Skip to content

برصغیر کے شیعہ علماء کی تفسیری تالیفات

اس امر کا تعین کہ برصغیر میں سب سے پہلی تفسیر کب لکھی گئی، ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ برصغیر کے لوگوں کا مدینہ منورہ کے مرکز اسلام سے رابطہ، دوسری صدی ہجری سے شروع ہوا۔ مسلمان تاجروں کی مدینہ آمد و رفت اس بات کا موجب بنی کہ وہ دینی مسائل سے آشنائی حاصل کریں اور بعد میں یہ تاجر برصغیر میں سکونت پذیر ہوئے جس کے نتیجے میں منصورہ میں انہوں نے ایک حکومت تشکیل دی جس کا حاکم ایک عرب خاندان تھا۔ ۷۱۲؁ ع میں محمد بن قاسم کے برصغیر پر حملے کے بعد عمر بن عبد العزیز نے سندھ کے راجوں اور نوابوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو ان میں سے بہت سوں نے اس دعوت کو خوشی خوشی قبول کر لیا۔برصغیر کے شیعہ علماء کی تفسیری تالیفات

قرآن اور عقل

قرآن حکیم کی دعوت کا رخ عقل انسانی کی طرف ہے۔اس نے فکر کو اپیل کی ہے اور عقل کو حرکت میں آنے کی دعوت دی ہے۔قرآن حکیم کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کوئی بات خواہ کائنات سے متعلق ہو یا انسان سے،اخلاق سے متعلق ہویا تاریخ سے،عقائد سے متعلق ہو یا احکام سے قرآن حکیم اسے عقل کے پیمانے پر پرکھتا ہے اور اسی معیار پر اسے قبول یا رد کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک اس کی تعلیمات کی سچائی کا انحصار عقل پر ہے اور ان کی سچائی کا پیمانہ عقل ہے۔شاید یہ معلومات قارئین کی نظر میں مفید ہوں: قرآن حکیم میں تقریباً ستر مقامات پر حجیّت عقل کی طرف اشارہ ہوا ہے یعنی عقل کو حق و باطل، سچ جھوٹ اور صحیح وغلط کے پرکھنے کے لئے کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔قرآن اور عقل

انسان،کائنات اور قرآن

مدیر اعلی:

انسان اگر اشرف مخلوقات ہے اور اگر اس کا وجود کائنات میں حرکت وارتقا کے تسلسل کے نتیجے میں ہے تو پھر کائنات میں زمین سے ہٹ کر حیات کا وہ تصور جو اس زمین پرہے،کہیں اور بعید دکھائی دیتاہے۔’’انسان‘‘جوموجود کیفیت میں جسم وروح کی ترکیب سے تشکیل پایا ہے، کم ترحیات کی مختلف شکلوں اور جمادات کی مختلف صورتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ حیات کی کم ترشکلیں بھی جمادات کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ لہٰذا کہیں بھی اورایسی زندگی کے لیے ایسی ہی سرزمین اور حیات کی ایسی ہی کم تر شکلیں (نباتات وحیوانات ) اورجمادات کا ایسا ہی سلسلہ ناگزیر ہے۔زمین پوری کائنات سے جدا نہیں ہے۔ نظام شمسی سے اس کا مختلف حوالوں سے تعلق ہے۔ انسان،کائنات اور قرآن

دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو

دینی مدارس کے نصاب کے حوالے سے بحث کوئی نئی نہیں۔برصغیر میں سر سید احمد خان کی تحریک کے زمانے میں یہ بحث اپنے عروج پر جاپہنچی تھی۔ خود مدارس کے بزرگ علماء نے اس نصاب کے حوالے سے جو مقالے سپرد قلم کیے ہیں ان میں بھی اس نصاب کو بہتر بنانے کیلئے بہت عمدہ تجاویز موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بعض مدارس نے قابل تقلید اقدامات بھی کیے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب ، مصر اور ایران وغیرہ میں جدید اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام اسی حوالے سے ایک امید افزاء پیش رفت کی مثالیںہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی یونیورسٹیوں میں اصول فقہ، اسلامیات اور سیرت النبیؐ کے خصوصی شعبوں کا قیام بھی ان موضوعات پر جدید انداز سے تحقیقات اور مطالعات کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو

عدالت در نہج البلاغہ

عامر حسین شہانی
جامعۃ الکوثر اسلام آباد

مقدمہ:
نہج البلاغہ ایک ایسی منفرد کتاب ہے جو علم و حکمت کا بحر بیکراں ہے۔ یہ کتاب وارث منبر سلونی کی حکمت و دانائی سے پر کلام کا مجموعہ ہے۔نہج البلاغہ میں جن موضوعات پربہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے اورجنہیں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ان میں سے ایک اہم موضوع عدالت ہے۔
عدالت در نہج البلاغہ

مقام مصطفیﷺ حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں

عون محمد ہادی

خلاصہ تحقیق:حضرت محمدﷺ کائنات کے ہادی و رہبر اور تمام انبیاء کے سردار ہیں، جن کی معرفت اور پہچان ہر زمانے کے مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ سرور دوعالمؐ کا تعارف یاتو خدا کے کلام سےکروایا جانا چاہیے یا رسول اکرمؐ کےا قرباء کے اقوال سے۔ اہلبیتؑ میں سے برگزیدہ ترین ہستی اوررسالت مابؐ کےوصی وجانشین حضرت علیؑ نے اپنے مختلف خطبات کے اندر اپنے آقا و مولا کا تعارف کروایا ہے۔ ان کے خطبات و فرامین کا مجموعہ نہج البلاغہ ہے جو ہر خاص و عام کی نظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مقام مصطفیﷺ حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں

عقیدے کی بنیاد پر قتل انسانیت کا قتل ہے

بحیثیت مسلمان اور ہاشمی النسب انسان، میری نظر میں ناپسندیدہ ترین عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنا اور ختمی مرتبتﷺ کے بعد کسی انسان کی نبوت کا قائل ہونا ہے۔ خواہ اسے بعدہ مسیح موعود یا مہدی موعود کہہ کر اپنے بنیادی دعوے کو چھپانے کی کوشش کی جائے۔ آئین پاکستان میں بھی اسی لیے اس عقیدہ کے حامل شخص کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے، تاہم اس نظریہ اور عقیدہ کے باوجود میرا دین یعنی دین اسلام (سلامتی) مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک ناپسندیدہ عقیدے کے سبب کسی بھی انسان کے جان و مال کو کوئی نقصان پہنچاؤں یا اس نقصان کی حمایت کروں، بلکہ اس کے برعکس میرا دین مجھے حکم دیتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘، کوئی شخص کافر ہو یا مشرک، یا اسی طرح کسی بھی دوسرے مذہب اور عقیدے کا حامل، اس سے عقیدتی اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ میں ایسے شخص کے جان و مال کو اپنے لیے مباح سمجھنے لگوں۔عقیدے کی بنیاد پر قتل انسانیت کا قتل ہے

پیام فروری2021

قائد اعظم اور کشمیر

محمد صادق جرال
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ان کی اہمیت کا اعتراف مخالفین بھی کرتے تھے ۔ قائد اعظم غیر معمولی انسان تھے۔ انہوں نے منتشرالخیال مسلمانوں کو یکجاء کیا۔ بیک وقت ہندو کی عیاری اور انگریز کی مکاری کا مقابلہ کیا۔ حسن سیرت اور کردار کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے ثابت کر دیا کہ ایک لیڈر اور سیاسی رہنماء کی زندگی بھی بے عیب ہو تی ہے۔ آپ کی صاف گوئی ، قوت فیصلہ اور جرأت نہیںمسلمانوں میں قومیت کا حقیقی شعور پیدا کیا۔ چرچل اور گاندھی کی چالوں کا صاف گوئی سے مقابلہ کیا۔ جھوٹی سیاست کو صاف ستھری سیاست سے مات دی۔ انہوںنے ثابت کیا کہ بڑے وسائل اور طاقتور حکمرانوں کا مقابلہ کم وسائل عزم اور یقین کامل سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے جیل جائے ، لاٹھی مارے اور کھائے بغیر آزادی کی جنگ آئینی حدود میں رہتے ہوئے لڑ کر مخالفین کو شکست دی۔
قائد اعظم اور کشمیر

پیام فروری2021

علامہ اقبال ، قائداعظم اور کشمیر

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

مصوّرِ پاکستان ، دانائے راز، حکیم الامت، ڈاکٹر علامہ محمدا قبال نے 1930ء میں برعظیم پاک و ہند کے لا تعداد مسائل کا حل خطبۂ الٰہ آباد ” میں پیش کیا۔ علامہ محمد اقبال کا تعلق کشمیر سے تھا ، اس لئے وہ کشمیر اور اہلِ کشمیر کے تمام مسائل کو سمجھتے اور اُن کا حل تلاش کرنے میں معاونت کرتے رہے۔ چودھری رحمت علی نے علامہ اقبال کے خواب کو پاکستان کا نام دیا۔ اس جغرافیائی وحدت میں پنجاب ، سرحد، بلوچستان ، سندھ اور کشمیر کے علاقہ جات ہیں۔
علامہ اقبال ، قائداعظم اور کشمیر

پیام فروری2021

مسئلہ کشمیر

مصنفہ: پروفیسر ڈاکٹر اویا ایکگوننج
بانی رکن سعادت پارٹی سابق ممبر قومی اسمبلی

تنازعہ کی ابتدا :
دُنیا میں کئی ایسے مسائل موجود ہیں جو کہ دہائیوں سے حل طلب ہیں ، ان میں سے ایک مسئلہ کشمیر ہے- دُنیا کی اخلاقی، سماجی، قانونی ، معاشی اور اسٹریٹیجک اقدار ، اور اس کی ضروریات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں تاہم پرانے تنازعات جمود کا شکار ہیں – اس وجہ سے کشمیری عوام ، پاکستان اور دیگر علاقوں میں بسنے والے اُن کے عزیز و اقارب کی جانب سے اپنی خوشی سے دی جانے والی عظیم قربانیوں سے متنازعہ علاقہ کے اندر اور باہر بسنے والی نئی نسل ناواقف ہے- اگرچہ دنیا میں رونما ہونے والی ہر بڑی تبدیلی ان کی حیثیت کو تبدیل کر دیتی ہے
مسئلہ کشمیر

پیام فروری2021

مسئلہ کشمیر: کب کیا ہوا؟

گذشتہ 72 سالوں میں کشمیر میں کیا ہوا؟

تحریر: سجاد اظہر

14-15 اگست 1947: برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
مسئلہ کشمیر: کب کیا ہوا؟

پیام فروری2021

اعلامیہ آل پارٹیز کشمیر کانفرنس

30 اپریل 2014

٭ یہ کانفرنس مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور مسلمہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے ان کی عظیم اور لازوال جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔
٭ کانفرنس مقبوضہ جموں وکشمیر کی حقیقی ترجمان آزادی پسند قیادت کے کردار کو سراہتی ہے جو وہ تحریک آزادی کشمیر کو اس کے حقیقی تناظر میں کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے قوی اور بین الاقوامی سطح پر ادا کررہے ہیں۔
اعلامیہ آل پارٹیز کشمیر کانفرنس