طالبان اور ایران کے تعلقات کا مستقبل

Published by Murtaza Abbas on

سید ثاقب اکبر

طالبان کا ایک سیاسی وفد آج (26 جنوری2021ء کو) تہران پہنچا ہے۔ وفد کی قیادت ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔ وفد ایران میں وزیر خارجہ جواد ظریف اور امور افغانستان میں ایران کے خصوصی نمائندہ سے ملاقات کرے گا۔ ملاقات کے ایجنڈے میں افغانستان میں قیام امن اور دیگر باہمی مسائل اور موضوعات شامل ہیں۔ طالبان کے وفد کی اس وقت تہران میں موجودگی اس پہلو سے اہم ہے کہ امریکہ میں نئی انتظامیہ صدر ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے بارے میں نظرثانی کا عندیہ دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں وائٹ ہائوس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کے سکیورٹی کے مشیر جک سالیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے فروری 2020ء میں طالبان اور واشنگٹن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس کا نئے سرے سے جائزہ لے گی۔

طالبان نے بھی کہا ہے کہ ہم نئی امریکی حکومت کی افغانستان کے بارے میں حکمت عملی کا انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کس حد تک امن معاہدے کی پابندی کرتی ہے۔ طالبان نمائندے نے مزید کہا کہ اگر امریکہ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں دستخط شدہ معاہدے سے عقب نشینی اختیار کی تو ہم بھی مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہوں گے اور جنگ آزما لوگوں سے نمٹنے کا راستہ اختیار کریں گے۔ یاد رہے کہ 29 فروری 2020ء کو طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کے مطابق امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ 14 ماہ کے اندر اندر اپنی افواج افغانستان سے نکال لیں گے۔

ایران اور طالبان کے مابین تعلقات اور روابط کی تاریخ خاصی پیچیدہ رہی ہے۔ خاص طور پر طالبان کے کابل میں دور حکومت کے دوران میں 1998ء میں مزار شریف میں گیارہ ایرانی سفارتکاروں کی شہادت کے بعد سے ایران اور طالبان کے مابین تعلقات انتہائی خراب ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعے میں لشکر جھنگوی اور ایران مخالف جنداللہ جیسے شدت پسند گروہوں کا بھی ہاتھ تھا۔ اس زمانے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ طالبان کو امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے امریکی اتحادیوں نے طالبان حکومت کو جائز تسلیم کر رکھا تھا۔ خاص طور پر ان عرب ممالک کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاتا کہ وہ امریکی تائید کے بغیر اتنا بڑا اقدام کرسکتے ہیں۔ اس دوران میں ایران کے تعلقات شمالی اتحاد کے ساتھ قریبی رہے۔ یہی وہ دور ہے، جب ایران اور پاکستان کے تعلقات تاریخ میں سب سے نچلی سطح پر آگئے تھے اور دونوں ملکوں کے مابین شک رنجیاں اور غلط فہمیاں اپنے عروج پر جا پہنچی تھیں۔

نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان میں افواج اتارنے اور القاعدہ نیز طالبان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تو صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ امریکہ کو شمالی اتحاد کی ضرورت پڑ گئی اور پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ امریکہ کو ہمیشہ پاکستان سے یہ شکوہ رہا ہے کہ وہ دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہے اور طالبان کے ساتھ بھی اس کے روابط قائم ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ طالبان کو مالی اور اسلحے کی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اگرچہ اس کا انکار کرتا رہا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں طالبان کے ساتھ پاکستانی روابط امریکہ کے کام آرہے ہیں، جب امریکہ نے عراق سے فوجی انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ اس کا امکان موجود ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ صدر ٹرمپ کے دور کے فیصلوں کو سو فیصد قبول نہ کرے، جیسا کہ خود صدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹس کی سابقہ حکومت کے کئی عالمی فیصلوں کو قبول نہیں کیا تھا۔

اس وقت ایران اور طالبان کا سب سے بڑا اشتراک امریکہ کے خلاف ان کا مشترکہ موقف ہے۔ دونوں چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے پوری طرح نکل جائے۔ جب افغانستان کی سابقہ حکومت نے امریکہ سے معاہدہ کرکے اس کے چند فوجی اڈے باقی رکھنے سے اتفاق کیا تھا تو ایران نے اس کی مخالفت کی تھی اور اب جبکہ طالبان امریکہ سے یہ بات منوا چکے ہیں کہ امریکہ اپنی تمام افواج کو افغانستان سے نکال لے گا اور کوئی فوجی اڈا افغان سرزمین پر باقی نہیں رکھے گا تو یہ وہی موقف ہے، جس کا اظہار ہمیشہ ایران کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ ایران کا یہی موقف عراق، شام اور خطے کے دیگر علاقوں کے بارے میں بھی ہے۔ طالبان بھی طویل تجربات کے بعد کچھ بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ 2018ء میں بھی ایک طالبان وفد تہران کا دورہ کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان کی آئندہ حکومت میں طالبان کی نمائندگی ضروری ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے موقف میں تبدیلی آرہی ہے۔

عمومی طور پر طالبان کو شیعہ مخالف سمجھا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں طالبان کے نزدیک جو پاکستانی شدت پسند گروہ رہے ہیں، انھوں نے شیعوں کے قتل عام میں بہت بھیانک کردار ادا کیا ہے۔ طالبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے شیعوں اور خاص طور پر ہزارہ قبائل کے خلاف شدت پسندانہ رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ طالبان کی حکومت کے بعد افغانستان میں فقہ جعفریہ کو بھی آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔ طالبان نے اسے بھی قبول نہیں کیا۔ بعید نہیں کہ طالبان نے ماضی کی ان تلخ یادوں سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ البتہ اس کے لیے واضح اقدامات کی ضرورت ہوگی، تاکہ ایران بھی طالبان کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے نکال سکے۔ گذشتہ دنوں طالبان کا ایک سیاسی وفد پاکستان بھی آچکا ہے، جس نے پاکستان کی شیعہ قیادت کے نمائندگان سے ملاقات کی ہے۔ وفد نے یقین دلایا ہے کہ ان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ داعش کے خلاف پہلے ہی فوجی کارروائی کرچکے ہیں اور ان دنوں کابل یا دیگر مقامات پر شیعوں کے خلاف جو دہشتگردانہ واقعات ہو رہے ہیں، ان میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ آئندہ کی حکومت میں شیعوں کو شریک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وفد کی خواہش تھی کہ پاکستان کی شیعہ قیادت افغان شیعہ قیادت کے ساتھ ان کے روابط کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض واقعات خود برسراقتدار افغان حکومت کی طرف سے کروائے جا رہے ہیں اور الزام طالبان پر عائد کیا جا رہا ہے، تاکہ افغانستان کے شیعوں اور طالبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جاسکیں۔ ان حالات میں جبکہ ایران کو بھی مختلف محاذوں پر چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے، بعید نہیں کہ افغان طالبان اور ایران کے درمیان ہم آہنگی سے اس کی شمالی سرحد محفوظ ہو جائے۔ طالبان وفد کے حالیہ دورہ تہران میں ایران میں موجود افغان مہاجرین کا موضوع بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے اور افغان مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔

البتہ کیا امریکہ کے پیش نظر یہ تمام پہلو نہیں ہیں، ایسا سوچنا ہماری سادہ اندیشی ہی کہلا سکتا ہے۔ امریکہ کیوں چاہے گا کہ وہ آسانی سے افغانستان سے نکل جائے، کیونکہ اس کے نتیجے میں صرف اتنا نہیں ہوگا کہ ایران افغان تعلقات بہتر ہوں اور افغان عوام کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں بلکہ روس کے روابط بھی نئی افغان حکومت کے ساتھ بہتر ہو جائیں گے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحد بھی محفوظ ہو جائے گی۔ چین کی بھی یہی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو، تاکہ اس کے تجارتی منصوبے آسانی سے تکمیل پا سکیں۔ امریکہ ان تمام ملکوں کی خواہشوں اور منصوبوں کو پیش نظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کی کہہ مکرنیاں ہم دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ جوبائیڈن کی نئی انتظامیہ فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ دوحہ میں طے پانے والے معاہدے پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔
 
 
بشکریہ : اسلام ٹائمز