتا ہے کہ عدالتی خلع لیں، میں طلاق نہیں دوں گا۔
میں نے لڑکی سے بات کی، اُس نے بتایا کہ جب سے اُس نے ہوش سنبھالا وہ ایک لمحے کے لیے بھی رشتے پر راضی نہیں، شاید اُس نے لڑکے کو ایک آدھ بار کے علاوہ دیکھا ہی نہ ہو۔
میں نے رات گئے ایک، دو وکلاء سے بھی معاملہ ڈسکس کیا، پھر فریقین کو یُوں بتایا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق، قانونی نابالغ لڑکی، لڑکے کا نکاح درست نہیں ہے۔ مذکورہ بالا مسئلے میں اگر نکاح ایسے ہی ہُوا ہے تو مولوی صاحب، لڑکے کے والد، لڑکی کے والد اور اِس نکاح میں ملوث دیگر حضرات کے خلاف مقدمہ ہو سکتا ہے۔ یہ نکاح قانونی پہلو سے غلط ہے۔ (حتمی قانونی رائے، ماہرینِ قانون ہی دے سکتے ہیں)
اب شرعی پہلو دیکھیے تو کچھ فقہاء کے نزدیک نابالغہ کا نکاح سرے سے نھیں ہوتا، اُنھوں نے سورہ نساء کی آیت 6 وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ ’’اور یتیموں کی جانچ پڑتال کرتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر تک پہنچ جائیں‘‘ سے استدلال کیا ہے کہ رُشد و بلوغت کی عمر ہی نکاح کی عمر ہے، نیز اُن کا کہنا ہے کہ نکاح ایک عقد (معاہدہ) ہے اور عقد تب صحیح ہوتا ہے جب عقد کرنے والے عاقل اور بالغ ہوں۔ ہاں اکثر فقہاء کے نزدیک نابالغ لڑکی کا نکاح اولیاء کی اجازت سے ہو سکتا ہے، اُن میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اگر لڑکا لڑکی کا کفو (ہم پلہ) نہ ہو یا لڑکی کا نکاح باپ، دادا کے علاوہ دیگر اولیاء نے پڑھا دیا ہو تو بالغ ہونے پر اُسے “خیار البلوغ” حاصل ہے، جسے استعمال کر کے وہ عقد کو فسخ کر سکتی ہے، جبکہ کچھ فقہاء کا کہنا ہے کہ یہ عقد، لڑکی کی اجازت پر موقوف ہے، بالغ ہونے کے بعد وہ راضی ہوئی تو نکاح درست ورنہ ختم (نابالغ کا نکاح محض ایک حیلے کی رُو سے جائز سمجھا گیا ہے)
شیعہ و سُنی مسالک میں لڑکی کا راضی ہونا لازم ہے، چونکہ مذکورہ مسئلے میں لڑکی راضی نہ ہے، نیز نکاح ہوا بھی تھا یا بس دعاءِ خیر تھی، یہ بھی کنفرم نھیں، بنا برایں، اگر نابالغ لڑکی کے نکاح کو شرعی طور پر درست مان بھی لیا جائے تو بھی مذکورہ مسئلے میں دریافت کردہ نکاح درست نہیں ہے۔
واللہ العالم بالصواب۔
آخر میں والدین، اولیاء اور مولوی صاحبان کو مشورہ ہے کہ نابالغوں کا نکاح پڑھانے سے اجتناب برتیں، معاصر فقہاء نے بھی یہی رائے دی ہے۔ نابالغہ کا نکاح پاکستان میں قانونی طور پر جُرم ہے، فقہی پہلو سے دیکھیں تو نابالغ کے نکاح کے جواز کے قائل بعض فقہاء کے مطابق اِس کی حیثیت عقد فضولی کی ہے، اصل فیصلہ لڑکی، لڑکا بالغ ہونے کے بعد ہی کریں گے، لہذا نکاح بالغ ہونے پر ہی کیا جانا چاہیے۔ نکاح وہی درست ہے جس میں لڑکی، لڑکا مکمل رضامند ہوں اور اُن کے اولیاء بھی۔ لڑکی یا لڑکا راضی نہ ہوں تو نکاح منعقد ہی نھیں ہوتا۔
بعض صورتوں میں نکاح کے لیے لڑکی کو ولی (باپ یا دادا) سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے اگر وہ خود مختار ہے یا لڑکا اُس کا ہم پلہ (کفو) ہے، لیکن ولی جان بوجھ کر شادی کی اجازت نہیں دے رہا، یا لڑکی طلاق یافتہ ہے یا بیوہ ہے، یا ولی زبردستی کسی غیر کفو سے لڑکی کی شادی کرنا چاہتا ہو، اُس سے بچنے کے لیے لڑکی اپنے کسی کفو سے شادی کرلے۔ لڑکی کا ولی صرف اُس کا باپ ہے یا باپ کی عدم موجودگی میں دادا؛ ماں، بھائی اور دیگر رشتہ دار ولی نہیں شمار ہوتے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ولی محض ایک سہولت کار ہوتا ہے، وہ لڑکی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا، وہ اُسے مشورہ دے سکتا ہے، اصل فیصلہ لڑکی کا اپنا ہوگا۔

طلاق کے متعلق قرآنی ہدایات :

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر طلاق کے متعلق آیات مذکور ہیں، جبکہ ایک سورہ کا نام بھی “الطلاق” ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور سورہ کو ملحوظ رکھا جائے تو درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
1- طلاق ارادے اور اختیار سے واقع ہوگی۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ (آیت 227) اوراگر طلاق کا ارادہ کریں۔۔۔ پس مجبوری میں، دھوکے سے یا ہنسی مذاق میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ وہاں ارادہ موجود نہیں ہوتا۔
جہاں تک اِس حدیث کی بات ہے ’’ ‏ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ : النِّكَاحُ ، وَالطَّلَاقُ ، وَالرَّجْعَةُ  ‘‘  تین چیزیں مذاق میں کہی جائیں یا سنجیدگی سے تب بھی واقع ہو جائیں گی، نکاح طلاق اور رجوع۔ (ترمذی/ابوداؤد/ابن ماجہ/حاکم)محدثین کے نزدیک اِس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اِس بنا پر یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔
2- فوری طلاق نہ دی جائے، پہلے معاملے کو خاندان میں لایا جائے۔ سورہ نساء میں ارشادِ ربانی ہے وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (آیت 35) اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں فوری طلاق دینا درست نہیں۔ اِس سے یہ بھی جان سکتے ہیں کہ غصے، لڑائی میں طلاق نہیں دینا چاہیے، معاملہ خاندان میں لایا جائے، عزیز و اقارب سے باہمی مشاورت سے ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
3- طلاق، دو عادل گواہوں کی موجودگی میں دی جائے۔ سورہ طلاق میں آیا ہے وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ (آیت 2) اور طلاق کے لئے اپنے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بناؤ۔
4- ایک بار، ایک ہی طلاق دے جائے گی۔ ایک وقت میں تین طلاقیں درست نہیں ہیں۔ سورہ بقرہ میں ہے الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (آیت 229) طلاق دو مرتبہ دی جائے گی۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار طلاق کے بعد، جب تک رجوع نہ کیا جائے گا دوسری طلاق واقع نہ ہوگی۔
قرآن مجید کی آیات اور سورہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے رشتے کو باقی رکھنا اصل مقصد ہے، ہاں اگر مل کر رہنا مشکل ہوتو اچھے طریقے سے جدا ہو جانا چاہیے جسے قرآن مجید نے تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

نسلی تفاخر، قرآنی تعلیمات کے منافی ہے:

ارشادِ قرآنی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (سورہ الحجرات، آیت 13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑا باخبر ہے۔
اِس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ سبھی انسان، ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور شرفِ انسانی کا معیار تقویٰ ہے، جو انسان پرہیز گار، نیک سیرت ہے وہ صاحبِ عزت و شرف ہے۔
اب سُنیے کہ اپنی ذات سے باہر رشتہ نہ کرنا، یہ ایک طرح کا تعصب ہے، جس کی بنیاد نسلی تفاخر پر ہے ۔ برصغیر کے جٹ، راجپوت اِس تعصب کا شکار تھے، ہندو مت میں تو باقاعدہ ذات پات کا مذہبی تصور موجود ہے، برصغیر میں ہاشمی/ سیدوں نے بھی یہاں یہ روش اپنا لی اور اپنی قوم سے باہر رشتہ دینے کو معیوب جاننے لگے، افسوس اِس بات کا ہے کہ اِسے مذہبی رنگ دیا گیا۔
اسلام میں کفو سے مراد اسلام و ایمان میں برابری ہے، ایک اگر چھوٹی ذات کا متقی مومن ہے تو اُس سے رشتہ کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں، ہاں رشتہ کرنا لڑکی اور اُس کے ولی کی مرضی پر موقوف ہے، لیکن اِسے شرعی طور پر ممنوع نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ اِس سلسلے میں سماجی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے، قرآن مجید میں مذکور حضرت زید بن حارثہ والے واقعے سے رہنمائی لی جا سکتی ہے (سورہ احزاب، آیت 37 کو دیکھا جا سکتا ہے)۔

Share this content: