×

اکملیت فاطمہؑ کے بغیر تکمیل انسانیت ممکن نہیں

اکملیت فاطمہؑ کے بغیر تکمیل انسانیت ممکن نہیں

saqib akbar


(یوم ولادت جناب سیدہ فاطمہ الزھراء ؑ کی مناسبت سے خصوصی تحریر)

تحریر: سید ثاقب اکبر

ساری انسانیت اور ساری مخلوقات کی تخلیق کا منصوبہ اعلیٰ ترین اور کامل ترین مرد اور عورت کی تخلیق اور ظہور کے بغیر متصور نہیں۔ یہ جو قرآن حکیم میں ہے کہ ہر چیز انسان کے لیے مسخر کی گئی ہے۔ اس کے دو معانی یا مطالب بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ سارے عالمین کی تخلیق انسان کی وجہ سے یا ہمارے عام لفظوں میں، کے صدقے میں ہوئی ہے یا یہ کہ سارے عالمین یعنی آسمانوں اور زمین کو انسان کی خدمت میں لگایا گیا ہے۔ نتیجتاً دونوں باتیں ایک ہی ہیں۔ اگر انسان اشرف المخلوقات ہے اور کرامت و بزرگواری اس کی حقیقت کا حصہ ہے تو اس پہلو سے بھی بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: “لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“، یعنی “حسین ترین اور اعلیٰ ترین مقام خلقت انسان کو حاصل ہے۔”

ایک فلسفی کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ محمد مصطفیٰ(ص) کو ہی پیدا کر دیتا تو بھی کمال تخلیق وجود میں آجاتا۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ہم نے انسان کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اور پھر اس سے ایک مذکر اور ایک مونث وجود میں آئے۔ لہذا انسان کی تخلیق جس میں ذکر اور انثیٰ شامل ہیں، پہلے مرحلے میں نفس واحدہ کی ہی تخلیق ہے اور اس کے بعد مذکر و مونث کے باہمی ملاپ سے مرد اور عورتیں پیدا ہوئے۔ انسانی وجود کے دو مظاہر ہیں۔ ایک مرد اور ایک عورت۔ ایک کامل ترین مرد اگر وجود میں آجائے تو کامل ترین عورت کا وجود بھی ضروری ہے۔ انہی کو باہمی طور پر انسان کامل کہا جاسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’فاطمہؑ میرا حصہ ہے (الفاطمۃ بضعۃ منی)‘‘بات کو مزید سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

بات مزید آگے بڑھاتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق کیا۔ یہ نور اس وقت بھی کمال نبوت کا حامل تھا، جیسا کہ آپ نے مزید فرمایا “میں نبی تھا اور آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے”(کنت نبیا وآدم بین الماء و الطین)۔ یہ حقیقت محمدی اور کمال انسانی کی تخلیق اول ہے۔ مزید برآں پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزھراءؑ کے بارے میں فرمایا کہ “اگر علی ؑ نہ ہوتے تو فاطمہ ؑ کا کوئی کفو نہ ہوتا” اور یہ بھی فرمایا کہ “میں اور علی ؑ ایک نور سے ہیں۔” اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ محمد مصطفیٰ(ص)، علی مرتضیٰ ؑ اور فاطمہ الزھراء ؑ یعنی جمال و کمال الہیٰ کا جلوہ اولین ہیں۔

معروف حدیث کساء کے متن میں حضرت احدیت نے بزم ملائک میں چادر زھراء ؑکے نیچے موجود پانچ ہستیوں کا تعارف کرواتے ہوئے تخلیق انسانی کے منصوبے کو بھی فاش کیا ہے: “إِنَّی مَا خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِییَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ فِی مَحَبَّةِ ھَؤلاءِ الْخَمْسَةِ الَّذِینَ ھُمْ تَحْتَ الْکِساءِ”، “بے شک میں نے یہ مضبوط آسمان پیدا نہیں کیا اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج، نہ گھومتے ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی، مگر یہ سب چیزیں ان پانچ نفوس کی محبت میں پیدا کی ہیں، جو اس چادر کے نیچے ہیں۔”

یہ حدیث آیہ تطہیر کی شان نزول کو بیان کرتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آیہ تطہیر ایک سے زیادہ مرتبہ نازل ہوئی، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ، ام المومنین حضرت ام سلمی ؓاور دیگر چند صحابہؓ سے جو شان نزول مروی ہے، اس کے مطابق آیہ تطہیر کے مصادیق یہی ہیں۔ جن سے پنجتن پاک کی حقیقت دیگر اراکین بشریت کے مقابلے میں مزید کھلتی ہے۔ ان آیات و احادیث سے حضرت فاطمہ الزھراء ؑ کا منفرد مقام منصوبہ تخلیق کائنات میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ مذکورہ حدیث کساء میں ان کی مرکزیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جس پر ’’الفاطمۃ ام ابیھا‘‘ کہہ کر حبیب رب العالمین(ص) نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ سورہ کوثر میں کوثر کا مصداق ہونا اس پر مستزاد ہے۔ ایسے ہی تو نہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ فاطمہ ؑ کو اذیت نہ دو، فاطمہ ؑ کو اذیت دینے سے اللہ غضبناک ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں جن کو مغضوب علیھم کہا گیا ہے، ان پر غضب الہیٰ کی وجوہات میں سے ایک زھراء مرضیہ کو اذیت دینا بھی ہے۔

حقیقت انسانی کی معرفت فاطمہ الزھراء ؑ کے عرفان اور معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسے قرآن حکیم کے مطابق رسول اللہ (ص)، اللہ کے حضور شکایت کریں گے کہ اے اللہ میری امت نے قرآن کو مہجور کر دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل بیت ؑ کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا ہے بلکہ مہجور سے زیادہ مظلوم کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے تذکرے سے بھی اعراض برتا جاتا ہے۔ محمد مصطفیٰ (ص) سے کمال وابستگی اہل بیت ؑ سے مکمل وابستگی کے بغیر کیسے ممکن ہے، جبکہ یہ سارے حقائق ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ حیرت ہے کہ جنت کی آرزو کرنا اور جنت کے سرداروں سے رخ موڑ لینا۔ پروردگار اس رویے سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں۔ تو ہم سے راضی ہو اور ہمیں نبی کریم (ص)، پاک زہراءؑ اور ان کے خانوادے سے محبت و مودت کی توفیق عطا فرما، جس کا تقاضا تو نے آیہ مودت میں فرمایا ہے۔ آمین

یہ بھی پڑھیں: نورِچشم رحمت للعآلمین
https://albasirah.com/urdu/noor-chashm/

Share this content: