تحریک عدم اعتماد کیا ہونے والا ہے؟
سب سے پہلے تو ایک بات کو اپنے ذہنوں میں واضح فرما لیں کہ پاکستان میں بننے والی حکومتیں فقط ووٹ کی طاقت سے بنتی ہیں۔ ووٹ حکومتوں کے اقتدار میں آنے والے اسباب میں سے ایک سبب ہوتا ہے۔ یہ فقط پاکستان سے ہی مخصوص نہیں ہے، دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتوں کا یہی عالم ہے۔ یہ ایک بہت ہی حساس سا توازن ہے، جو کچھ طاقتیں تشکیل دیتی ہیں، تاہم ظاہر یہی کیا جاتا ہے کہ برسر اقتدار آنے والا عوامی ووٹ سے برسر اقتدار آیا ہے۔ یہاں جب کہا جاتا ہے کہ فلاں سلیکٹڈ ہے تو مکمل طور پر غلط نہیں کہا جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو سلیکٹ ہوتا ہے، اسی کو عوام زیادہ تعداد میں ووٹ دیتی ہے۔ اس کے لیے پراپیگنڈہ، تشہیر اور بہت سی چیزیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ تاہم عوام کسی بھی ایک جماعت کو اتنے بھی ووٹ نہیں دیتی کہ وہ سب کچھ ہی بدل ڈالے۔ اسی کا نام توازن ہے۔ کسی بھی جماعت کے پاس ایوان اقتدار میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے من چاہے قوانین پاس کرتی رہے۔ اس توازن کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی حکومت ہاتھوں سے سرکتی دکھائی دے تو پھر اس کی باگیں کسی جائیں، تاکہ وہ اپنی جگہ پر آجائے اور اگر باگیں کسنا ممکن نہ رہے تو پھر دھڑن تختہ کر دیا جائے۔ گذشتہ چند برسوں کی حکومتوں کی تنزلی اور تقرری اس امر پر شاہد ہے۔
درج بالا اعترافات سے مراد یہ بھی نہیں کہ اب ہم ووٹ پر اعتماد ہی نہ کریں یا انتخابی عمل سے بیزار ہو جائیں۔ ہمیں جمہوریت کا سفر اسی طرح سے طے کرنا ہے، تاوقتیکہ ہمارے جمہوری ادارے، افراد اور شخصیات نہایت ذمہ دار ہو جائیں اور اپنے حقوق کو مکمل قوت اور اختیارات کے ساتھ حاصل کرسکیں۔ آج کل ہم پاکستان میں جو سیاسی دنگل دیکھ رہے ہیں، درج بالا سطور کی ہی عکاسی ہے۔ بالخصوص یہ باگیں کھینچے جانے کا وقت ہے، ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ فقط باگیں کسی جائیں گی یا دھڑن تختہ۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دھڑن تختہ حکومت کی دشمنی میں کیا جارہا ہو بلکہ اس کے پیچھے دوستی بھی ہوسکتی ہے۔ باگیں کسی جائیں یا دھڑن تختہ ہو، اس کے پیچھے ملکی مفاد ہے، جو اہل سیاست میں سے کم ہی کو سمجھ آتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں جو ملک کے سربراہ حکومت کا انتخاب کرتا ہے، 342 افراد پر مشتمل ہے، جس میں سے 272 اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں اور 70 ممبران خواتین سے مخصوص نشستوں اور اقلیتی برادری پر مشتمل ہوتے ہیں۔ پارلیمان میں آنے والی ہر جماعت کو اپنے اراکین کی نسبت سے یہ مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ 2018ء کے پارلیمانی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 342 اراکین کے ایوان میں 149 نشستیں جیتیں، یوں یہ جماعت ملک کی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری، تاہم اسے وہ دو تہائی اکثریت حاصل نہ تھی، جو قانون سازی اور اہم فیصلہ جات کے لیے درکار ہوتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے پاس اس وقت ایوان میں 84، پیپلز پارٹی کے پاس 56، متحدہ مجلس عمل کے پاس 15، ایم کیو ایم کے پاس 15، بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 5، بلوچستان نیشنل پارٹی کے پاس 4، مسلم لیگ قاف کے پاس 5، جی ڈی اے کے پاس 3، عوامی نیشنل پارٹی کے پاس 1، عوامی مسلم لیگ کے پاس 1، جمہوری وطن پارٹی کے پاس 1 اور آزاد امیدواروں کی تعداد 4 ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو حکومت قائم کرنے کے لیے پارلیمان میں 172 اراکین کی ضرورت تھی، اس حکومت کو برسر اقتدار آنے کے لیے اتحادی درکار تھے، یعنی متوازن رکھنے کی صلاحیت کے حامل امیدواران۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت بنانے کے شوق میں اپنی بھرپور کوشش کی اور چھوٹی جماعتوں کے اراکین کو اپنے ساتھ ملایا، کسی کو وزارت دی، کسی کو سفارت، کسی کو دربان بنایا اور کسی کو پیادہ۔ آج جب کہ پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی نے ملک کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے تو اس کو بھی ایوان میں اپنی اکثریت کو ثابت کرنا ہے۔ ایوان میں ان چاروں جماعتوں کے کل اراکین کی تعداد 156 ہے، یعنی ان کو اب بھی 16 اراکین درکار ہیں۔ یہی تائید حاصل کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات، سودے بازی، لین دین کا سلسلہ جاری ہے، جسے عرف عام میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایوان میں جمع کروائی جانے والی حالیہ تحریک عدم اعتماد فقط نمبر گیم اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے نیز اپنے مفادات کے تحفظ کا دھندہ ہے، اس کے پیچھے نہ تو کوئی ملکی مفاد ہے، نہ ہی قومی منفعت۔ اگرچہ بتایا یہی جا رہا ہے کہ یہ سب عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیا جا رہا ہے، جو گذشتہ 35 برسوں میں نہیں دیا جاسکا۔ یعنی آزمودہ لوگ دوبارہ آزمائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں قومی حکومت قائم کی جائے، تاکہ اگلے پانچ سال بغیر انتخابات کے موجودہ ایوان پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دی جائے، جس میں تمام جماعتوں کا حصہ ہو۔ یہ ہے ہماری نہایت درد مند سیاسی شخصیات کی حالت۔ نہ تو ان کو عوامی ریلیف سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی ان کے مدنظر ملکی مفاد ہے۔
میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ خان صاحب آپ سے بھی غلطی ہوئی ہے، معاشرے سے ملنے والی معلومات کے تناظر میں، میں کہ سکتا ہوں کہ قوم کی اکثریت آپ کی نیت اور ویژن پر شک نہیں کرتی، تاہم آپ نے اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کے لیے جن بیساکھیوں کا استعمال کیا ہے، ان کی حالت آج آپ بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ میری نظر میں کرنا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب آپ کو انتخابات کے نتیجے میں ایوان میں اکثریت نہیں ملی تھی تو آپ بجائے ان کٹی پتنگوں پر تکیہ کرنے کے، اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے، نیز اگلے انتخابات پر نظر رکھتے، تاہم آپ نے جلدی کی۔ جس کے نتیجے میں آپ جن چیزوں کا دعویٰ کرتے تھے، وہ سب بخوبی نہ انجام دے سکے۔ آپ نے قوم میں کرپشن، اقرباء پروری، دھاندلی کے خلاف شعور تو پیدا کیا، تاہم وہ اقدامات نہ کرسکے، جو ان برائیوں سے نمٹنے کے لیے درکار تھے۔ چور پکڑے جاتے رہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے پتلی گلی سے نکلتے رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو پاکستان کا مفاد چاہتا ہے، اسے اب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے۔ خان صاحب اگر آپ کے مدنظر پاکستان کا مفاد اور عوامی ریلیف ہے تو موجودہ سیاسی دنگل سے ہاتھ کھینچ لیں۔ وہ سیاسی جماعتیں جو اصولوں پر آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی ہیں، ان کو جانے دیں۔ آج تحریک عدم اعتماد کی کامیابی آپ ہی کے مفاد میں ہوگی۔ عوام یقیناً آپ کو اگلی مرتبہ ضرور بہتر موقع دے گی۔ قوموں کی بگڑی ہوئی تقدیر چند برسوں میں نہیں، دہائیوں میں بہتری کی جانب جاتی ہے۔ آپ کی تحریک کا محور شفاف انتخابات کا انعقاد، کرپشن کے خلاف شعور کی بیداری اور کٹی پتنگوں سے اجتناب ہونا چاہیئے۔ اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ ہماری قوم پر رحم فرمائے گا اور مزید کسی آزمائش سے نہیں گزارے گا۔ واللہ اعلم
درج بالا اعترافات سے مراد یہ بھی نہیں کہ اب ہم ووٹ پر اعتماد ہی نہ کریں یا انتخابی عمل سے بیزار ہو جائیں۔ ہمیں جمہوریت کا سفر اسی طرح سے طے کرنا ہے، تاوقتیکہ ہمارے جمہوری ادارے، افراد اور شخصیات نہایت ذمہ دار ہو جائیں اور اپنے حقوق کو مکمل قوت اور اختیارات کے ساتھ حاصل کرسکیں۔ آج کل ہم پاکستان میں جو سیاسی دنگل دیکھ رہے ہیں، درج بالا سطور کی ہی عکاسی ہے۔ بالخصوص یہ باگیں کھینچے جانے کا وقت ہے، ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ فقط باگیں کسی جائیں گی یا دھڑن تختہ۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دھڑن تختہ حکومت کی دشمنی میں کیا جارہا ہو بلکہ اس کے پیچھے دوستی بھی ہوسکتی ہے۔ باگیں کسی جائیں یا دھڑن تختہ ہو، اس کے پیچھے ملکی مفاد ہے، جو اہل سیاست میں سے کم ہی کو سمجھ آتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں جو ملک کے سربراہ حکومت کا انتخاب کرتا ہے، 342 افراد پر مشتمل ہے، جس میں سے 272 اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں اور 70 ممبران خواتین سے مخصوص نشستوں اور اقلیتی برادری پر مشتمل ہوتے ہیں۔ پارلیمان میں آنے والی ہر جماعت کو اپنے اراکین کی نسبت سے یہ مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ 2018ء کے پارلیمانی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 342 اراکین کے ایوان میں 149 نشستیں جیتیں، یوں یہ جماعت ملک کی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری، تاہم اسے وہ دو تہائی اکثریت حاصل نہ تھی، جو قانون سازی اور اہم فیصلہ جات کے لیے درکار ہوتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے پاس اس وقت ایوان میں 84، پیپلز پارٹی کے پاس 56، متحدہ مجلس عمل کے پاس 15، ایم کیو ایم کے پاس 15، بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 5، بلوچستان نیشنل پارٹی کے پاس 4، مسلم لیگ قاف کے پاس 5، جی ڈی اے کے پاس 3، عوامی نیشنل پارٹی کے پاس 1، عوامی مسلم لیگ کے پاس 1، جمہوری وطن پارٹی کے پاس 1 اور آزاد امیدواروں کی تعداد 4 ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو حکومت قائم کرنے کے لیے پارلیمان میں 172 اراکین کی ضرورت تھی، اس حکومت کو برسر اقتدار آنے کے لیے اتحادی درکار تھے، یعنی متوازن رکھنے کی صلاحیت کے حامل امیدواران۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت بنانے کے شوق میں اپنی بھرپور کوشش کی اور چھوٹی جماعتوں کے اراکین کو اپنے ساتھ ملایا، کسی کو وزارت دی، کسی کو سفارت، کسی کو دربان بنایا اور کسی کو پیادہ۔ آج جب کہ پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی نے ملک کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے تو اس کو بھی ایوان میں اپنی اکثریت کو ثابت کرنا ہے۔ ایوان میں ان چاروں جماعتوں کے کل اراکین کی تعداد 156 ہے، یعنی ان کو اب بھی 16 اراکین درکار ہیں۔ یہی تائید حاصل کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات، سودے بازی، لین دین کا سلسلہ جاری ہے، جسے عرف عام میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایوان میں جمع کروائی جانے والی حالیہ تحریک عدم اعتماد فقط نمبر گیم اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے نیز اپنے مفادات کے تحفظ کا دھندہ ہے، اس کے پیچھے نہ تو کوئی ملکی مفاد ہے، نہ ہی قومی منفعت۔ اگرچہ بتایا یہی جا رہا ہے کہ یہ سب عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیا جا رہا ہے، جو گذشتہ 35 برسوں میں نہیں دیا جاسکا۔ یعنی آزمودہ لوگ دوبارہ آزمائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں قومی حکومت قائم کی جائے، تاکہ اگلے پانچ سال بغیر انتخابات کے موجودہ ایوان پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دی جائے، جس میں تمام جماعتوں کا حصہ ہو۔ یہ ہے ہماری نہایت درد مند سیاسی شخصیات کی حالت۔ نہ تو ان کو عوامی ریلیف سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی ان کے مدنظر ملکی مفاد ہے۔
میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ خان صاحب آپ سے بھی غلطی ہوئی ہے، معاشرے سے ملنے والی معلومات کے تناظر میں، میں کہ سکتا ہوں کہ قوم کی اکثریت آپ کی نیت اور ویژن پر شک نہیں کرتی، تاہم آپ نے اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کے لیے جن بیساکھیوں کا استعمال کیا ہے، ان کی حالت آج آپ بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ میری نظر میں کرنا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب آپ کو انتخابات کے نتیجے میں ایوان میں اکثریت نہیں ملی تھی تو آپ بجائے ان کٹی پتنگوں پر تکیہ کرنے کے، اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے، نیز اگلے انتخابات پر نظر رکھتے، تاہم آپ نے جلدی کی۔ جس کے نتیجے میں آپ جن چیزوں کا دعویٰ کرتے تھے، وہ سب بخوبی نہ انجام دے سکے۔ آپ نے قوم میں کرپشن، اقرباء پروری، دھاندلی کے خلاف شعور تو پیدا کیا، تاہم وہ اقدامات نہ کرسکے، جو ان برائیوں سے نمٹنے کے لیے درکار تھے۔ چور پکڑے جاتے رہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے پتلی گلی سے نکلتے رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو پاکستان کا مفاد چاہتا ہے، اسے اب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے۔ خان صاحب اگر آپ کے مدنظر پاکستان کا مفاد اور عوامی ریلیف ہے تو موجودہ سیاسی دنگل سے ہاتھ کھینچ لیں۔ وہ سیاسی جماعتیں جو اصولوں پر آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی ہیں، ان کو جانے دیں۔ آج تحریک عدم اعتماد کی کامیابی آپ ہی کے مفاد میں ہوگی۔ عوام یقیناً آپ کو اگلی مرتبہ ضرور بہتر موقع دے گی۔ قوموں کی بگڑی ہوئی تقدیر چند برسوں میں نہیں، دہائیوں میں بہتری کی جانب جاتی ہے۔ آپ کی تحریک کا محور شفاف انتخابات کا انعقاد، کرپشن کے خلاف شعور کی بیداری اور کٹی پتنگوں سے اجتناب ہونا چاہیئے۔ اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ ہماری قوم پر رحم فرمائے گا اور مزید کسی آزمائش سے نہیں گزارے گا۔ واللہ اعلم