حضرت فاطمہ زہراؑ اوراکابر اسلام
انتخاب و ترجمہ: سید ثاقب اکبر
ذیل میں چند اکابر اسلام کی کتب میں سے منتخب روایات و احادیث اوراقوال پیش کیے جارہے ہیں جن سے حضرت فاطمہ زہراؐ کے مقام و منزلت کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔
امام احمد ابن حنبل
اہلِ سنت کے چار مشہور ترین اہلِ مذاہب میں سے ایک اور حدیث کے بہت بڑے امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کی تیسری جلد میں اپنی خاص اسناد کے ذریعے سے خادم رسولؐ مالک بن انس سے روایت کی ہے:
’’رسول اسلامؐ چھ ماہ تک ہر روز نماز صبح کے لئے جاتے ہوئے حضرت فاطمہؑ کے گھر کے پاس سے گزرتے اور فرماتے: نماز! نماز! اے اہلِ بیت !یہ کہہ کر آپ پھر اس آیت کی تلاوت کرتے:
’’اِنَمَا یُرِید اللہ لِیُذھِبَ عِنکُم اَلّرِجسِ اَھل البَیت وَ یطھر کُم تَطْھِیْراً ‘‘
(اے اہلبیت! اللہ کا تو بس یہی ارادہ ہے کہ تمھیں ہر ناپاکی سے دور رکھے اور تمھیں خوب پاک و پاکیزہ رکھے۔)
امام بخاری
حدیث کے معروف امام ابو عبداللہ محمد اسماعیل بخاری اپنی صحیح کی جلد۵ باب فضائل صحابہ میں اپنی اسناد سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِؐ اسلام نے فرمایا: فاطمہ میرا پارہ تن ہے جس نے اُسے غضبناک کیا اُس نے مجھے غضبناک کیا۔
امام بخاری نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:
’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اُسے غضبناک کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ (ج۔۶)
پانچویں جلد میں انھوں نے آنحضرتؐ کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے:
الفاطمۃ سیدۃ نساء اھلِ الجنّۃ
فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
امام مسلم
صحاح ستہ میں سے دوسری اہم کتاب صحیح مسلم سمجھی جاتی ہے۔ امام مسلم بن حجاج (م۲۶۱ھ) اپنی اس صحیح میں کہتے ہیں:
’’فاطمہؑ رسولؐ کے جسم کا ٹکڑا ہے ،جو انھیں رنجیدہ کرتا ہے وہ رسولؐ اللہ کو رنجیدہ کرتا ہے اور جو انھیں خوش کرتا ہے وہ رسولؐ اللہؐ کو خوش کرتا ہے۔‘‘
امام ترمذی
امام ترمذی کی سنن بھی صحاح ستہ میں شامل ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں:
حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سے رسولؐ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟
انھوں نے جواب دیا: فاطمہ
پھرپوچھا گیا: مردوں میں سے؟
کہنے لگیں: ان کے شوہر علی۔
خطیب بغدادی
احمد بن علی المعروف خطیب بغدادی پانچویں صدی کے مورخ اور محقق ہیں۔ ’’تاریخ بغداد اور مدینۃ الاسلام‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں وہ حسین بن معاذ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنی اسناد کے ذریعے حضرت عائشہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلامؐ نے فرمایا:
روز محشر برپا ہوگا کہ ایک آواز آئے گی:
اے لوگو! اپنی نظریں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزرجائیں۔
ایک اور روایت میں وہ نقل کرتے ہیں:
ایک پکارنے والا روز محشر ندا دے گا: اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں
علامہ قندوزی
علامہ سلیمان قندوزی اپنی کتاب ینا بیع المودّۃ میں اپنی اسناد سے انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں:
نماز فجر کے وقت ہر روز رسولؐ اللہ حضرت فاطمہؑ کے گھر کے دروازے پر آتے اور گھروالوں کو نماز کے لئے پکارتے اور یہ آیت تلاوت کرتے:
اِنَّمَایُریدُاللہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرٍجسَاَھَلَ البَیِتِ ویُطَھِّرَ کُم تَطھِیرا
اور یہ سلسلہ نو ماہ تک جاری رہا۔
(سطور بالا میں مذکور ایک روایت میں چھ ماہ آیا ہے)۔
علامہ قندوزی یہ روایت درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
یہ خبر تین سو صحابہ سے روایت ہوئی ہے۔
امام ابو دائود
ابو دائود سلیمان بن طیالسی کی کتاب حدیث کی قدیم اور اہم ترین کتابوںمیں سے شمار ہوتی ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں:
علی ابن ابی طالب نے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے کہ میں اپنے بارے میں اور فاطمہ بنتِ رسولؐ کے بارے میں کچھ کہوں؟
[پھر حضرت علیؑ فرمانے لگے:]وہ اگرچہ رسول اللہؐ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں تاہم میرے گھر میں چکی زیادہ پیسنے کی وجہ سے ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا ، پانی زیادہ اٹھانے کی وجہ سے آپ کے کندھے پر بھی ورم آگیا تھا اور جھاڑو دینے اور گھر کی صفائی کی وجہ سے ان کا لباس بوسیدہ ہوگیا تھا۔ ہم نے سنا کہ رسولؐ اللہ کے پاس کچھ خادم ہیں۔ فاطمہ اپنے بابا جان کے پاس گئیں تاکہ اُن سے کچھ مدد طلب کریں اورآنحضرتؐ سے گھرمیں مدد کے لئے کوئی خادم مانگ لیں لیکن جب اپنے بابا جان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے وہاں چند جوانوں کو دیکھا۔ انھیں بہت حیا آئی کہ اپنی درخواست بیان کریں۔ وہ کچھ کہے بغیر لوٹ آئیں۔(سنن ابی دائود ، ج ۲)
حاکم نیشاپوری
’’مستدرک علی الصحیحین‘‘ امام حاکم نیشاپوری کی مشہور کتاب ہے۔وہ اس میں نقل کرتے ہیں:
رسول اللہؐ نے اپنے مرض موت میں حضرت فاطمہ سے فرمایا:
بیٹی! کیا تم نہیں چاہتی کہ امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنو؟
امام رازی
تفسیرکبیر کے مصنف امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں سورہ کوثر کے ذیل میں اس سورہ مبارکہ کے بارے میں متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’کوثر‘‘ سے مراد ’’آل رسول‘‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں:
یہ سورت رسول اسلام کے دشمنوں کے طعن وعیب جوئی کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی۔ وہ آپ کو ’’ابتر ‘‘یعنی بے اولاد، جس کی یاد باقی نہ رہے اور مقطوع النسل کوکہتے تھے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرتؐ کو ایسی پُربرکت نسل عطا کرے گا کہ زمانے گزرجائیں گے لیکن وہ باقی رہے گی۔ دیکھیں کہ خاندان اہل بیت میں سے کس قدر افراد قتل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دنیا خاندانِ رسالت اورآپؐ کی اولاد سے بھری ہوئی ہے جبکہ بنی امیہ کی تعداد کتنی زیادہ تھی لیکن آج ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص وجود نہیں رکھتا۔ ادھر ان (اولاد رسولؐ) کی طرف دیکھیں باقر، صادق، کاظم، رضا وغیرہ جیسے کیسے کیسے اہل علم ودانش خاندان رسالت میں باقی ہیں ۔ (تفسیر فخرالدین رازی، ج ۳۲،ص۱۴۴ مطبعہ بہیہ، مصر)
ابن ابی الحدید
عبدالحمید ابن ابی الحدید معروف معتزلی عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ہیں ، وہ لکھتے ہیں: رسولؐ اللہ لوگوں کے گمان سے زیادہ اور لوگ اپنی بیٹیوں کا جتنا احترام کرتے تھے اس سے زیادہ حضرت فاطمہ کی عزت کرتے تھے، یہاں تک کہ آباء کو اپنی اولاد سے جو محبت ہوتی ہے رسول اللہؐ کی حضرت فاطمہ سے محبت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ آپؐ نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار، مختلف مقامات پر اور مختلف الفاظ میں، عام و خاص کی موجودگی میںفرمایا:
اِنَّھَاسَیدَۃُ نِسَائِ العَالمِین وَ اِنّھَا عَدیلَۃُ مریم بنت عمران وانھا اذامرت فی الموقف نادی مناد من جھۃِ العرش: یا اھل الموقف غضوا ابصارکم لتعبر فاطمہ بنت محمد‘‘
فاطمہ سب جہانوں کی عورتوںکی سردار ہیں۔ وہ مریم بنت عمران کا درجہ رکھتی ہیں، وہ جب میدان حشرمیں سے گزریں گی تو عرش سے ایک منادی کی آواز بلند ہوگی: اے اہل محشر! اپنی آنکھیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزرجائیں۔
ابن صباغ مالکی
نامور عالم ابن صباغ مالکی کہتے ہیں:
ہم آپ کی چند اہم خصوصیات ، نسبی شرافت اور ذاتی خوبیاں بیان کرتے ہیں:
فاطمہ زہرا اس ہستی کی بیٹی ہیں جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:’’سبحان الّذی اسریٰ بعبدہ‘‘ (پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی) ۔ آپ بہترین انسان کی بیٹی ہیں اور پاک زاد ہیں ۔گہری نظر رکھنے والے علماء کا اس پراجماع اور اتفاق ہے کہ آپ عظیم خاتون ہیں۔ (الفصول المہمہ، طبع بیروت ،ص۲۱۴۳)
حافظ ابونعیم اصفہانی
حلیۃ الاولیاء کے مصنف معروف عالم حافظ ابونعیم اصفہانی لکھتے ہیں: حضرت فاطمہ برگزیدہ نیکوکاروں اور منتخب پرہیزگاروں میں سے ہیں۔ آپ سیدہ بتول، بضعتِ رسول اور اولاد میں سے آنحضرتؐ کو سب سے زیادہ محبوب اور آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد آپؐ کے خاندان میں سے آپؐ سے جاملنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ آپ دنیا اور اس کی چیزوں سے بے نیاز تھیں۔ آپ دنیا کی پیچیدہ آفات وبلایا کے اسرارور موز سے آگاہ تھیں۔ (حلیۃ الاولیاء طبع بیروت ج ۲،ص۱۳۹)
توفیق ابوعلم
استاد توفیق ابو علم مصر کے معاصر علماء محققین میں سے ہیں۔ انھوں نے ’’الفاطمۃ الزہرا‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
فاطمہ اسلام کی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ہیں۔ ان کی عظمت شان اور بلند مرتبہ کے بارے میں یہی کافی ہے کہ وہ پیغمبراعظمؐ کی تنہا دختر ،امام علی ابن ابی طالب کی شریک حیات اور حسن وحسین کی والدہ ہیں۔ درحقیقت رسول اللہ کے لئے آرام جاں اور دل کا سرور تھیں۔ زہرا وہی خاتون ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے دل جن کی طرف جھکتے ہیں اور جن کا نام گرامی زبان پر رہتا ہے۔ آپ وہی خاتون ہیں جنھیں آپ کے والد نے ’’اُم ابیھا ‘‘ کہا۔ عظمت واحترام کا جو تاج آپ کے والد نے اپنی بیٹی کے سرپررکھا ، ہم پر آپ کی تکریم کو واجب کردیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
یہ بھی پڑھیں: حضرت فاطمہ زہراؑ امام خمینی ؒکی نظر میں
https://albasirah.com/urdu/hazrat-fatima-zahra/
Share this content: