اپ ڈیٹڈ طالبان، امن مذاکرات اور امریکی کوششیں
امریکی جائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ طالبان نے تزویراتی تیزی حاصل کی ہے اور وہ اس وقت بڑی آبادی والے علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں سے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ افغان حکومت نے طالبان کی پیش رفت کو روکنے کے لیے ملک کے 34 میں سے 31 صوبوں میں رات کا کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کنڑ کے علاقے سے 46 افغان فوجی جن میں 5 افسر بھی شامل ہیں، اپنی پوسٹیں چھوڑ کر چترال کے مقام سے سرحد پار کرکے پاکستان کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
افغان گورنر اگرچہ ایسی خبروں کی تردید کرتے رہے، تاہم جلد ہی یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ افغان فوجیوں اور افسران کی پاکستان میں پناہ لینے کی بات درست ہے۔ یہ فوجی جلد ہی افغان حکام کے حوالے کر دیئے گئے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے یکم مئی کے بعد تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران اور پاکستان سے متصل بارڈر کراسنگز اور علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ افغان حکومت کے پاس اس وقت بامیان، کابل، غزنی، فراح اور قندھار کے کچھ علاقوں کا کنڑول ہے، لیکن ایک ایک کرکے یہ تمام علاقے افغان حکومت طالبان کے سپرد کر رہی ہے۔ افغان حکام اور فوجی افسران کے فرار کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ طالبان بھی اس مرتبہ جلدی میں نہیں ہیں، وہ محاصرہ کے ذریعے شہری آبادیوں میں موجود افغان حکام، سکیورٹی اہلکاروں اور عوام کو یہ موقع مہیا کر رہے ہیں کہ وہ از خود ہتھیار ڈال کر طالبان کی حاکمیت کو قبول کرلیں۔ شاید بعض مقامات پر خونریز معرکے بھی ہوں، تاہم زیادہ تر علاقوں سے افغان فوجی اور حکام رضاکارانہ طور پر ہی نکل رہے ہیں۔
طالبان کے نمائندے اور مذاکراتی ٹیم کے رکن سہیل شاہین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی خانہ جنگی نہیں چاہتا اور ہم فقط اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، کیونکہ اس نے جنگ کو بھڑکایا ہے۔ سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہم طاقت کی سیاست کے سابقہ تجربے کو نہیں دہرائیں گے، کیونکہ یہ افغانستان میں ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان کے تمام متعلقہ گروہوں کی مفاہمت سے تشکیل پانے والی حکومت کے بعد طالبان اپنے ہتھیار رکھ دیں گے۔ انھوں نے اے پی پی کو دیئے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ افغان حکومت جنگ بندی کی بات کرتی ہے، اشرف غنی کی موجودگی میں جنگ بندی ممکن نہیں ہے۔ طالبان اور افغانستان کے دیگر گروہوں کے مذاکرات سے تشکیل پانے والی نئی حکومت ہی جنگ کو روک سکتی ہے۔
سہیل شاہین نے اے پی پی کو بتایا کہ ہمارے دور حکومت میں خواتین تعلیمی اداروں اور کام کے مراکز میں جا سکیں گی، تاہم اس کے لیے انہیں باحجاب ہونا پڑے گا۔ سہیل شاہین نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ہم نے امریکی افواج کے ہمراہ کام کرنے والے افغان شہریوں نیز صحافیوں کو کوئی دھمکی نہیں دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جن علاقوں سے طالبان کمانڈروں کے سخت رویئے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، ان کے بارے ہماری شوریٰ نے اقدام کیا ہے۔ کئی مقامات پر کمانڈروں کو سزائیں بھی دی گئی ہیں، تاہم اے پی پی کے مطابق ان مقامات کا کوئی حوالہ نہ دیا گیا۔ سہیل شاہین نے بتایا کہ امریکہ کی مدد کرنے والے افغان شہریوں کو اگرچہ طالبان کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں دی گئی، تاہم اگر وہ افغانستان کی مخدوش معاشی حالت کی وجہ سے امریکہ جانا چاہتے ہیں تو یہ ان کی صوابدید پر ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے امریکہ کے لیے کام کرنے والے کئی ایک نیوز چینلز نے افغان مترجمین، شراکت داروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کے حوالے سے امریکی حکام کو خطوط لکھے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکی نمائندہ ایوان زیرین جیسن کرو نے 22 جولائی 2021ء کو ہاؤس آف ریپریزنٹیٹو میں ایک بل پیش کیا ہے، جس کا مقصد امریکہ کی مدد کرنے والے آٹھ ہزار کے قریب افغان شہریوں کو امریکی ویزے جاری کرنا ہے۔ یہ بل ایوان زیریں سے پاس ہوچکا ہے اور اب سینیٹ میں اس بل پر رائے شماری ہوگی۔ جیسن کرو افغانستان اور عراق میں فوجی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، یہ بل 407 کے مقابلے 16 ووٹوں سے پاس ہوا۔ یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ امریکہ ’’آپریشن الائز ریفیوج ‘‘ کے تحت افغانستان سے بیس ہزار کے قریب افغان مترجمین، کانٹریکٹرز، سیکورٹی اہلکاروں اور ان کے خانوادوں کو امریکہ لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی 2500 افغان شہری ورجینیا کی ریاست کے فوجی اڈے فورٹ لی میں پہنچائے جاچکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حمایت کے ساتھ ایک گروپ امریکی سینیٹ میں بھی ایسی قانون سازی کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ افغان شہریوں کے امریکی ویزہ کے حصول کو آسان بنایا جاسکے اور اس سلسلے میں موجود انتظامی پیچیدگیوں کو دور کیا جاسکے۔
طالبان ترجمان کا لہجہ اور بیانات تو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ بیس برس قبل والے طالبان نہیں ہیں بلکہ طالبان کا اپ ڈیٹڈ ورژن ہے، جس کو افغان عوام کا اعتماد جیتنے میں بہرحال وقت لگے گا۔ افغانستان میں ہونے والی تازہ پیشرفت کے دوران امریکہ کا افغان شہریوں کے لیے خصوصی ویزوں کے اجراء کا منصوبہ توجہ طلب ہے۔شاید وہ اپنے بنائے ہوئے افغان انتظامی ڈھانچے کو تحفظ دینا چاہتا ہے، تاکہ بعد میں کسی مناسب وقت پر اسے دوبارہ استعمال میں لایا جاسکے۔ میری نظر میں اس اقدام کے ذریعے امریکہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے شراکت داروں، خدمت گزاروں اور لے پالکوں کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ امریکی حکومت آپ کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گی۔ ایسے میں سعودی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور امن مذاکرات کے ذریعے افغانستان سمیت تمام معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے سعودیہ کی دلچسپی بھی قابل توجہ ہے۔ امریکا پاکستان پر براہ راست دباؤ ڈالنے میں ناکام ہونے کے بعد اب خادم حرمین کے ذریعے اپنا اگلا مہرہ چلنے کو ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کے حکمران اور ذمہ داران ہر چال دیکھ بھال کر چلیں گے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: