عقیدہ توحید کی تبلیغ میں کمال احتیاط کی ضرورت

Published by fawad on

Shuja abbas


خواجہ شجاع عباس(مرحوم)
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے بعض شیعہ علماء نے ایک اشتہاری نوشتہ میں اپنے دستخطوں کے ساتھ شیعہ مسلمانوں کی طرف سے اسلامی عقیدہ توحید کا اعلان کیا تھا۔ محترم علماء کی طرف سے یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ ایک مدت سے بعض جاہل اور گمراہ عناصر کی طرف سے انتہائی قابل اعتراض مشرکانہ تصورات کی تبلیغ ہو رہی ہے۔اس لیے علماء کی طرف سے اس طرح کے اقدام کی سخت ضرورت تھی۔ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی علماء کرام اسلامی اعتقاد کا دفاع بڑی جرات مندی سے کرتے رہیں گے اور مشرکانہ تصورات اور بدعات و خرافات کا قلع قمع کرنے کے فریضے کی انجام دہی میں کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔

علماء دین سے بڑھ کر کون اس بات سے واقف ہوسکتا ہے کہ ایسے ہیں موضوعات پر بولتے یا لکھتے ہوئے غلطی سے بچنے کے لیے انتہا کی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمیں انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اشتہاری نوشتہ لکھتے ہوئے ایسی کوئی احتیاط نہیں برتی گئی ہے۔نوشتے میں ایسی باتیں لکھی گئیں جو علمی نقدو جرح کی کسوٹی پر صحیح نہیں اترتی ہیں۔

اشتہاری نوشتے میں قرآن پاک کی چھ آیات مبارکہ سے چھ باتیں اخذ کی گئی ہیں اور انہیں شرک باللہ اور صریح کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ذرا سے غور کرنے پر یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان چھ باتوں میں تین تو بے شک اور بلاشبہ شرک باللہ اور صریح کفر ہیں مگر دیگر تین باتوں کو علی الاطلاق شرک یا کفر قرار دینا قطعی غلط اور جسارت ہے۔جن باتوں کے شرک اور کفر ہونے میں شک کی گنجائش نہیں وہ یہ ہیں
(۱)اللہ کے سوا کسی کو اللہ کہنا
(ب)اللہ کے سوا کسی کو اللہ کے ملکوت و اقتدار میں شریک سمجھنا اور(ج)
اللہ کا ملکوت و اقتدار کسی کو تفویض اور سپرد کرنے کا عقیدہ رکھنا۔
جن دیگر تین باتوں کو غلط طور پر شرک باللہ اور صریح کفر سے تعبیر کیا گیا ہے وہ یہ ہے
(ا) اللہ کے سوا کسی کو رب کہنا
(ب)اللہ کے سوا کسی کو رازق کہنا
(ج)اللہ کے سوا کسی کو خالق کہنا۔

ہم مودبانہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ رب ،رازق اور خالق جیسے الفاظ صرف اللہ تبارک و تعالٰی سے مخصوص نہیں ہیں۔یہ اور بات ہے کہ حقیقی رب،حقیقی رازق اور حقیقی خالق صرف اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات پاک ہے یعنی ہر ربوبیت،رازقیت اور خالقیت کی منتہیٰ وہی ذات احدیت و صمدیت ہے۔اس کے باوجود ان الفاظ کا استعمال ،قرآن،حدیث اور دیگر متون اسلامی میں خدا کے سوا اوروں کے لیے بھی مجازاً ہوا ہے۔قرآن و حدیث میں ان لفظوں کا اس طرح کا استعمال فسطوتاً بھی ہو اہے اور مفہوماً بھی۔
لفظ رب کو لیجئے قرآن میں نبی اللہ حضرت یوسفؑ قید میں اپنے ساتھی کے مالک کے لیے لفظ رب استعمال کرتے ہیں۔قرآن میں موجود دعا ئیہ آیت کریمہ جس میں والدین کے لیے دعا کا بیان ہے میں بھی لفظ کماربایانی(یعنی جس طرح میرے ماں باپ دونوں میری ربوبیت کی)استعمال ہوا ہے۔اسی طرح حدیث و فقہ میںعورتوں کی ان اولادوں کے لیے جو اس کے پہلے شوہروں سے ہوں اور ان کی پرورش ان قوانین کے دوسرے شوہروں نے کی ہو کو ان کے ربیب کہا جاتا ہے۔ ربیب یا ربیبہ کے معنی پروردہ کے ہیں اور رب کے ایک معنی پروردگار(پرورش کنندہ)اور پالن ہار(پانے والے)کے ہیں۔

حضرت پیغمبرؐ اکرم کے کئی ایک ربیب اور ربیبہ تھیں۔ مثلاً عمر ابن ابو سلمہ ؑ نبیؐ پاک کے ربیب اور زینب بنت ابو سلمہ ربیبہ تھیں اور ان کی والدہ گرامی ام المومنین حضرت ام سلمہؑ تھیں۔حضرت ام سلمہ سے شادی کے بعد نبی پاک نے ان دونوں کی پرورش فرمائی تھی۔اسی طرح حضرت محمد ابن ابوبکر امام علیؑ کے ربیب (پروردہ)تھے۔کئی ایک ماثور دعائوں میں خدائے بزرک و برتر کو رب الارباب (ربوں کے رب)کے لفظوں سے مخاطب کیا گیا ہے اور اس میں بھی ارباب سے مراد وہ مخلوق خدا ہیں جو کسی نہ کسی طرح مجازی طور پر حاصل ربوبیت ہیں۔

اسی طرح قرآن کریم میں خدائے قدوس نے اپنے لیے خیرالرازقین اور احسن الخالقین جیسے القاب استعمال فرمائے ہیں۔خیرالرازقین کے معنی(عطا کرنے والوں)میں سب سے اچھا کے ہیں۔اگر خود اللہ تبارک و تعالی اپنی کتاب قرآن مجید اور فرقان حمید میں رازقین (رزق دینے والے)اور خالقین(خلق کرنے والے)کا اثبات کرتا ہے یا بالفاظ دیگر اپنی ذات احدیت و صمدیت کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے رازق اور خالق کا لفظ استعمال کرنا روا رکھا ہے تو ہم کیسے اس سے منع کر سکتے ہیں چہ جائیکہ اس کو شرک اور صریح کفر قرار دے دیں۔

یہ بھی پڑھیں: عقیدۂ توحید کے معاشرتی اثرات https://albasirah.com/urdu/aqeeda-tauheed-ky-asrat/

موضوع کو سمیٹتے ہوئے میں تاج محل کی مثال دوں گا ۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ شاہجہاں کو تاج محل کا خالق قرار دیا جائے نیز یہ بات بھی صحیح ہے کہ تاج محل کا نقشہ بنانے والے مہندس کو تاج محل کا خالق مانا جائے اور خون پسینا ایک کرنے والے ان مزدوروں اور کاریگروں کو بھی تاج محل کے خالقین کہا جاسکتا ہے جو اس کی تعمیر میں شریک رہے ہیں۔بیک وقت ان تینوں باتوں کے صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی حق ہوگا کہ تاج محل کا اصل اور حقیقی خالق اللہ تبارک و تعالٰی ہے۔تاج محل کی تخلیق میں کارفرما ملکہ ممتاز محل کے لیے شاہجہاں کی شدید محبت،شاہجہاں کی شخصیت میںجمالیاتی ذوق کی شدت،اس کا ارادہ اور اس کی حکومت و ثروت،تاج محل کا نقشہ بنانے والے مہندس انکی ذہانت اور کاریگروں اور مزدوروں کی مہارت طاقت و محنت ہرچیز کا حقیقی اور اصل خالق خدائے بزرگ و برتر ہے۔

ان معروضات کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں مرضیت اعتدال اور احتیاط کا دامن تھامے رہنا چاہیے تاکہ ہم مشرکانہ تصورات اور بدعات و خرافات کا استیصال کرتے وقت خارجیت اور نجدیت کی جہنم رساں گمراہیوں سے محفوظ رہیں۔
آمین ثمہ آمین یارب العٰلمین بحق محمد و آلہ طاہرین۔

نوٹ: یہ آرٹیکل 18فروری 2007 کو لکھا گیا۔