خوف خدا کی توفیق…نعمت الٰہی

Published by fawad on

ڈاکٹر ناصر زیدی

ڈاکٹر ناصر زیدی
سورۃ رحمان کی آیت ۴۶ میں ارشاد ہوتا ہے:وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ یعنی جو شخص مقام پروردگار سے خوف کھائے گا اس کو دو جنتیں عطا کی جائیں گی یا جنت کے دو باغ عطا کیے جائیں گے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں مقام پروردگار سے مراد اس کا مقام عدالت ہے کیونکہ خدا کی ذات ایسی نہیں ہے جس سے خوف کھایا جائے بلکہ انسان اس کے عدل و انصاف سے خوفزدہ ہوتا ہے اور اس کے عدل سے خوف کھانے کا مطلب انسان کا اپنے اعمال سے خوف کھانا ہے کیونکہ اگر انسان کے اپنے اعمال درست ہوں تو اسے اپنا حساب دینے میں بھی خوف محسوس نہیں ہوگا۔

آگاہی و معرفت، خوف کی بنیاد
اس آیت میں جب مقام پروردگار سے خوف کی بات کی جارہی ہے تو اس کا مطلب ایسا خوف ہے جو آگاہی و معرفت کی بنیاد پر استوار ہو کیونکہ جب تک مقام پر وردگارکی معرفت حاصل نہیں ہو گی اس وقت تک اس کے مقام سے خوف نہیں کھایا جاسکتا۔ پھر جب خوف خدا کی بات آتی ہے تو خوف خد میں آنسو بہانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے لیکن قرآن مجید نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس نکتے کی وضاحت کی ہے۔ ارشاد ہوتا:
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (۱)
جب وہ رسول پر نازل ہونے والی آیتوں کو سنتے ہیں تو اس حقیقت کے ادراک کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔

حق و حقیقت کی معرفت حاصل کرنے کی وجہ سے ان لوگوں کی آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ البتہ جب خوف خدا کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے تو اس سے مراد انسانوں میں ایک دوسرے سے پایا جانے والا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے رب کے خوف میں اس کی عظمت اور اس کی شان و شوکت کا ادراک بھی شامل ہوتا ہے اور اس کی ذات سے محبت و وابستگی کا احساس بھی موجود ہوتا ہے۔ پس یہاں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اگر آنسوئوں کی بنیاد آگاہی و معرفت ہو تو یہ انسان میں کمال و ارتقا کی علامت ہے۔

خوف الٰہی کی حدود
حضرت لقمان اپنے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بیٹا! تمھیں اپنے اللہ سے اس طرح خوف کھانا چاہیے کہ جن و انس کی عبادت بھی تمھیں مطمئن نہ کر سکے اور اللہ کے فضل و کرم سے اسی طرح امید رکھ کہ جن و انس کا گناہ بھی تجھے مایوس نہ کر سکتے(۲)
گویا حضرت لقمان اپنے فرزند کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تو پوری کائنات کے جن و انس کی عبادت جتنی عبادت کرنے بھی لگ جائے تو بھی تجھے اپنی عاقبت کی طرف سے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے اور اگر تو پوری کائنات کے جن و انس کے گناہوں جتنا گناہ بھی کرنے لگ جائے تو بھی تجھ کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:
کسی بھی شخص کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ اپنے اعمال پر انحصار کرے بلکہ انسان کو صرف اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت پر انحصار کرنا چاہیے۔(۳)
اسی لیے امام سجادؑ اپنی ایک دعا میں فرماتے ہیں:
فانہ لا طاقۃ لنا بعد لک (۴)
پروردگارا! ہم میں تیرے عدل کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
طلب رحمت، مقصد خلقت انسان
قرآن مجید میں انسان کی خلقت کے مرحلہ وار تین بنیادی اہداف بیان کیے گئے ہیں۔ پہلا ہدف عبادت ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔(۵)
اور ہم نے جن و اِنس کو پیدا نہیںکیا مگر اس لیے کہ وہ عبادت کریں۔
دوسرا مقصد امتحان الٰہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۶)
اللہ وہ ہے کہ جس نے موت و حیات کو خلق کیا تاکہ تمھارا امتحان لے سکے کہ تم میںسے کون اچھا عمل انجام دیتا ہے۔
قرآن مجید نے تخلیق انسان کا تیسرا مقصد رحمت پروردگار کا حصول بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَO اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ۔۔۔(۷)
اگر تمھارا خدا چاہتا کہ سارے لوگوں کو متحد کردے تو وہ ایسا کر سکتا تھا لیکن لوگ اسی طرح اختلاف کرتے رہیں گے مگر وہ لوگ جنھیں اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور اسی لیے اللہ نے انھیں خلق کیا ہے۔۔۔

خوف خدا کا اعلیٰ ترین درجہ
بعض مفسرین نے زیر بحث آیت کی تفسیر میں ایک باریک نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب مقام رب سے خوف کی بات کی جاتی ہے تو وہاں ایسے خدا سے خوف کھانے کی بات نہیں کی جاتی جس کے پاس جہنم بھی ہے کہ اس کی عبادت جہنم کے خوف سے کی جائے اور نہ ہی ایسے خدا سے خوف کی بات کی جاتی ہے کہ جس کے پاس جنت کی نعمت ہے کہ انسان یہ سوچنے لگ جائے کہ اگر میں نے خدا کی عبادت نہ کی تو ایسا خوف ہے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور اس کے ہر جگہ پر حاضروناظر ہونے کے ادراک کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ خوف ہے جو انسان میں خدا کی عظمت و بزرگی کے مقابلے پر خود کو حقیر اور پست سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں اللہ نے ملائکہ کے خوف کو سراہا ہے جبکہ ملائکہ کو تو جہنم میں جانے کا خوف ہی نہیں ہے کہ وہ اس وجہ سے اللہ کی عبادت کریں۔ارشاد ہوتا ہے:
یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ (۸)
وہ اپنے سے بالا اپنے پروردگار سے خوف کھاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خوف کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کا تعلق اور صرف اللہ کی کبریائی اور ان کے جاہ و جلال سے ہے ۔ اس قسم کے خوفکے نتیجے میں جو عبادت کی جاتی ہے وہ اپنی اصل روح کے ساتھ انجام پاتی ہے کیونکہ عبادت و پرستش کا اصل فلسفہ یہی بیان ہوا ہے کہ انسان ہر بزرگ ہستی کے سامنے جھکنا چاہتا ہے۔


حواشی
۱۔ مائدہ: ۸۳
۲۔ اربعین امام خمینی، ص ۲۲۱
۳۔ اربعین امام خمینی، ص ۲۲۶
۴۔ صحیفہ سجادیہ۔دعا، ۱۰
۵۔ الذاریات:۵۶
۶۔ الملک:۲
۷۔ ھود:۱۱۸و۱۱۹
۸۔ النحل:۵۰

یہ بھی پڑھیں: عقیدۂ توحید کے معاشرتی اثرات https://albasirah.com/urdu/aqeeda-tauheed-ky-asrat/