تسبیح فاطمہؑ

Published by Murtaza Abbas on

saqib akbar

سید ثاقب اکبر
ہر نماز کے بعد مسلمان ایک تسبیح پڑھنا مستحب اور ثواب کا باعث سمجھتے ہیں ۔یہ تسبیح اللہ کے آخری رسولؐ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ کو سکھائی تھی۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

پہلے 34 مرتبہ اللہ اکبر
پھر33 مرتبہ الحمد للہ
پھر33 مرتبہ سبحان اللہ


اس طرح یہ کل 100 عدد ہوئے۔ سو دانوں کی تسبیح کا رواج یہیں سے شروع ہوا۔ یہ جو ہمارے ہاں ہر تینتیس دانوں کے بعد علامتی طور پر ایک دانہ کچھ مختلف ہوتا ہے، اسی لیے ہے کہ پڑھنے والے کو توجہ دلائی جائے کہ 33 دانے پورے ہوگئے ہیں۔

ظاہراً یہ تسبیح پہلے پہل دھاگوں کی گرہوں سے بنائی گئی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب کی جنگ احد میں شہادت ہوگئی تو حضرت فاطمہ زہراؑ نے ان کی قبرمٹی سے تسبیح کے دانے تیار کئے۔ حضرت فاطمہؑ بنت رسول ؐ کے پوتے حضرت امام علی زین العابدین ؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ا نھوں نے اپنے والد سید الشہدا امام حسینؑ کی قبر کی مٹی سے تسبیح تیار کی۔ ان کی پیروی میں آج بھی بہت سے لوگ امام حسین ؑ کی قبر مبارک کی مٹی سے تسبیح تیار کرتے ہیں۔ اسے خاک شفا کی تسبیح کہا جاتا ہے۔ قبر مبارک کی مٹی سے تسبیح تیار کرتے ہیں۔ اسے خاک شفا کی تسبیح کہاجاتا ہے۔ اس وقت چونکہ امام حسینؑ کی کچی قبر جو اصلی حالت میں ہے وہ نیچے ہے اور اوپر پختہ قبر بن چکی ہے اور اس کے اوپر ضریح اور گنبد ہے اس لیے اصل قبر تک کم لوگ پہنچتے ہیں۔

رسول اکرم ؐ نے جب نماز کے بعد مذکورہ تسبیح پڑھنے کا حکم دیا تو آپؐ کے گھرانے والے اسے ترک نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جنگ صفین کی ایک رات جب ساری جنگ جاری رہی، اس کے بارے میں بھی حضرت علی ؑ کہتے ہیں کہ میں نے یہ تسبیح ترک نہیں کی۔ اس تسبیح کا سلسلہ چونکہ حضرت فاطمہؑ سے چلا اس لیے سارے مسلمان اسے تسبیح فاطمہ ؑ کہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نورِچشم رحمت للعآلمین
https://albasirah.com/urdu/noor-chashm/