آذربائیجان ۔برادر مسلم مملکت
یہ آرٹیکل مئی 2009 ماہنامہ پیام میں شائع ہوا
خواجہ شجاع عباس (مرحوم)
28مئی جمہوریہ آذربائیجان قومی دن کے طور پر مناتا ہے۔اس دن 1918 میں آذربائیجان نے روس سے اپنی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت آذربائیجان دو سال سے زیادہ عرصے تک اپنی آزادی کوبرقرار نہ رکھ سکا کیونکہ ماسکو میں برسراقتدار آنے والی اشتراکی انتظامیہ نے پھر سے آذربائیجان پر قبضہ کیا۔ 70سال گزرنے کے بعد، سویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے سے، آذربائیجان 18اکتوبر 1991 میں پھر سے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ مکمل آزادی کے حصول سے ایک سال پہلے یعنی 1990 میں آزادی کے حق میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں عظیم عوامی اجتماعات منعقد ہوئے۔ سویٹ یونین کی افواج نے حریت پسندی کے رجحانات کو کچلنے کے لئے منعقد ہونے والے پرامن عوامی اجتماعات کو اپنی بربریت کانشانہ بناتے ہوئے بہت سارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
آذربائیجان کوہ قاف کے جنوبی ڈھلوان پر واقع ہے۔ آذربائیجان کے مشرق میں بحیرہ قذوین اور جنوب میں اسلامی جمہوریہ ایران واقع ہے۔ آذربائیجان کے شمال میں روس کا علاقہ داغستان واقع ہے جبکہ شمال مغرب میں جارجیا اور مغرب میں آرمینیا واقع ہے۔ آذربائیجان کا ایک خطہ نخجوان جغرافیائی لحاظ سے باقی آذربائیجان سے کٹا ہوا ہے۔ نخجوان کے شمال اور شمال مشرق میں ارمینیا، جنوب میں ایران اور شمال مغرب کے کونے پر ترکی واقع ہے۔ نخجوان اور باقی آذربائیجان کے درمیان ارمینیا کی جنوبی پٹی حائل ہے۔
پاکستان اور آذربائیجان میں مثالی دوستانہ تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد اس وقت پڑ گئی تھی جب آذربائیجان کے مکمل آزاد ہونے کا اعلان کے ساتھ ہی پاکستان نے آذربائیجان کو آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا ۔ آذربائیجان کو آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرنے والا پاکستان دوسرا ملک تھا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔پاکستان کوہستان قرہ باغ کے مسئلے پرآذربائیجان کے موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ آذربائیجان کے اس علاقے پر ناجائز طور پر قابض ہونے کی وجہ سے پاکستان نے آج تک آرمینیا کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے ہیں۔ آذربائیجان نے بھی بین الاقوامی فورموں پر اسی طرح ہر مسئلے پر پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھی ہے۔ سیاسی میدان میں انتہائی خوشگوار تعلقات کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں فوجی میدان میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا آغاز ہوگیاہے۔ آذربائیجان پاکستان سے JF-17جنگی طیارے بھی خریدنے جارہا ہے۔
1991 میں آزاد ہونے کے ساتھ ہی آذربائیجان کو انتہائی برے حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آرمینیا ،آذربائیجان کے قرہ باغ پر حملہ کرکے وسیع آذری علاقوں پر قابض ہوگیا۔ یہ جنگ تین سال تک جاری رہی۔ مقبوضہ قرہ باغ سے 10لاکھ آذری شہریوں کو بے دخل کی گیا۔ یہ لوگ آذربائیجان کے دوسرے آذری علاقوں میں پناہ گزینوں کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے۔ دوسری طرف آذربائیجان آزادی کے فوراً بعد سیاسی عدمِ استحکام کابھی شکاررہا۔ 1994 میں آرمینیا کے ساتھ جنگ بندی ہوگئی۔ سیاسی عدمِ استحکام پر بھی آہستہ آہستہ قابو پایا گیا۔ اس کے بعد آذربائیجان تیزرفتاری سے ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔ 2006ء میں آذربائیجان دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن گیا۔ اس سال ملکی پیداوار (GDP) میں 36.4%اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2005 میں ملکی پیداوار میں اضافے کی شرح 26.4%تھی۔ اس سال یعنی 2007 کی پہلی چوتھائی میں یہ شرح 41.7%رہی ہے۔ آذربائیجان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ معدنی تیل کی فرخت سے حاصل ہوتا ہے۔ اقتصادی ترقی کے حوالے سے سب سے بڑا اور قابل ذکر کارنامہ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو اور بحیرۂ اسود میں ترکی کی بندرگاہ سیہان کے درمیان (براستہ جارجیا) بچھائی جانے والی پائپ لائن ہے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے روزانہ دس لاکھ بیرل خام تیل برآمد کیا جاسکتا ہے۔ آذربائیجان کے میدانی علاقے زرعی پیداوار کے لئے بہت ذرخیز ہیں۔ زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لئے بھی کافی توجہ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں اس میدان میں بھی حیرت انگیز ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ 1994 میں آذربائیجان میں افراطِ زر کی شرح 1800%کی خطرناک حدوں کو چھورہی تھی جو گھٹتے گھٹتے 2000 میں صرف 1.8%رہی۔
آذربائیجان نے قومی فوج کی تشکیل اور جنگی سامان کی اندرونِ ملک تیاری کے میدان میں بھی بہت پیشرفت کی ہے۔ اس کا ایک سبب آذادی کے فوراً بعدآرمینیا کی جارحیت کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں آرمینیا نے 15%آذربائیجانی علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ آزادی کے وقت آذربائیجان کے پاس فوج نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس وقت آذربائیجان کے پاس ایک لاکھ اور بیس ہزار اعلیٰ تربیت یافتہ زمینی فوج ہے جس میں پندرہ ہزار چھاتہ بردار فوج بھی شامل ہے۔آذربائیجان نے اپنی فوج کی تشکیل بدترین حالات سے نمٹنے کے اصول پر کی ہے۔ آذربائیجان بار ہا اس بات کو دہرا چکا ہے کہ اگر آرمینیا مذاکرات سے ہمارا مقبوضہ علاقہ چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوا تو ہماری فوج بزورِبازو اس کو آزاد کرانے کے لئے آمادہ ہے۔اس وقت آذربائیجان کے پاس 8ہزارافراد پر مشتمل فضایہ بھی ہے جس کو زمینی فوج کی طرح جدیدترین سامانِ حرب سے آراستہ کیا گیا ہے۔ پہلے بھی بتایا گیا کہ آذربائیجان پاکستان سے بھی JF-17جنگی طیارے خریدنے والا ہے۔ 1995 میں آذربائیجان نے مقامی طور پرجنگی سازوسامان بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر دفاعی صنعت کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس میدان میں ترکی، یوکرائین ، پاکستان اور امریکہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر تعاون کے نتیجے میں خاص پیشرفت ہوئی ہے۔
اپنی فوج کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں آذربائیجانی حکومت کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی۔اس مقصد کی خاطر وہ خطیر رقم دفاع پر خرچ کرتی ہے۔2009ء میں آذربائیجان کا دفاعی بجٹ 2ارب اور 46کروڑ امریکی ڈالر ہے ۔اس وجہ سے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر مسئلہ قرہ باغ مذاکرات سے حل نہیں ہوسکا تو آذربائیجان کے غیور مسلمان بزور بازو اس مقبوضہ علاقے کو آزاد کرالیں گے ۔
آذربائیجان میں جمہوری وحدانی صدارتی نظام حکومت رائج ہے۔ صدر اور 50ممبروں پرمشتمل قانون ساز اسمبلی کو عوام رائے دہی سے منتخب کرتی ہے۔ آئینی لحاظ سے آذربائیجان ایک سیکیولر ریاست ہے جہاں دین اورحکومت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ تاہم عوامی نفسیات اور قومی شناخت میں دینِ اسلام گوندھا ہوا ہے۔آذربائیجان کا رقبہ 86600مربع کلو میٹر اور آبادی 85لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ 97فیصدلوگ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں میں75%بارہ امامی اور باقی حنفی مسلک کے پیروکار ہیں۔ آذربائیجان میں شیخ الاسلامی کا منصب بھی ہے۔ شیخ الاسلام مذہبی امور کو نمٹانے کے محکمہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ مساجد اور مدارس کی دیکھ بال اور نگرانی اسی محکمہ کی ذمہ داری ہے۔ شیخ الاسلام ایک طرح سے سرکاری دینی سربراہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آذربائیجان میں بزرگانِ اھلبیت کے کئی مزارات ہیں جو مرجع خلایق ہیں اور ایران ، عراق ، افغانستان وغیرہ سے بھی لوگ ان کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔آذربائیجان کی عوامی اور سرکاری زبان آذری ہے۔ آذربائیجان میں بولی جانے والی ترکی زبان کو آذری کہا جاتاہے۔
آخر میں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان قدیم اور عظیم آذربائیجان کے شمالی حصے پرمشتمل ہے جبکہ جنوبی آذربائیجان اسلامی جمہوری ایران میں شامل ہے۔ ایران میں آذری کل آبادی کا 25%ہیں۔قدیم آذربائیجان کا کچھ علاقہ ترکی کے پاس بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیٓں: ولادیمیر پیوٹن کی سالانہ پریس کانفرنس کے اہم نکات کا خلاصہ https://albasirah.com/urdu/vladimir-putin-early-press-conf/
Share this content: