ماورائیت، رہبر انقلاب کی تنبیہ

Published by fawad on

ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی برسی کی مناسبت سے ایک تحریر

تحریر: سید اسد عباس

اس برس سردار مقاومت شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی ایران سید علی خامنہ ای نے ایک انتہائی اچھوتی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قاسم سلیمانی کی شخصیت کو ماورائی بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ تاثر نہ ابھرے کہ شہید قاسم سلیمانی ایک بے بدل انسان ہیں۔ یقیناً ان کی انقلاب اسلامی اور اسلام کے لیے بے پناہ خدمات ہیں، تاہم ایک وقت تھا کہ شہید قاسم کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ آج بھی کئی ایک ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر ان کو توفیق الہیٰ کے سبب شہادت کا درجہ عطا ہو اور لوگوں تک ان کی خدمات پہنچیں تو سب جان جائیں گے کہ وہ کیا ہیں۔ اس موضوع پر یہ بات رہبر انقلاب ہی کہہ سکتے تھے اور انہی کو کہنی چاہیئے۔

اس چھوٹی سی حکمت آمیز بات کے پیچھے تجربات اور رہبریت کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔ درحقیقت رہبر انقلاب نے بتایا کہ اسلام اور انقلاب اسلامی ایران وہ اصل ہے، جو شہید قاسم جیسے افراد کو جنم دے رہا ہے اور انقلاب کے دامن میں ایسے فرزندوں کی کمی نہیں ہے، جن میں شہید قاسم جیسی صلاحیتیں ہوں۔ رہبر انقلاب کی اس بات سے ایسا لگتا ہے، جیسے شہید قاسم کو ایک ماورائی شخصیت کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے یا اس کا امکان ہے۔ شاید رہبر انقلاب یہ بھی چاہتے ہوں کہ نوجوان نسل کے دلوں میں شہید قاسم کے مقام تک پہنچنے یا اس سے بھی بہتر کرنے کی امنگ برقرار رہے۔ لہذا انھوں نے ضروری سمجھا کہ شہید کی برسی کے موقع پر یہ بات کی جائے اور کسی بھی ابہام کی اصلاح کی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً اس درجے کی شخصیات کے ساتھ عوامی رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ ایسی شخصیات کو ماورائی کردار بنا کر پیش کرتے ہیں، جس کے سبب لوگ ایک طرح سے ایسے افراد کو پوجنا شروع کر دیتے ہیں، جو شاید کسی بھی نظریاتی تحریک کی پیش رفت کے لیے درست نہیں ہے۔ نظریاتی تحریکوں کی اساس شخصیات نہیں بلکہ نظریہ ہوتا ہے۔ ایسی شخصیات ایک اچھی مثال ضرور ہوتی ہیں، جن کے کام اور تجربات سے استفادہ کیا جانا چاہیئے، تاہم زمان و مکان کی تبدیلی کے سبب جس نو آوری کی ضرورت ہوتی ہے، ایسی شخصیات کو چاہنے والے عموماً اس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جو یقیناً ایسی شخصیات کے طرز زندگی کے بالکل برعکس ہے۔ شہید قاسم اور ان جیسے افراد اپنی زندگیاں جس نو آوری اور فکری تگ و دو کے ساتھ بسر کرتے ہیں، ان کے متاثرین اس کی پیروی نہیں کر پاتے بلکہ مقلد محض بن کر ہر مسئلہ کے حل کے لیے ان شخصیات کی زندگیوں کو کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ایک نظریاتی تحریک کا سیاسی سفر جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔

سید ثاقب اکبر بھی کچھ ایسی ہی باتیں کہا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور ہم مل جل کر کام کیا کرتے تھے، ہمیں ڈاکٹر شہید سے اکثر اختلاف بھی ہوتا تھا، جسے ڈاکٹر صاحب قبول کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں نظریاتی تشیع کے فروغ کے لیے کام کیا تھا۔ سید ثاقب اکبر اس امر کے داعی تھے کہ زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ فیصلوں اور حکمت عملی میں بھی ردو بدل کیا جانا چاہیئے۔ ان کے جملے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ "پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ گیا ہے۔” وہ اکثر یہ بات عمومی محافل میں نہیں کہہ سکتے تھے بلکہ طریقے طریقے سے دوستوں کو ایسی باتیں باور کروانے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے کسی حصے میں انھوں نے انقلاب اسلامی ایران کے حوالے سے ایک معروف پاکستانی صحافی کی تحریر کو اپنے مجلے میں شائع کر دیا، جس کے سبب بہت سے دوست ان کے مخالف ہوگئے۔ حتی کہ انھیں ضد انقلاب کا عنوان بھی دے ڈالا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سید ثاقب اکبر جتنے انقلاب کے حامی تھے، پاکستان میں شاید ہی کوئی ہو۔ وہ امام خمینی سے عشق کی حد تک محبت کرتے تھے اور رہبر انقلاب اسلامی ایران کی پر حکمت رہبریت کے قائل تھے۔

بعض چیزوں کے بارے ان کا اختلافی نقطہ نظر بھی تھا، تاہم اصولی طور پر ان سے بڑھ کر انقلاب کا بابصیرت حامی میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں انقلاب کی حمایت کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری پہلی ذمہ داری پاکستان ہے اور ہم اس معاشرے میں بہتری لانے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ مضبوط پاکستانی سماج ہی انقلاب اسلامی کی حمایت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سید ثاقب اکبر ماورائیت کو بابصیرت اقدامات کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے، اسی وجہ سے اس کے مخالف تھے، تاہم وہ یہ بات اپنی پوری زندگی ملائے عام میں نہ کہہ سکے، ہاں اپنے دوستوں اور قریبی افراد سے یہ بات ضرور کرتے تھے، جس میں ان کا مقصد قوم کے نظریاتی اور فکری سفر کو جمود سے بچانا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

رفیق محبوب https://albasirah.com/urdu/product/rafeeq-e-mahbbob/

ڈاکٹر شہید کا جب بھی ذکر ہوا، ایسا کم ہی دیکھا کہ سید ثاقب اکبر کی آنکھیں نم نہ ہوئی ہوں۔ وہ ڈاکٹر شہید کو بہت چاہتے تھے۔ ڈاکٹر شہید کی اعلیٰ انسانی خصوصیات منجملہ ہدف کے لیے تحرک، ایثار، ان تھک محنت، وقت کی پابندی، ایفائے عہد کے قائل تھے اور اکثر اپنی گفتگو میں اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے، بلکہ ان کی زندگی پر اس صحبت کے بے پناہ اثرات تھے، تاہم وہ انھیں ماورائی انسان کے طور پر پیش کرنے کے قائل نہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آج ڈاکٹر شہید ہوتے تو ان کی روش پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق ہونی تھی، جیسے کہ پوری زندگی رہی۔ وہ بتاتے تھے کہ ڈاکٹر شہید کو قم سے واپسی پر جب میں نے بتایا کہ ہم اتحاد امت کے لیے کام کریں گے تو انھوں نے میری تائید کی، برادر نثار ترمذی کا بھی کہنا ہے کہ جب اخوت اکیڈمی بنی تو ڈاکٹر شہید نے مجھے بلا کر سید ثاقب اکبر سے ملنے اور ان کا ساتھ دینے کا کہا۔

بہرحال ان کی باتیں، جو وہ کہنا چاہتے تھے اور نہ کہ پائے، مجھ پر قرض ہیں، ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا اظہار کروں گا، ممکن ہے کسی کو ان سے اختلاف ہو۔ اختلاف نظر کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا بھی سید ثاقب اکبر کے زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصول تھا، جسے ہم سب کو بھی اپنانا چاہیئے، یہی مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل معاشروں کا وطیرہ ہے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز