شیعہ قوم کے آئینی و قانونی حقوق کی طویل جدوجہد
بحیثیت قوم ہماری توجہ زیادہ تر خارجی اور داخلی سیاسی امور کی جانب رہتی ہے۔ یمن پر سعودیہ کے حملے کو کتنے برس گزر گئے، فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔؟ کشمیر میں ہندوستان نے کیا کیا؟ بحرین اور احصاء میں کیا ہوا؟ نائجیریا کے شیعہ کس حال ہیں؟ یقیناً ان امور کے بارے میں غور و فکر بھی بہت ضروری ہے، تاہم اس سب سے زیادہ لازم یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیں ہمارے جائز آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ آئین 1973ء میں پاس ہوا، جو 73 سے 2022ء تک متعدد مرتبہ معطل رہا۔ 73 کا آئین پاکستان کے تمام مکاتب کا متفقہ آئین تصور کیا جاتا ہے، جس میں طے کیا گیا ہے کہ ملک کے تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں گے۔
اب چونکہ ملک میں رائج قوانین کی اکثریت انگریز دور کے قوانین پر مشتمل تھی، لہذا ضروری سمجھا گیا کہ ایک ایسا آئینی ادارہ تشکیل دیا جائے، جو مختلف قوانین کو قرآن و سنت کی نگاہ سے دیکھے اور ان میں ضروری ترامیم تجاویز کرے۔ اس ادارے کو اسلامی نظریاتی کونسل کا نام دیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کی کم سے کم تعداد 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ہوتی ہے۔ کونسل کے آٹھ اراکین میں سے چار کا تعلق مختلف مکاتب منجملہ بریلوی، شیعہ، دیوبندی اور اہل حدیث سے ہوتا ہے جبکہ باقی چار اراکین میں ایک قانون دان، ایک ریٹائرڈ جج، ایک خاتون اور ایک اقتصادی ماہر ہوتے ہیں۔ ان نمائندگان کا تقرر وزیراعظم کے مشورے سے صدر مملکت کے ذریعے ہوتا ہے۔ چیئرمین کی نامزدگی بھی اسی طریقہ کے مطابق ہوتی ہے۔
73 کے آئین میں قرآن و سنت کے مطابق قوانین کی تشکیل کے حوالے سے ایک وضاحت جنرل ضیاء الحق کے دور میں صدارتی آرڈینس نمبر 3 کے ذریعے کی گئی کہ ’’قرآن و سنت کی تفسیر اور تعبیر ہر فرقے کے لیے وہی معتبر ہوگی، جو اس فرقے کے ہاں معتبر ہے‘‘ تاہم عملاً ایسا نہیں ہے۔ آئین میں تو کہا گیا ہے کہ ہر مسلک کے لیے اس کے احوال شخصیہ جیسے نکاح، طلاق، میراث، اوقاف نیز اسی جیسے دیگر شخصی معاملات کے فیصلے متعلقہ فقہ کے مطابق ہوں گے، تاہم عملاً یہ فیصلے جنرل ایوب کے دور میں پاس ہونے والے آرڈیننس ’’مسلم عائلی قوانین‘‘ کے تحت ہوتے ہیں۔ جس کے باعث بہت سی شیعہ خواتین میراث سے محروم رہتی ہیں۔ ایسے ہی عدالت سے لی گئی طلاق کو قابل قبول نہیں گردانا جاتا۔ یوں طلاق یافتہ خواتین عدالت سے طلاق حاصل کرنے کے باوجود معلق رہتی ہیں اور مدارس و مساجد کے چکر لگاتے لگاتے ان کے دسیوں سال بیت جاتے ہیں۔ زکواۃ اور شیعہ دینیات کا معاملہ ہم نے مفتی جعفر حسین کی زیر قیادت حل کروایا، تاہم ابھی بہت سے ایسے معاملات ہیں، جن پر قانون سازی نہیں ہے اور شیعہ عوام جنرل ’’مسلم عائلی قوانین‘‘ کا شکار ہیں۔
پاکستان کی شیعہ آبادی کے لیے ان کی فقہ کے مطابق قوانین کی تشکیل اور ان قوانین کے مطابق مسائل کے حل کا اہم مسئلہ علامہ افتخار حسین نقوی نے اپنے کندھوں پر لیا۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا، جسے علامہ نے 2011ء میں اپنے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بننے کے بعد شروع کیا۔ علامہ افتخار حسین نقوی کی اس مسلسل اور صبر آزما جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر شیعہ طلاق اور میراث کے حوالے سے ترامیم قانون کا حصہ بنیں، یعنی اب شیعہ پاکستانی عدالتوں سے اپنی فقہ کے مطابق میراث اور طلاق کا تقاضا کرسکتے ہیں۔ علامہ افتخار حسین نقوی نے ان قوانین کو پاس کروا کر آئینی حقوق کے حصول کی وہ بنیاد رکھی ہے، جس کی ابتداء مفتی جعفر حسین کی قیادت میں شیعہ قوم نے رکھی تھی۔
علامہ محترم اپنے اس صبر آزما سفر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں ہم نے فقہ جعفری کے احوال شخصیہ سے مربوط مسائل کو قانون کی زبان میں تحریر کیا۔ یہ مجموعہ قم و مشہد کے فضلاء کی مدد سے تشکیل دیا گیا جسے ’’موسوعہ قوانین اسلام‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ موسوعہ دس جلدوں پر مشتمل ہے، جس میں سے قانون نکاح، قانون طلاق، قانون خمس، قانون زکواۃ سے متعلق کتابیں تیار ہوچکی ہیں، جو جلد شائع ہو جائیں گی۔ ان کتب میں فقہ جعفری کے مطابق قانون لکھا گیا ہے، اصطلاحات کے معنی لکھے گئے ہیں، اس کے بعد مستندات یعنی نص قرآن اور حدیث کا اضافہ کیا گیا ہے، نیز عدالتی نظائر کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ان کتب میں فقہائے اہل سنت کی آراء کو بھی درج کیا گیا ہے۔ ’’مسلم عائلی قوانین بمطابق فقہ جعفری‘‘ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تحریر کی گئی، جس میں فقط قوانین کو تحریر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب قانونی ماہرین اور عدلیہ کے استفادہ کے لیے ہے، تاکہ قانون دان اس کتاب کے مطالعہ کے ذریعے شیعہ فقہ کے مطابق فیصلہ یا جرح کرسکیں۔ اس کتاب میں نکاح، طلاق، میراث، وصیت سے متعلق قوانین موجود ہیں۔
علامہ صاحب کی شیعہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ علمی نوعیت کا تھا، جسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس جدوجہد کا دوسرا مرحلہ انتظامی اور عملی اقدامات سے متعلق تھا۔ بقول علامہ افتخار حسین نقوی، انھوں نے اس جدوجہد کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور اقتدار سے کیا، اس سلسلے میں سربراہان مملکت سے ملاقاتیں، اسلامی نظریاتی کونسل میں ان قوانین کے بارے تحقیق اور ابحاث، سپریم کورٹ سے رجوع، ترمیمی بلوں کی تیاری، پارلیمانی کمیٹیوں سے اسلامی نظریاتی کونسل تک آمد اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل سے دوبارہ پارلیمان تک رسائی، ملک کے سیاسی حالات، حکومتوں میں ردو بدل، کمیٹیوں سے کمیٹیوں تک کا سفر، اداراتی سرد مہریاں، فرقہ وارانہ الزامات کے بعد بالآخر 17 نومبر 2021ء کو علامہ افتخار حسین نقوی اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس کروانے میں کامیاب ہوگئے اور 2 دسمبر 2021ء کو صدر مملکت نے اس بل پر دستخط کر دیئے، یوں طلاق و میراث کے بل باقاعدہ قانون بن گئے۔ اللہ کریم علامہ افتخار حسین نقوی اور ان کے تمام ساتھیوں کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔ انھوں نے شیعہ قوم کے حقوق کی جس جدوجہد کا آغاز کیا ہے، اللہ کریم انھیں اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
بشکریہ : اسلام ٹائمز