مسجد اقصیٰ فلسطینیوں کا واحد اثاثہ

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
صہیونی فورسز نے آج پھر مسجد اقصیٰ میں موجود فلسطینی روزہ دار نمازیوں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ 15اپریل 2022ء کو ہونے والے حملے میں تقریباً 150 افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ آج کے حملے میں 19 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اسرائیلی غاصب اتھارٹیز کے مطابق یہ کارروائی یہودیوں کے بیت المقدس میں محفوظ داخلے کے لیے کی گئی ہے۔ اتھارٹیز کے مطابق مسجد اقصیٰ میں موجود نمازی یہودیوں کو پتھر مارتے ہیں اور انھوں نے بیت المقدس میں جگہ جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ صہیونی اتھارٹی فلسطینیوں کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیوں اور آنسوگیس کا بہیمانہ استعمال کر رہی ہے۔ مسجد اقصیٰ کی انتظامیہ کے مطابق اسرائیلی فورسز جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں اس وقت داخل ہوئیں، جب فلسطینی صبح کی نماز کے لیے جمع ہوئے ہوئے تھے۔ فلسطینی انتظامیہ کے مطابق اب تک چار سو کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شرارت کا آغاز اسرائیلی مذہبی گروہ کی جانب سے اس اعلان سے کیا گیا کہ جو بھی شخص مسجد اقصیٰ میں بکری ذبح کرے گا، اسے نقد انعام دیا جائے گا۔ یہ صیہونیوں کی کوئی خود ساختہ رسم ہے، جو مسلمانوں کے عقائد کے مطابق مسجد کی توہین کے مترادف ہے۔ اسی عمل کو روکنے کے لیے فلسطینی مسجد اقصیٰ میں جمع ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ چند ہفتوں سے چار اسرائیلی شہروں میں صہیونیوں پر ہونے والے قاتلانہ حملے جن میں چودہ صہیونی قتل ہوئے اور اس کے خلاف اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں پرتشدد کارروائیوں اور چھاپوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تصادم کی یہ فضا بھی مسجد اقصیٰ میں ہونے والے حالیہ واقعات کا سبب ہے۔

 فلسطینی صدر کے دفتر نے صہیونی فوجیوں کی اس کارروائی کو ایک خطرناک پیشرفت اور اعلان جنگ قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی کبھی بھی صہیونیوں اور یہودی آبادکاروں کو مقدس مقام پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطینی ہر قیمت پر مقدس مقام کا دفاع کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گھس بیٹھیوں کے لیے بیت المقدس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس بھی رمضان المبارک کے مہینے میں اسرائیل کے مسجد اقصیٰ پر حملوں کے سبب حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس گیارہ روزہ صہیونی جارحیت میں 260 فلسطینی اور تقریبا 13 اسرائیلی قتل ہوئے تھے۔ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں بے پناہ مالی نقصان بھی ہوا تھا۔ حالات ایک مرتبہ پھر اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے حالیہ واقعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کو چپ کا روزہ توڑ کر اس جارحیت کو روکنا چاہیئے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حالیہ جارحیت مسجد اقصیٰ کو یہود کے زیر قبضہ کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے، جس کا عرب اور اسلامی دنیا میں شدید ردعمل آئے گا۔ پوپ فرانسس نے ایسٹر کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ یروشلم تک تمام مذاہب کے ماننے والوں کو رسائی دی جانی چاہیئے۔ عرب مبصرین کے مطابق اس وقت فلسطینیوں سے سب کچھ چھینا جا چکا ہے۔ ان کے گھر، زیتون کے باغ اور وقار سب کچھ صہیونیوں کے قبضے میں ہے۔ مسجد اقصی وہ واحد چیز ہے، جو فلسطینیوں کے پاس رہ گئی ہے، جسے چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

قابل غور امر یہ ہے کہ عرب مبصرین فلسطینیوں سے چھن جانے والی اشیاء کا شمار کرتے ہوئے نہ جانے کیوں اسلامی دنیا کی فلسطین کاز کے لیے حمایت کو بھول جاتے ہیں۔ اسرائیل میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس، دونوں اقوام کے مابین بڑھتے ہوئے اقتصادی و سیاسی روابط اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں سے واقعی سب کچھ چھین لیا ہے۔ اسلامی دنیا سے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینیوں پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے، تاہم یہ بیانات شاید سفارتی دنیا میں تو کوئی اہمیت رکھتے ہوں گے، تاہم ان کا اسرائیل پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہے۔ امت مسلمہ کو اس قومی غیرت اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، جس کا مظاہرہ اس وقت ایران کر رہا ہے۔