×

مسجد صاحب الزمان، اسلام پورہ لاہور

masjid lahore

مسجد صاحب الزمان، اسلام پورہ لاہور

سید نثار علی ترمذی
1970-71 کی بات ہے۔ ہم ساندہ کلاں،لاہور میں رہتے تھے۔ نماز و قرآن مولانا محمد باقر نقوی مرحوم کی اقتداء و نگرانی میں پڑھتے تھے۔ آپ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا۔ لاہور میں واپڈا میں میٹر ریڈر تھے اور پیش نماز بھی۔

ایک دن والدہ مرحومہ نے مجھے ساتھ لیا علامہ محمد جعفر زیدی شہید کے گھر جو کہ شیعہ جامع مسجد سے متصل تھا میں مجلس کے لیے پہنچ گیں۔ والدہ مرحومہ کو عبادات و مجالس کا انس تھا۔ جہاں مجلس ہوتی، وہاں پہنچ جاتیں۔ خود بھی سلام، مرثیہ و نوحہ پڑھ لیتیں تھیں مگر محدود حلقے میں۔ وہاں اور بچے اپنی ماؤں کے ساتھ آے ہوئے تھے۔ مجلس غالباً نماز ظہرین کے بعد ہونی تھی۔ اتنے میں مسجد میں آزان شروع ہو گئی۔ میں ڈرتا ڈرتا مسجد میں داخل ہوا۔ گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی میں تو ششدر رہ گیا۔ اتنا خوبصورت منظر، واہ واہ۔ برآمدہ اور اس کے نیچے خوبصورت چھلکتا ہوا، پانی سے بھرا ہوا تالاب۔ چند لوگ اس کے گرد بیٹھے وضو کر رہے تھے۔ میں بھی ان میں جا بیٹھا۔ پہلے تو میں نے جائزہ لیا کہ دوسرے کس طرح وضو کر رہے ہیں۔ تالاب کے گرد ایک چھوٹی نالی تھی جس میں وضو کا پانی جا رہا تھا۔ لوگ چلو میں پانی لیتے اور وضو کرتے۔ پانی چھوٹی نالی میں گرا دیتے۔ میں اس فرق کو سمجھ نہ سکا۔ میں نے چلو سے منہ میں پانی لیا، کلی کی اور پانی تالاب میں پھینک دیا۔ دوسری مرتبہ بھر ایسا کیا تو ایک بزرگ نے ٹوک دیا کہ کلی کا پانی تالاب میں کیوں پھینک رہے ہو، اسے نالی میں ڈال دو۔ میں نے فوراً اصلاح کی اور تیسری کلی نالی میں بہا دی۔ یہ منظر اس طرح سے آنکھوں میں بسا ہوا ہے کہ کاش یہ تالاب دوبارا بن جائے۔ میرے خیال میں ماضی سے کچھ نہ کچھ جڑا رہنا چاہیے۔

allama jafar zaidi علامہ محمد جعفر زیدی شہید

اسی طرح کا تالاب کربلا گامے شاہ کی مسجد میں بھی تھا۔ اب تو یہ دونوں تالاب ختم کر دیے گئے۔مسجد کی تعمیر پر کئی سنی سنائی باتیں تو معلوم تھیں مگر مکمل اور صحیح تاریخ کا کسی کو پتا نہیں تھا۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے مرحوم علی محمد خان کو کہ وہ مسجد کے بانی رکن ہونے کی وجہ سے مسجد کی تاریخ لکھوا گئے جو ان کے چہلم پر تقسیم ہوئی۔ میں مرحوم موصوف سے ملا ہوا ہوں۔ سنت نگر اور اسلام پورہ میں رہتے ہوئے اکثر ملاقات ہو جاتی تھی۔ بعد میں فقط جمعہ کی نماز میں زیارت ہوتی۔ وہ اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھے، قدم بقدم چلتے ہوئے مسجد کے صحن سے گزرتے اور جا کر نماز کی کرسی پر بیٹھ جاتے۔ آواز کی گھن گرج اور تازگی آخر دم تک قائم رہی۔ 95

سال سے زائد عمر میں اللہ کو پیارے ہوے۔ یہ تاریخ انہی کی بتائی ہوئی باتوں کا خلاصہ ہے۔
ویسے یہ علاقے ہندو نشیںن تھے۔ سنت نگر، کرشن نگر، راج گڑھ، شام نگر وغیرہ۔ تو یہاں آباد لوگ زیادہ تر مہاجرین تھے۔

مرحوم علی محمد خان بتاتے ہیں کہ 1948-1949 کی بات ہے چند مومنین شام کو ایک جگہ جمع ہوتے۔ ان دنوں بلتستانیہ امام بارگاہ میں بلتی زبان میں مجلس ہوتی تھی۔ جو اکثر کو سمجھ میں نہ اتی۔ ان مومنین نے سوچا کہ مجالس ہونی چاہیں۔ مجلس بھی ڈاکٹر سرفراز پڑھا کرتے تھے۔ یہ ڈاک خانے میں ملازم تھے اور شام کو ھومیوپیتھک کلینک کرتے تھے انہی کی کلینک پر لوگ جمع ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ مجالس جم گئیں اور بڑے علماء بھی خطاب کرنے لگے۔ طے پایا کہ مسجد کے قیام کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے۔ انجمن حسینہ کے نام سے انجمن تشکیل دی۔ پہلے صدر ڈپٹی آغا نثار حسین تھے۔ درج ذیل اراکین تھے۔

1- سید قائم علی فانی،2- سید نفیس عباس زیدی,3- ڈاکٹر حسین بختیاری،4- ڈاکٹر سرفراز حسین،5- جمیل جعفری،6- مرزا ذیشان بیگ، 7-خواجہ صفدر، 8- خورشید اکبر زیدی، 9- سید امجد حسین نقوی،10- علی کوثر جعفری، 11- سید مصطفیٰ، 12, سید مبارک حسن نقوی، 13- سید نادر علی رضوی، 14- مولانا ظل حسنین، 15- علی محمد خان (راوی تاریخ ھذا )

میٹنگ میں طے پایا کہ نماز با جماعت کا بندوست کیا جاے۔ ابتدا میں سید نفیس عباس زیدی ( رکن انجمن ) کے گھر پر جماعت کا بندوست کیا گیا۔ پہلے پندرہ دن ایک مولانا نے جماعت کروائی، بعد میں مولانا قائم علی فانی مرحوم نے جماعت کروائی۔ جب نمازی زیادہ ہو گئے جگہ کم پڑ گئی تو اسے امام بارگاہ بلتستانیہ میں شفٹ کر دیا گیا۔ جب یہاں بھی جگہ کم پڑ گئی تو ضرورت محسوس کی ایک پلاٹ تلاش کیا جانے اور مسجد تعمیر کی جائے۔ ایک دو پلاٹ تلاش کیے گئے مگر وہاں بات نہ بنی بلکہ شیعہ سنی مسئلہ بنا دیا۔ پھر یہ پلاٹ جہاں اب مسجد ہے تلاش کر لیا۔ یہ بڑا خالی پلاٹ تھا جہاں فقط ایک پٹھان جھگی میں رہتا تھا۔ مولانا سید اکبر عباس زیدی نے میدان صاف کروا کے دو صفیں بچھائیں اور مومنین سے کہا کہ میں آگے کھڑا ہوتا ہوں آپ میرے پیجھے فرادا نماز پڑھ لیں۔اس طرح کئی دن نماز ہوتی رہی۔ پٹھان نے نہرو پارک جو اب افغان پارک کہلاتا ہے کے سامنے پٹھانوں کی آبادی تھی کو بتایا کہ شیعوں نے پلاٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور مسجد بنانا چاہتے ہیں۔ وہ سب لوگ اکٹھے ہو کر آگئے اور جھگڑا شروع ہو گیا۔ مولانا اکبر عباس نے حوصلہ دیا کہ ڈٹے رہیں اور نماز ادا کی۔ جب یہ لوگ نماز پڑھتے تو وہ پتھر مارتے۔ جب بات مزید بڑھی تو معاملہ پولیس تک پہنچ دیا اس نے نماز رکوا دی۔

مومنین روز جمع ہو کر نماز پڑھنے کی کوشش کرتے اور پولیس سے جھگڑا ہوتا۔ جب یہ بات پھیلی تو نسبت روڈ، رشی بھون اور موچی دروازے سے بھی مومنین آنے لگے۔ انجمن نے حالات کو دیکھتے ہوۓ کربلا گامے شاہ میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جلسے میں طے پایا کہ مسجد وہیں بنے جہاں پلاٹ ہے۔ دوسرے دن پھر جلسہ ہوا، جلسہ کے اختتام پر لوگ جلوس کی صورت میں چل پڑے۔ گیٹ پر آ کر رک گئے اور سوچ و بچار کرنے لگے۔

صادق علی عرفانی اور مظفر علی شمسی نے تحمل نہ کیا وہ علم لے کر باہر آ گئے۔ ان حضرات کو دیکھتے ہوئے لوگ بھی باہر آگئے اور مسجد کی طرف چل پڑے۔ سنت نگر پہنچ پولیس نے روکنے کی کوشش کی، جلوس وہیں روک کر نماز ادا کی۔ پولیس نے لوگوں کو گرفتار کر کے کیمپ جیل بھیج دیا۔اس سے یہ مسئلہ حکومت کے نوٹس میں آ گیا۔

ایجی ٹیشن شروع ہو گیا۔ روزانہ کربلا گامے شاہ میں جلسہ ہوتا، جلوس کی صورت میں مسجد کے پلاٹ کے قریب پہنچتے تو پولیس روک لیتی۔ وہیں نماز ادا کی جاتی۔ پولیس گرفتار کرتی، کیمپ جیل لے جا کر بند کر دیتی۔ بعض نمازیوں کو مانگا منڈی چھوڑ آتی، لوگ پیدل گھر آتے۔ سب سے پہلے گرفتاری ذوالقرنین نامی شخص نے دی۔ مولانا بشیر انصاری مرحوم نے بھی پانچ افراد کے ساتھ گرفتاری دی۔ سید ظہور حسین رضوی صاحب گرفتار لوگوں کو کھانا پہنچاتے۔ یہ سلسلہ پندرہ روز سے زیادہ دن تک جاری رہا۔ پولیس کے رویے سے کئی بار سخت کشیدگی اور مار کٹائی بھی ہوئی۔ نواب مظفر علی قزلباش بھی تحریک میں شامل ہو گئے۔

مولانا اکبر عباس زیدی پوری دلیری اور جوان مردی سے تحریک سے منسلک رہے۔ آپ ابتداء سے ساری رات اکیلے بیٹھ کر پہرہ دیتے۔ تمام اوقات میں آذان دیتے اور نماز پڑھتے۔ ایک دن ظہر کے وقت جب کافی وقت گزر گیا اور مولانا نے آذان نہ دی۔ لوگوں کہا کہ آج آزان نہیں دیں گے؟ مولانا نے جواب دیا کہ آج آذان نہیں دوں گا۔ لوگوں نے وجہ پوچھیں تو کہنے لگے ہم نے مولا سے مدد مانگی تھی مگر ابھی تک مولا نے ہماری مدد کیوں نہیں فرمائی۔ خیر نماز ادا کی گئی۔ نماز کے کچھ دیر بعد حکومت کی طرف سے مراسلہ موصول ہوا، جس میں شیعہ مسجد بنانے کا اجازت نامہ تھا۔ لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اب لوگ مولانا سے کہنے لگے پہلے یہ بات کر دیتے تو مسئلہ پہلے حل ہو جاتا۔

مومنین نے زمین کی قیمت اپنی جیب سے ادا کی۔ حکومت نے زمین کی رجسٹری مولانا ظل حسنین زیدی کے نام کر دی اور قبضہ بھی دے دیا۔

نواب مظفر علی قزلباش نے ذاتی دلچسپی لے کر پلاٹ کی حد بندی کروا دی۔ شروع میں مٹی کا تھڑا بنا کر اس پر چھپر ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے چھپر والی مسجد مشہور ہو گئی۔ تھوڑی تھوڑی رقم آتی گئی اور تعمیر پر خرچ ہوتی رہی۔

مالی تعاون کے لیے مظفر علی قزلباش نے سید مراتب علی کو اپنی کوٹھی پر بلایا۔ مسجد کی انتظامیہ بھی تھی۔ جب سید مراتب علی سے اور انہیں مقصد بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ان کا ہاتھ تنگ ہے۔ یہ سن کر صادق علی مرحوم بول اٹھے شاہ صاحب پھر تو ہم لوگ جمعہ کی نماز میں آپ کےلیے بھی اپیل کر دیتے ہیں۔ جس پر وہ برہم ہوگئے مگر قزلباش صاحب نے ان کو منایا اور تین ہزار روپے دینے پر راضی کر لیا۔ اور لوگوں سے بھی اپیل کی جن میں حبیب بنک کے مالک سیٹھ حبیب بھی تھے۔ انہوں نے کہا جتنے پیسے آپ لوگ ڈالیں گے اتنے میں دے دوں گا۔ جس پر علی محمد خان مرحوم نے کہا اگر ہمارے پاس رقم ہوتی تو آپ کو کیوں زحمت دیتے۔ یہ نہیں معلوم کتنی رقم دی البتہ تعاون کی تختی مسجد کے مین گیٹ پر لگی ہوئی ہے۔

علامہ سید محمد جعفر زیدی شہید رح نے اس بارے میں قطعہ بھی تحریر کیا جو کہ یہ ہے۔
بنائی قوم نے ممتاز مسجد جامع
رہے گا فرد جزاء پر ہرکا نام مدام
سر ورق پر لکھا کاتبان قدرت نے
حبیب قوم محمد علی حبیب کا نام
انجمن نے مسجد کا نام شیعہ جامع مسجد رکھا تھا جسے بعد میں مولانا ابوالحسن نقوی صاحب نے مسجد صاحب الزمان کر دیا۔

پہلے پیش امام مولانا سید قائم علی فانی مرحوم تھے۔ مولانا فانی مرحوم نے اپنے گھر بچوں کو قرآن و دینیات پڑھانے کا مدرسہ قائم کیا تھا جسے سید صغیر حسین نقوی ( صغیر بھائی) کی سرپرستی میں مسجد میں منتقل کر دیا گیا۔ بھائی صغیر اپنی زندگی بھر باقائدگی سے بچوں کو قرآن و دینیات پڑھاتے پڑھاتے 5, مئی 2019ء کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔

sagheerسید صغیر حسین نقوی
اس وقت مسجد کو مرکزی جامع مسجد کا اعزاز حاصل ہے۔

اللہ تعالیٰ مسجد کے قیام کے لیے کوششیں کرنے والے، مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والے اور مسجد میں عبادات انجام دینے والوں کو اجر کثیر اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
اس وقت مسجد کا مرکزی ہال بمع تہ خانہ دوبارا تعمیر ہؤا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مشیر کاظمی مرحوم https://albasirah.com/urdu/musheer-kazmi/

Share this content: