اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور اکثر جرائد، رسائل اور ٹی وی چینلز پر طالبان کی ایک معتدل تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں نشر و اشاعت کے کئی ادارے تو طالبان کو ایرانی عوام کو اپنا حامی بنانے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ طالبان حکام ایرانی نشریاتی اداروں کو مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں اور کم از کم دو مواقع پر طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو براہ راست نشر کیے گئے ہیں، جن میں وہ ایران کے عوام کو اس بات پر قائل کرتے نظر آئے کہ انھوں نے ماضی کی اپنی روش کو ترک کر دیا ہے۔ کیہان اور پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اخبار جوان کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے اِس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے سرکاری نشریاتی اداروں پر بھی ایسے مبصرین اور تجزیہ کاروں کو موقع دیا جا رہا ہے، جو طالبان کے بدلے ہوئے رویئے کے حامل خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو کابل کی حکومت کے گرنے کے بعد سے ایرانی اخبارات افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات کا واحد ذمہ دار امریکہ کو قرار دے رہے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ طالبان کے بارے میں لب و لہجہ اس قدر تبدیل ہوگیا ہے کہ اصلاح پسند اخبار شرق نے اپنی 24 اگست کی اشاعت میں تحریر کیا تھا کہ ایرانی شدت پسند فیکٹری سیٹنگ کر رہے ہیں اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان واقعی بدل گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کیہان اخبار میں شائع ہونے والے مضمون “افغانستان میں امریکی ترکہ” میں لکھا گیا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے پیچھے بدعنوانی، کرپشن، عدم تحفظ اور طالبان کو چھوڑا ہے۔ ایک اور مضمون میں افغانستان سے امریکی انخلاء کو تاریخ کی “بدترین ہتک” قرار دیا گیا۔ ایک اور اخبار وطنِ امروز نے لکھا گیا کہ امریکہ افغانستان میں ایک مستحکم سیاسی ڈھانچہ اور ایک مضبوط فوج بنائے بغیر نکل گیا۔ پاسدارن انقلاب کے اخبار جوان نے ایک مضمون میں لکھا کہ طالبان کو ایک معتدل قوت کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیئے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس گروپ پر تنقید بھی نہیں کی جانی چاہیئے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ایران کے ٹی وی چینل “افق” کو ویڈیو رابطے کے ذریعے 21 اگست کو فارسی زبان میں 20 منٹ طویل انٹرویو دیا۔ اسی طرح قطر میں موجود طالبان راہنماء سہیل شاہیں نے انگریزی زبان کے نشریاتی ادارے پریس ٹی وی پر ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان تمام ملکوں سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔
بی بی سی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ایران افغانستان تجارتی تعلقات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تہران پر جب سے امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اس کے بعد سے افغانستان ایران کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ ایران کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایران نے اپنے گذشتہ مالی سال (مارچ 2020-2021) میں افغانستان کو 2.3 ارب ڈالر مالیت کی اشیاء فروخت یا برآمد کیں، یہ خبر تصدیق کے قابل ہے، کیونکہ امریکی افواج کی سرپرستی میں کام کرنے والی حکومت کیسے ایران کے ساتھ تجارتی روابط رکھ سکتی ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیاں عائد ہیں۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ افغانستان ایران کا ترکی، متحدہ عرب امارات، عراق اور چین کے بعد پانچواں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ایران کے معروف سٹوڈنٹ نیوز نیٹ ورک کے مطابق افغانستان تقریباً ایران کی آٹھ فیصد مصنوعات کی منڈی ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ ایران افغانستان چیمبر آف کامرس کے نائب سربراہ آلادین میر محمد صدیقی نے اعتبار اخبار کو اس ہفتے بتایا کہ تہران اور کابل کے درمیان تجارتی تعلقات اس وقت چلتے رہیں گے، جب تک طالبان کی معاشی پالیسیاں وہی رہیں گی، جن کی انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے درج بالا مندرجات سے ایک چیز تو واضح ہوئی کہ اس ادارے میں دنیا بھر کے اخبارات کو دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ ایران سے متعلق تھی، اگر پاکستان سے متعلق رپورٹ ہو تو آپ کو اس میں پاکستانی اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز کے حوالے ملتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان کا بدلہ ہوا رویہ تقریباً ہر کسی کو دکھائی دے رہا ہے، اگر بی بی سی پاکستان کے میڈیا چینلز پر ایک نظر کرے تو وہ ایسی خبریں اور تجزیات ضرور دیکھے گا، جہاں طالبان کے بدلے ہوئے رویوں کی بات کی جا رہی ہے۔ آج ہی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنی تین سالہ کارکردگی سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ طالبان ہم آہنگی سے حکومت کے قیام، انسانی حقوق کی فراہمی اور عام معافی کی بات کر رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان بدل چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ یہ کہنا کہ طالبان اپنی زبان سے بدل جائیں گے، فی الحال درست نہیں ہے، ابھی وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس کے مطابق ہی ان سے رویہ رکھا جانا چاہیئے۔ طالبان راہنماوں کی پریس بریفنگز بھی پاکستانی میڈیا پر نشر ہو رہی ہیں۔ یقیناً پاکستان بھی یہ سب کچھ تجارتی روابط کے لیے کر رہا ہوگا۔
مجھے حیرت ہے کہ بی بی سی کے تجزیہ نگاروں نے اس بات کو فراموش کیوں کر دیا کہ افغانستان میں امن اور وہاں کی مستحکم حکومت خطے کے تمام ممالک کے فائدے میں ہے۔ اگر خطے کے ممالک اور حکومتیں طالبان کے رویئے سے مطمئن ہیں اور ان کی مثبت تصویر اپنے عوام کے سامنے پیش کر رہی ہیں، جس کے پیچھے ان کا مقصد طالبان کے زیر کنڑول افغانستان سے تجارت جاری رکھنا یا افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے ذریعے امن و امان کی بحالی ہے تو اس میں قطعاً کوئی برائی نہیں ہے۔ نیٹو ممالک جن میں بی بی سی کا سرپرست ملک برطانیہ بھی شامل تھا، بیس برس افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرکے دیکھ چکے ہیں، اب انھیں چاہیئے کہ وہ خطے کے ممالک کو موقع دیں کہ وہ حالات کو اپنے انداز سے حل کریں۔ تجزیہ کرنا ہے تو بی بی سی کو اس بات پر کرنا چاہیئے کہ نیٹو کو افغانستان میں ناکامی کیوں ہوئی اور ان کا لگایا ہوا پیسہ اور وسائل نقش بر آب کیوں ثابت ہوئے۔؟
بشکریہ: اسلام ٹائمز
Share this content: