مولانا سید محمد جعفر زیدی شہید

Published by fawad on

nisar ali tirmazi
سید نثار علی ترمذی

مولانا سید محمد جعفر زیدی شہید ولادت۔1908ء میمن سادات، ضلع بجنور ( ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔ سلسلہ نسب- آپ کا سلسلہ نسب امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند حضرت زید شہید سے ملتا ہے۔ خاندان- آپ کے والد بزرگوار حکیم مولوی سید محمد زیدی مرحوم تھے جن کے پاس جمعہ و جماعت کی امامت کا اجازہ تھا۔ آپ کا خاندان حکیم خاندان مشہور تھا۔ تعلیم- آپ کی زیادہ تر تعلیم مدرسہ منصبیہ میرٹھ میں ہوئی۔ آپ کے استاد مجتہد علامہ یوسف حسین امروہوی مرحوم تھے۔ انہوں نے ہی آپ کو امام جمعہ و جماعت کا اجازہ عنایت فرمایا۔ یو پی بورڈ سے ادیب فاضل کی سند حاصل کی۔ شادی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں آپ کی شادی سید احسان حسین مرحوم کی اکلوتی صاحب زادی سے ہوئی۔ عملی زندگی۔ کچھ عرصہ افغانستان کے سفارت خانے دہلی میں بطور مترجم کام کیا پھر دہلی میں ہی ایک سکول میں مدرس بھی رہے مگر ملازمت پابندی گراں گزری تو وطن واپس آ گئے۔ ایک مرتبہ آپ کے علاقے میں مدعو ذاکر خطاب کرنے نہ پہنچا تو لوگوں کے اصرار پر برسر منبر آئے اور اپنی زندگی کی پہلی مجلس سے سے خطاب کیا۔ یوں مجالس پڑھنے کا سلسلہ تاحیات جاری رہا۔ ایک مرتبہ سہارن پور مجلس پڑھنے گئے تو بریلی کے ایک بزرگ کربلائی حسین نے بریلی میں پیش نمازی کی دعوت دی جسے قبول کر لیا۔ 1934ء بمع اہل وعیال بریلی تشریف لے آئے۔ 22 سال پروقار طریقے سے گزارے۔آپ کی مجالس میں تمام مسالک کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ 1945ء میں برصغیر کے مسلمانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت بڑہی اور مطالبہ پاکستان زور پکڑا تو آپ نے پرزور انداز میں مسلم لیگ مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے لگے۔ اسی عرصے میں ایک مرتبہ جب قائد اعظم محمد علی جناح بریلی تشریف لائے تو آپ کا تحریر کردہ سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ 1956ء میں مستقل طور پر پاکستان تشریف لے آئے۔ 1957ء رمضان المبارک سے شیعہ جامع مسجد جو اب مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان، حیدر روڈ، اسلام پورہ ( کرشن نگر) لاہور میں امام جمعہ و جماعت کے فرائض انجام دینے شروع کئے اور تا وقت شہادت اسی منصب پر فائز رہے۔ مجالس- اہل لاہور جلد آپ کے علم و فضل، پرہیز گاری، اور متانت کے مداح و گرویدہ ہو گئے۔ آپ زندگی بھر گروہ بندی اور ہر قسم کی سیاست سے بالکل الگ رہے۔ آپ ہر مسئلہ کا واضح اور دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ کن جواب دیتے تھے۔ کسی مسئلہ میں گنجلک بات نہ کرتے تھے۔ علامہ طالب جوہری مرحوم نے آپ کی مجالس پر تبصرہ کیا جو ہر لحاظ سے منفرد ہے۔” یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں حوزہ علمیہ نجف اشرف کا طالب علم تھا اور گاہ گاہ ایام عزا کی تعطیلات میں پاکستان آیا کرتا تھا۔ حسن اتفاق سے ایک سال مجھے لاہور میں محرم الحرام کے عشرہ اولی میں قیام کا موقع ملا اور مختلف مجلس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ غالباً محرم کی چوتھی یا پانچویں تاریخ تھی جب میرے میزبان مجھے ایک ایسی مجلس میں لے گئے جس میں بظاہر حالات دوسری مجالس کی نسبت فضلاء و دانشوروں کا اجتماع زیادہ تھا۔ایک ایسے بزرگ رونق افروز منبر تھے جن پر لباس علم پوری طرح سج رہا تھا۔ جلد ہی کوثر و تسنیم کی دھلی ہوئی زبان اور لہجے کی شیرینی میں مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ مجلس میں خطابت کا عنصر کم تھا لیکن علمیت کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ مدلل گفتگو تھی اور اس آیت پر تھی جس پر ایک ہزار سال سے گفتگو ہو رہی ہے جسے صاحبان علم آیہ تطہیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ آیہ مبارک جسے منبر سے بہت زیادہ پڑھا گیا ہو، اس میں نئے نکات کا پیدا کرنا بہت دشوار ہوتا ہے لیکن میں نے محسوس کیا کہ صاحب ذکر نے بعض ایسے نکات اور اچھوتے مطالب کی پیش کیے جو اس سے قبل سامعین کے لئے ناآشنا تھے جن سے انتہائی گہرے اور وسیع مطالعہ کا اظہار ہو رہا تھا۔ __ یہ میرا پہلا تعارف تھا حضرت مولانا سید محمد جعفر زیدی رضوان اللہ تعالی علیہ سے۔” آپ تا حیات ماہنامہ پیام عمل اور درس عمل کے سرپرست رہے۔ پیام عمل اور درس عمل کے لیے علمی مضامین لکھتے تھے۔ آپ کے مضامین کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ 1973 ء اپنی والدہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کی۔ 1974ء میں آپ کی والدہ انتقال فرما گئیں۔ کسی نے آپ کی والدہ کی وفات پر تاریخ لکھی جو آپ کو بہت پسند تھی۔ خیر النساء کے پاس قدیر النساء ہے آج آپ کی تحریر و تقریر کے بارے میں سب آگاہ ہیں مگر آپ شعر گوئی اور شعر فہمی کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔مختلف شعراء اپنے کلام کی تصیح کے لیے لاتے تھے۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر مسعود رضا خاکی مرحوم نے اپنا کلام تصیح کے لیے دیا تو آپ نے اپنا یہ شعر اس میں شامل کر دیا۔ دعویٰ نہیں ولا پر بیزار ہیں بہت اعدائے فاطمہ سے محبان فاطمہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے آپ کا یہ شعر ہے۔ اے حجت الہ بس آب آ بھی جائیے لے کر جلو میں نور گلستان فاطمہ شیعہ جامع مسجد کی پیشانی پر آپ کے یہ اشعار کندہ ہیں۔ بنائی قوم نے ممتاز مسجد جامع رہے گا فرد جزاء پر ہرکا نام مدام سر ورق پر لکھا کاتبان قدرت نے حبیب قوم محمد علی حبیب کا نام اپنے بیٹے کے اصرار امام حسن علیہ السلام کی شبیہ تابوت پر نوحہ لکھا جس کے چند مصرعے یہ ہیں۔ شیعو! چلو اٹھاؤ جنازہ امام کا زہرا کے نور عین کا اپنے امام کا چل کر بتاؤ ھاتھ شہ تشنہ کام کا عباس فرط غیظ سے تھرائے جاتے ہیں تیروں سے چھلنی ہو گیا لاشہ امام کا افسوس کہ آپ کا کلام محفوظ نہیں رہا۔ 3، نومبر 1980ء مسجد میں نماز مغربین پڑھائی، یہیں محفل عید مباہلہ میں فضائل اہلبیت بیان فرمائے، ایک شخص کے گھر نیاز تناول فرمائی، گھر تشریف لائے،ابھی گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی، آپ فوراً واپس آئے اور دروازہ کھولا۔ ایک ظالم ملعون نے تیسی سے سر پر وار کیا۔ خون میں نہا گئے۔ جلدی سے میو ہسپتال لے گئے وہاں سے جنرل ہسپتال شفٹ کر دیا گیا۔ 7، نومبر 1980ء بروز شب جمعہ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر مسعود رضا خاکی مرحوم نے کہا عمر بھر کرتے رہے آل عباء کا تذکرہ سرخ رو ہو کر گئے جعفر خدا کے سامنے ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آپ کو کربلا گامے شاہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ شہادت کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ کسی جگہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کا تذکرہ منکر زکوٰۃ کے حوالے سے کیا گیا۔ وہاں ایک شخص جو پیشہ کے لحاظ سے ترکھان تھا نے ان مفتی جعفر حسین مرحوم کے بجائے انہیں سمجھا اور اپنے تیشہ سے شدید زخمی کر دیا اور یوں آپ شہید ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے قائد کا فدیہ بنے یوں آپ بھی شہید فقہ جعفریہ قرار پائے۔ اس کے علاؤہ بھی اور باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بندہ ناچیز کو آپ کی اقتداء میں نماز و جمعہ پڑھنے کی سعادت حاصل رہی۔ آپ کے جنازہ اور مجلس سوئم میں شرکت کا موقع ملا۔ مجالس میں بھی متعدد مقامات پر موجود رہنے کا شرف رہا۔ آپ اپنے عادات و اطوار، علم و ادب کے لحاظ سے بزرگ علماء کی حقیقی تصویر تھے۔ برادر بزرگ سید امجد علی کاظمی ایڈووکیٹ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ نماز مغربین میں شریک ہوئے، نماز کے بعد کاظمی صاحب کو دعوت دی کہ ایک مجلس پڑھنی ہے ساتھ چلنا۔ مسجد کے قریب ہی ایک بیٹھک میں صف عزاء بچھی ہوئی تھی۔ بانی موجود تھا۔ شہید کرسی پر بیٹھ گئے، سامنے کاظمی صاحب اور بانی بیٹھ گئے۔ آپ نے مجلس سے خطاب کیا۔ کاظمی صاحب اب بھی حیرانگی سے یہ بات کہ رہے تھے کہ آپ نے مکمل مجلس پڑھی۔ یعنی کہ آپ مجمع زدہ نہیں تھے بلکہ اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ برادر حسن رضا نقوی بتا رہے تھے کہ آپ ہر ایک کی بات غور سے سنتے اور مکمل جواب دیتے۔ جواب دیتے ہوئے آنکھیں جھکا لیتے۔ آپ آیت اللہ العظمی ابوالحسن اصفہانی مرحوم کے مقلد تھے۔ آپ امام خمینی رح کے بارے میں فرماتے تھے کہ ان کے فتووں میں وسعت و گہرائی ہے۔ انقلاب اسلامی کا پیغام پہنچانے والوں کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ مسجد صاحب الزمان، حیدر روڈ اسلام پورہ، لاہور کے پیش امام علامہ سید محمد جعفر زیدی شہید نے جنگ ستمبر 1965ء کے حوالے سے تاثرات بیان فرمائے جسے دیگر شخصیات کے تاثرات کے ساتھ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے 9, جنوری 1966ء کی اشاعت میں شامل کیا ہے۔ نوائے وقت ، 9 جنوری 1966ء ” لاہور میں شیعہ حضرات کی سب سے بڑی مسجد” جامع مسجد شیعہ ” کرشن نگر میں ہے جہاں کے خطیب مولانا سید محمد جعفر ہیں۔ آپ نے فرمایا 5، اور 6, ستمبر کی درمیانی شب کو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ میں اور میرا خاندان اور علاؤہ ازیں ہزار ہا مسلمان ایک بحری جہاز میں بیٹھے ہیں اور جہاز پانی کی سطح پر چلنے کی بجائے پانی کی تہ کے اندر چل رہا ہے۔ سمندر میں طوفان اٹھ رہا ہے اور اناؤنسر کسی جگہ سے اعلان کر رہا ہے کہ اس وقت ہمارے سروں پر پانی کا پہاڑوں سے بھی زیادہ بوجھ ہے اور ساتھ یہ کہا جا رہا ہے بہرحال ہمیں ان سختیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ مشکلات و مصائب کا یہ طوفان سولہ یا سترہ دنوں تک جاری رہے گا اور پھر جہاز بحفاظت اپنی منزل تک پہنچ جائے گا۔ مولانا نے ک توقف کے بعد کہا کہ صبح آنکھ جو کھلی تو چوں کہ خواب میں خیال حج کرنے کا تھا تو اس لیے یہ تعبیر ہی کر لی کہ خداوند کریم ہم لوگوں کو یہ سعادت نصیب کرے گا۔ مگر یکایک جب حملہ کی خبر سنی تو فوراً ذہن اس طرف پلٹا کہ یہ خواب اسی مہم کے بارے میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک عید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ https://albasirah.com/urdu/eid-dr-sab-k-sath/ چنانچہ میں نے بہت سے حضرات کو جو محفل میں بیٹھنے اٹھنے والوں کو میں نے بتایا کہ جنگ میرے خواب کے حساب سے سولہ سترہ دنوں کے بعد ہماری فتح و کامیابی کے ساتھ ختم ہو گی۔ چنانچہ 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب کو جب فائز بندی ہو گئی تو جن لوگوں کو بتایا تھا انہوں نے نہایت پر تعجب ہو کر مجھ سے کہا کہ آپ کا خواب تو بلک صحیح تھا ۔ مولانا نے کہا کہ اس وقت بعض لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں بھاگنے کی فکر میں تھے مگر میرے خواب نے اور میری ہمت و ثابت قدمی نے انہیں ایسا نہ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ میں نے اکثر اوقات مسجد میں تقریریں کیں اور بالخصوص ہر جمعہ کو جہاد کے فضائل بیان کے ساتھ ساتھ لوگوں کو حوصلہ مندی سے مدافعت کی ترغیب دی اور دفاع فنڈ میں زیادہ سے زیادہ رقوم پہنچانے پر ابھارا۔” ( اس مضمون میں جو معلومات وہ آپ کی مجموعہ مجالس جلد اول سے لی گیں ہیں۔)