کیا پیغام وحدت عوام تک پہنچا ہے؟
دنیا بھر میں مسلمانوں میں اتحاد و وحدت پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ویسے تو عصرِ جدید میں اس سلسلے میں پہلی بھرپور آواز سید جمال الدین افغانی کی تھی۔ اُن کے بعد اور بھی بڑی شخصیات نے یہ پرچم بلند کیا، جن میں حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا نام نمایاں ہے۔ اخوان المسلمین کے بانی حسن البناء بھی اتحاد بین المسلمین کے پیامبر تھے۔ مولانا مودودیؒ بھی ان بلند مرتبہ افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم زیادہ پرزور بھرپور اور طاقتور آواز امام خمینیؒ کی ثابت ہوئی، جن کی قیادت میں 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ انھوں نے ایجاد وحدت کے لیے کئی ایک اقدامات کیے، جن میں 12 ربیع الاول تا 17 ربیع الاول کو ہفتۂ وحدت قرار دینا نہایت اہم ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں میں اہل سنت میں 12 ربیع الاول کا دن یوم ولادت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منایا جاتا ہے اور اہل تشیع کے ہاں 17 ربیع الاول کا دن اس مناسبت سے رائج ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں اگر وحدت ایجاد ہوسکتی ہے تو وہ آنحضرتؐ کی مرکزیت اور محور کے گرد ہی ممکن ہے۔ آنحضرتؐ کی یاد منانے کے لیے بھی اگر مسلمانوں کے یہ دو بڑے اور تاریخی گروہ الگ الگ رہیں تو ایک فاصلہ قائم رہتا ہے۔ اس کا حل انھوں نے یہ کیا کہ دونوں تاریخوں اور ان کے مابین کے ایام کو ہفتۂ وحدت قرار دے کر اسے منانے کا اہتمام کیا۔امام خمینیؒ کی زندگی ہی میں ایران میں عالمگیر وحدت کانفرنسوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جن میں پوری دنیا سے مسلمان علماء اور دانشور شریک ہوتے ہیں اور اتحاد و وحدت کے حوالے سے اپنے افکار پیش کرتے ہیں، تبادلۂ خیال کرتے ہیں، عالم اسلام کی مشکلات کو زیر بحث لاتے ہیں اور ان کے حل کی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان کانفرنسوں کے دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں قاہرہ کی مرکزیت میں مجمع تقریب بین المذاہب الاسلامیہ کا ایک ادارہ قائم ہوچکا تھا، جو بعدازاں پہلے والی فعالیت جاری نہ رکھ سکا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس ادارے کا بھی احیاء کیا گیا، جس کی مرکزی شوریٰ میں عالمی سطح پر اہمیت رکھنے والے مسلمان علماء، دانشور اور مفکرین شامل ہیں۔ اس شوریٰ کے اجلاس بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔
تقریباً پوری دنیا کے تمام اہم ممالک میں اس ہفتے میں تقریبات جاری رہتی ہیں، جن میں تمام مسلمان مسالک کی شخصیات شریک ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ عوام تک بھی جا پہنچا ہے۔ اب عوامی سطح کے اجتماعات اور جلوسوں میں مختلف مسالک کے لوگ کثرت سے شریک ہونے لگے ہیں۔ پاکستان میں یہ سلسلہ روزافزوں ہے۔ اتحاد امت کے خوبصورت مظاہرے مسلسل دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس صورت حال کو اگر دو دہائیاں پہلے کے حالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یقیناً اتحاد کی تمنا رکھنے والوں کے لیے یہ لائق اطمینان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایک طرف اتفاق کی تحریک جاری ہے تو دوسری طرف انتشار کی قوتوں نے بھی کوئی کمی نہیں کی۔ تفریق اور تکفیر کے سلسلے بھی جاری رہے۔ تکفیر کا سلسلہ زبانی حد تک ہی نہ رہا بلکہ اس کے لیے شدت پسند، وحشت آفریں قاتل تنظیمیں بھی بنائی گئیں، جنھیں عالمی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کی بھرپور امداد حاصل رہی اور اب بھی حاصل ہے۔ ان تنظیموں نے مسلمان ملکوں میں باہمی نفرتیں پیدا کرنے میں ہی کردار ادا نہیں کیا بلکہ مسلمان ملکوں کو توڑنے اور ہر طرف بربریت کا کھیل کھیلنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کئی ایک مسلمان ملک تباہی اور بربادی کی مثال بن چکے ہیں۔ اب بھی کئی ملکوں میں امن ناپید ہے۔
اس سب کے باوجود خیر کی قوتیں کمزور نہیں پڑیں۔ شدت پسندی اور تکفیریت کا پیغام مسلمان عوام نے بالعموم قبول نہیں کیا۔ علماء اور دانشوروں کی بڑی تعداد اتحاد کے پرچم کے نیچے اکٹھی ہو گئی۔ اتحاد کے دشمنوں نے بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، کئی گروہ تشکیل ہی اس لیے دیے گئے ہیں، تاکہ وہ مسلمانوں میں تفریق کی آبیاری کریں، نفرتوں کے بیج بوئیں اور ایک دوسرے سے دوریاں پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو جائے تو ان کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ ان کی تشکیل کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے، اس لیے جب ایسے گروہ یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرتے ہیں، جس سے غلط فہمیوں کا طوفان اور غلغلہ پھر برپا ہونے لگے۔ اس موضوع کو پاکستان کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ دعویٰ تو نہیں کرسکتے کہ اس حوالے سے اب ایک مثالی صورت حال پیدا ہوچکی ہے، لیکن 1995ء سے لے کر اب تک کی کوششوں کے نتائج بہت مفید رہے ہیں۔
یہ وہ سال ہے، جب شدید قتل و قتال، تکفیریت اور نفرت انگیزی کی خوفناک صورت حال کے بعد پاکستان کے پرسوزعلماء اور دینی قائدین نے مختلف گروہوں کو آپس میں بٹھایا، پیدا شدہ صورت حال کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا اور قیل و قال، بحث و مناظرہ اور الزام و جوابی الزام کے مشکل ادوار سے گزر کر بالآخر سب کو ایک مرکز پر اکٹھا ہونے کے لیے آمادہ کر لیا۔ ان حالات کی مناسبت سے ایک دستاویز تیار کی گئی، جسے 17 نکاتی ضابطہ اخلاق قرار دیا جاتا ہے۔ اسی ضابطے کی بنیاد پر ملی یکجہتی کونسل پاکستان معرض وجود میں آئی، جس میں پاکستان کے تمام مسالک کی نمائندہ جماعتیں موجود ہیں۔ اس سے باہر موجود مذہبی جماعتیں بھی بالعموم اس کی بنیاد اور ضابطہ اخلاق کو مفید قرار دیتی ہیں۔ اونچ نیچ کا ایک مرحلہ ضرور آیا، تاہم یہ اتحاد اب بھی پوری قوت سے موجود ہے۔ حکومتی حلقے بھی اس کی افادیت کو بیان کرتے رہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں پروگراموں، کانفرنسوں اور مذاکروں کے علاوہ عوامی اجتماعات میں جب مختلف مکاتب فکر کے جید علماء اور قائدین اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کی تصویریں اور بیانات ملک بھر میں عوام الناس تک پہنچتے ہیں۔
اس کے مفید اثرات کو ہمارے اس دعوے کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 1995ء میں جس طرح کے تکفیری اور نفرت انگیز نعرے پاکستان کی در و دیوار پر لکھے ہوئے دکھائی دیتے تھے، اب نہیں دیتے۔ بعض جماعتوں کے اجتماعات میں بھی یہ نعرے زور و شور سے لگائے جاتے تھے۔ اب وہاں بھی یہ سلسلہ تھم چکا ہے۔ اس کے پیچھے ملی یکجہتی کونسل اور اس کی ہم فکر جماعتوں اور قائدین کی ہمت آفریں، دور اندیشانہ اور مخلصانہ کوششوں کو تاریخ ہرگز نظر انداز نہیں کرے گی۔ عوام کے اندر بھی اس کی تاثیر دیکھی جاسکتی ہے۔ اگرچہ غلط فہمیوں کے ازالے اور ہر مکتب فکر کے اندر موجود نفرتیں پھیلانے والوں اور بدتہذیب خطیبوں اور ذاکروں کی روک تھام کا سلسلہ جاری رہنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی طرف سے اب ایسے منبر نشینوں کے خلاف خود بھی ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسے افراد کے خلاف خود ان کے مسالک کے لوگوں کی طرف سے قانونی کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ یہ سب صورت حال یقینی طور پر حوصلہ افزا ہے۔
ملی یکجہتی کونسل نے بڑے پیمانے پر عوامی اجتماعات بھی منعقد کیے ہیں۔ ملک کے عظیم مرکز کنونشن سنٹر اسلام آباد میں اس سلسلے کا ایک تاریخی اجتماع 2012ء میں مرحوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں منعقد ہوا۔ اس نے اتحاد کی دعوت کو تحریک اتحاد میں بدلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور اب 9 برس بعد گذشتہ روز (24 اکتوبر2021ء) کو ایک مرتبہ پھر یہ کنونشن سنٹراتحاد پر ایمان رکھنے والے عوام اور قائدین سے چھلک رہا تھا۔ خواتین و حضرات کی آمد کے سلسلے تھے کہ رکنے کو نہ آتے تھے۔ ہال کے اندر تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی تھی اور باہر بھی اتنی ہی تعداد میں عوام موجود تھے۔ سنٹر کے اندر اوپر کی منزل پر تو حالت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ نشستیں ختم ہوچکی تھیں اور خواتین وحضرات کی ایک بڑی تعداد سیڑھیوں میں بیٹھی تھی۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے شرکت کرکے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تفریق کی قوتوں کو پیغام دیا کہ ہم تمھارے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ ہمارے پائوں مضبوط ہیں، ہمارے ارادے قوی ہیں، ہماری نگاہیں بلندیوں پر ہیں ، ہم دین اسلام کی عظمتوں کے امین بھی ہیں، پاسبان بھی اور علمبردار بھی۔ ہم اسلام کا روشن چہرہ پوری دنیا پر آشکارکرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم پرچم توحید کے نیچے پوری انسانیت کو جمع کرنے کا ایمانی ارادہ رکھتے ہیں اور ہم اسلام کے روشن مستقبل پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ عظیم الشان کانفرنس جو “عشق پیغمبر اعظمؐ اور مرکز وحدت مسلمین” کے عنوان سے ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہوئی، اس کی میزبانی مجلس وحدت مسلمین کے حصے آئی، جس نے اعلیٰ سطح کی میزبانی کا حق ادا کردیا۔ اس کانفرنس کے اثرات یقینی طور پر پورے ملک تک پہنچیں گے اور تاریخ لکھنے والے اتحاد و اتفاق کی جدوجہد کا اسے سنگ میل قرار دیں گے۔ اس کے لیے شب و روز صرف کرنے والے اسلام کے سپاہیوں اور وحدت کے داعیوں کی خدمت میں ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ تفصیلات کسی اگلے مرحلے میں عرض کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز