صہیونی ریاست کی تکمیل کے مراحل اور ہم
اقوام متحدہ 29 نومبر کو یوم یکجہتی فلسطین کے عنوان سے منانے جا رہا ہے، اس سلسلے میں دنیا بھر میں کانفرنسیں، سیمینار، واکس، میراتھن وغیرہ منعقد کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ نے اس یوم یکجہتی کا سلسلہ 1977ء سے کیا، جس کی بازگشت ہمیں گذشتہ برسوں میں اس قدر نہیں سنائی دی، جس قدر اس مرتبہ سنائی دے رہی ہے۔ فلسطین اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا ایک دن جمعہ الوداع کو بھی منایا جاتا ہے، جو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ہوتا ہے۔ اس دن کو یوم القدس کا عنوان دیا جاتا ہے، جس کا آغاز ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے کیا تھا۔ ان دونوں ایام میں کیا فرق ہے؟ اور ان کی مناسبت کیا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ آیت اللہ خمینی نے روز قدس کو روز اسلام قرار دیا، جس کا مقصد صہیونی اور مغربی قوتوں کی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ روز قدس منانے والے ممالک اور دھڑے سمجھتے ہیں کہ فلسطین پر فقط فلسطینیوں کا حق ہے اور اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جبکہ اس کے برعکس 29 نومبر جسے اقوام متحدہ نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کا دن قرار دیا ہے، یہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی یاد میں منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں فلسطین میں دو ریاستی حل کو پیش کیا گیا تھا۔ یعنی 29 نومبر منانے سے مراد دو ریاستی حل کی یاد منانا۔
قرارداد نمبر 181 جو 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کے ایک خصوصی اجلاس میں منظور ہوئی، اس قرارداد نے فلسطین پر سے برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے کا اعلان کیا، اس قرارداد میں کہا گیا کہ برطانوی افواج اگست 1948ء تک خطے کو چھوڑ دیں گی۔ اس قرارداد کا عنوان بڑا دلچسپ ہے Plan for Partition with economic union یعنی معاشی وحدت کے ساتھ تقسیم کا فارمولا۔ دیکھا جائے تو اس فارمولے نے عالمی سطح پر صہیونی ریاست کو توثیق بخشی، ساتھ ہی اس فارمولے میں ایک عرب ریاست کی بھی بات کی گئی، جسے صہیونیوں نے تو قبول کر لیا، لیکن مسلمان اس کے لیے آمادہ نہ تھے، جو آہستہ آہستہ اس کو قبول کرتے گئے اور آج دنیا کے اکثر مسلمان ممالک اقوام متحدہ کے اس فارمولے کو قبول کرتے ہیں اور اسی فارمولے کو حوالہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں ایک امر قابل ذکر ہے کہ اقوام عالم نے دو ریاستی حل کے فارمولے کی مہربانی فقط فلسطینیوں پر رحم کھا کر یا اپنی انصاف پسندی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے نہیں کی بلکہ اس کا ایک سبب 1920ء میں موسیٰ کاظم، امین الحسینی اور ان کے ساتھیوں کی قیادت میں آزادی کے لیے جدوجہد اور پھر 1936ء تا 1939ء میں عزالدین القسام اور عبدالقادر الحسینی کی قیادت میں عوامی دباؤ تھا، یا شاید یہ سب حقائق صہیونیوں کے سامنے موجود تھے اور ان کے پاس اس سے نمٹنے کا پورا فارمولا موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے تقسیم فلسطین کے فارمولے کو ہم اقوام مغرب اور صہیونیوں کا ایک حربہ قرار دے سکتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ادارہ اپنے لیے ایک منزل کا تعین کرتا ہے، پھر اس ہدف تک پہنچے کے لیے مختلف Milestones کا تعین کرتا ہے، پھر رفتہ رفتہ ایک ایک Milestone کو حاصل کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا تقسیم فلسطین کا فارمولا ایک عظیم اسرائیلی ریاست کے حصول کی راہ میں ایک Milestone ہے، جو صہیونیوں نے بخوبی حاصل کیا۔
سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ، اسلامی ریاست کے حصے بخرے کرنا، صہیونیوں کا فلسطین میں زمینیں مہنگے داموں خریدنا، وہاں سرمایہ کاری کرنا، برطانوی حکومت سے خفیہ معاہدہ، جنگ عظیم میں یہودیوں پر مظالم، ان کا فلسطین کی جانب ہجرت کرنا، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے اور شہریوں پر دہشت گردانہ حملے، یہ سب اس صہیونی ریاست کے Milestones تھے، جس کے لیے یہ تنظیم سرگرم عمل ہے۔ ان ذیلی اہداف کے حصول میں جہاں صہیونی اور ان کے مغربی حواری ذمہ دار ہیں، وہیں مسلمانوں کی جہالت، نااتفاقی، لالچ، ہوس اور مرکزیت کے نہ ہونے کا کردار بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ مسلمان ایک ایک کرکے صہیونی دام کا شکار ہوتے گئے۔ ترکی، مصر، اردن، عرب ریاستیں ایک ایک کرکے دو ریاستی حل کے قائل ہوگئے۔ یہ ایک اور مرحلہ ہے، جو کہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ وہ مسلمان جو پہلے اسرائیل کے وجود کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے، اب اقوام متحدہ کے دو ریاستی حل کو نہ فقط قبول کرتے ہیں بلکہ اس کے سب سے بڑے داعی بھی ہیں اور تو اور اب اکثر مسلمانوں نے اسرائیل کو قبول بھی کر لیا ہے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی استوار کرنے لگ گئے ہیں۔
سبحان اللہ! صہیونیوں نے اس Milestone کو کس خوبی سے حاصل کیا۔ اگلا مرحلہ اب دو ریاستی حل کا خاتمہ ہے، یعنی یہ قبول کیا جائے کہ فلسطین میں ایک ہی ریاست ہوگی، جس کا نام اسرائیل ہے۔ اس ریاست میں فلسطینی مسلمانوں کو کچھ علاقے حاصل ہوں گے، جہاں ان کو کچھ حقوق حاصل ہوں گے۔ اس فارمولے کا نام Century Deal یعنی صدی کا سودا ہے، جس کا شور و غوغا فی الحال تو تھما ہے، تاہم یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس نے آئندہ چند برسوں میں دنیا کے سامنے منظر شہود پر آنا ہے۔ آپ جس قدر مرضی اصولوں کی بات کریں، کہتے رہیں کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے ، یا یہ کہتے رہیں کہ اس خطے میں اقوام متحدہ کے فارمولے کے تحت دو ریاستی حل پر عمل پیرا ہونا چاہیئے۔ فارمولا ساز کے اپنے اصول و قوانین ہیں اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے کہ آپ ہر آنے والے نئے فارمولے کو قبول کریں۔ اس فارمولا ساز کی راہ میں واحد رکاوٹ شاید مزاحمتی گروہ ہیں، جو اس کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، لیکن یہ مزاحمتی گروہ تنہاء اس کے لیے اتنی بڑی مشکل نہیں ہیں کہ جن سے نمٹنا مشکل ہو۔ لہذا وہ واحد چیز جو صہیونی منصوبے کو روک سکتی ہے، مسلمانوں کی مرکزیت ہے، جس کا خاتمہ سو سال قبل ہوچکا ہے۔
یہ مرکزیت ایک روز مسلمانوں کو حاصل ہونی ہے، جس کا وعدہ مسلمانوں سے کیا گیا ہے، ہم کو بھی اب مرحلہ وار مقاصد اور اہداف کے حصول کی حکمت عملی کی جانب بڑھنا ہے، اس کے لیے کسی ریاست یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو صہیونی رژیم سب سے پہلے ریاست یا حکومت کی جانب اقدام اٹھاتا۔ یہ رژیم کسی ظاہری اقتدار کے بغیر دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ آج دنیا میں حکومت سازی، میڈیا پر کنٹرول، معیشت پر تسلط اسی رژیم کو حاصل ہے۔ بات کا آغاز 29 نومبر کو یوم یکجہتی فلسطین سے ہوا تھا۔ فلسطینیوں سے ضرور یکجہتی کا اظہار کریں اور روزانہ کریں، لیکن مکمل آگہی اور شعور کے ساتھ۔ یہ ایک طویل جنگ ہے، جس میں دشمن بہت زیادہ چالاک اور زیرک ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس کی مخالفت کرتے کرتے اس کی حمایت کر رہے ہوں۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز