×

سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(1)

سید اسد عباس

سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(1)

2016ء میں مجھے اربعین حسینی کے موقع پر کربلا جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ عراق گیا تو عشق امام حسین ؑ میں تھا، تاہم دل نجف میں ہار آیا۔ یہ ایک کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے زیادہ عرصہ نجف اشرف ہی رہنے کا موقع ملا، تقریبا 9 روز روزانہ میرا یہ معمول تھا کہ میں اپنی اقامت گاہ سے پیدل حرم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب چل پڑتا تھا، وہاں سارا دن بیٹھا رہتا۔ کبھی ایک ہال میں، کبھی دوسرے ہال میں، کبھی ایک صحن میں، کبھی دوسرے صحن میں۔ کبھی حرم مطہر کے باہر کی دنیا کو محسوس کرتا۔ واقعات کا ایک اژدہام تھا جو میرے اردگرد وقوع پذیر ہو رہا تھا اور میں اس سب کو جذب کرنے کی ناکام کوشش میں تھا۔

جہاں تک کربلا کا تعلق ہے، مشی اربعین کے بعد غروب آفتاب کے قریب میں کربلا پہنچا تھا۔ میرے ہمراہ ایک دوست سید نوید نقوی تھے، جن سے میرا تعارف اسلام ٹائمز کی وساطت سے ہی ہوا۔ نوید بھائی اس وقت نیوز ایجنسی تسنیم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ نوید بھائی کا یہ دوسرا سفر زیارت تھا اور میرا پہلا۔ نوید بھائی سفر زیارت کے ساتھ ساتھ اپنی صحافتی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے تھے اور مجھے بھی اپنے ہمراہ مشغول کیے ہوئے تھے۔ دوران مشی میں نے سوچا کہ نوید بھائی مجھے مصروف رکھیں گے، لہذا مجھے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیئے، تاکہ زیارت امام علیہ السلام انتہائی سکون سے کرسکوں۔ اپنے کاروان کے دوستوں سے تو میں پہلے ہی چھٹکارا حاصل کرچکا تھا۔ اس چھٹکارا پانے کی وجہ ان برادران کی خامی نہیں بلکہ میرے اپنے ذہن اور مزاج کی کمزوری تھی کہ جس میں دوسروں کے ہمراہ نہ تو کسی تجربہ کو پورے طریقے سے محسوس کر پاتا ہوں، نہ میرا فوکس قائم رہتا ہے۔

اب جب ہم دونوں کربلا کے کسی بازار میں داخل ہوئے، جہاں پلازوں، دکانوں نیز زائرین کی بھرمار تھی تو نوید بھائی نے مجھے کہا کہ میں نے جو رپورٹ بنائی ہے، اسے میں لوڈ کر آؤں، آپ یہیں میرا انتظار کریں۔ میں ابھی آتا ہوں، مجھے موقع میسر آیا کہ میں بھی غائب ہو جاؤں اور اپنے آپ کو امام حسین ؑ کے سپرد کر دوں۔ قریب ہی ایک کیفے تھا، جہاں عراقی نوجوان زائرین شیشہ پی رہے تھے۔ میں خاموشی سے اس کیفے میں جا کر بیٹھ گیا اور تقریباً دو گھنٹے اسی کیفے میں بیٹھا رہا کہ نوید بھائی آئیں، مجھے کچھ دیر تلاش کریں اور نکل جائیں۔ اس نشست کے دوران، میں براہ راست رئیس کربلا سے محو کلام تھا کہ مولا کربلا پہنچ گیا ہوں، آپ کا خادم آگیا ہے، آپ کے حرم کی جانب راہ سے ناواقف ہوں، ہر جانب زائرین کا اژدہام ہے، نہیں معلوم حرم کو جانے والے زائرین کون سے ہیں، جہاں میں بیٹھا ہوں، وہاں سے حرم کتنے فاصلے پر ہے۔

جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ لاکھوں کے اس مجمع میں نوید بھائی کہیں جا چکے ہوں گے اور اب مجھے تلاش کرنا ممکن نہیں رہا تو میں اٹھا اور اس کیفے سے باہر نکلا۔ سوچ ہی رہا تھا کہ کس کاروان کے ہمراہ چلوں کہ حرم تک پہنچ جاؤں، اسی دوران مجھے پیچھے سے آواز آئی شاہ جی کدھر ہیں۔؟ میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ نوید نقوی میرے پیچھے کھڑے ہیں۔ میں نے ان سے کہا یہیں بیٹھا تھا، آپ کہاں تھے، کہنے لگے کہ میں تو رپورٹ اپ لوڈ کرکے آیا تو آپ نہیں تھے، اس وقت سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں۔ بہرحال اب ہم دونوں نکل پڑے کہ خود کو حرم تک پہنچائیں، تاہم نوید بھائی کو بھی یاد نہ تھا کہ حرم کس جانب ہے۔ بولے ایک بار کربلا آیا ہوں، اب نہیں معلوم جانا کہاں ہے۔ ابھی ہم ایک کاروان زائرین کے ہمراہ بہ رہے تھے کہ اچانک سے ایک شخص کہیں سے برآمد ہوا اور نوید بھائی سے بولا کہ آپ پاکستانی ہیں، حرم امام ؑجا رہے ہیں، پھر تیز تیز قدموں سے ہمارے ساتھ چلنے لگ گیا، جیسے ہمیں بتا رہا ہو کہ جلدی چلیں، یہی درست راستہ ہے۔

مسعود نے مزید کہا کہ ہم اقوام متحدہ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، یورپی یونین، شنگھائی علاقائی تعاون تنظیم، سارک، ای سی او، ہارٹ آف ایشیا کے اراکین ممالک، اسلامی تعاون تنظیم، خطے اور دنیا کے بااثر ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ افغان عوام کی خواہش پر طالبان کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعاون سے اجتناب کریں۔ ذرائع کے مطابق حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ ہم طالبان حکومت کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہم نے طالبان ‏کو مشورہ دیا تھا کہ پہلے عبوری حکومت قائم کریں۔ گلبدین حکمت یار نے کہا کہ غیر یقینی صورتحال میں حزب اسلامی طالبان کی تائید کرتی ہے۔ 20 سال جدوجہد کرنے والے ہی عبوری ‏کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گلبدین حکمت یار نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آنے والے وقت میں لوئیہ جرگہ اور ملک کی آئین ‏سازی کیسے ہوگی؟ پارلیمنٹ کو کونسی شوریٰ تبدیل کرے گی۔؟

راستے میں انھوں نے ہمارے بارے میں پوچھا، سفر زیارت کے بارے پوچھا اور کچھ اپنے بارے بتایا۔ اچانک انھوں نے ہمیں اس راہ سے ہٹا دیا، جہاں سب زائرین جا رہے تھے بلکہ پلازوں کے اندر سے بند یا کھلی دکانوں کے سامنے سے گزرنا شروع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ وہ دکانیں کھلی تھیں یا بند تھیں۔ اچانک اس برادر نے ہمیں ایک بڑی شاہراہ کے سامنے پہنچا دیا اور بولے کہ اب مجھے اجازت دیں۔ نوید بھائی اور میں حیران ہوئے کہ آپ نہیں جا رہے تو وہ اجنبی شخص بولا کہ نہیں میں یہیں ہوتا ہوں، آپ اس شاہراہ پر چلتے جائیں، حرم امام ؑ تک پہنچ جائیں گے۔ کربلا میں اس وقت سورج غروب ہوچکا تھا۔ برقی قمقمے روشن تھے، زائرین اس بڑی شاہراہ پر ایک سمت میں رواں دواں تھے، ہم بھی ان کے ہمراہ چلے جا رہے تھے کہ اچانک ہماری نظریں رئیس کربلا کے سنہری گنبد پر پڑیں۔

السلام علیک یا ابا عبد اللہ


بے ساختہ زبان سے یہ کلمہ جاری ہوگیا، تاہم یقین مانیں دماغ میں اور کچھ نہ تھا۔ لاکھوں زائرین کا مجمع انتہائی پرسکون انداز سے حرم کی جانب بڑھا جا رہا تھا، ہم نہیں سوچ رہے تھے کہ ہمیں پہلے کہاں جانا ہے، روضہ ابو الفضل العباس میں یا حرم امام حسین علیہ السلام میں، کم از کم میرے دماغ میں اس کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔ نوید بھائی بولے ابھی رش ہے، تھوڑی دیر انتظار کرتے ہیں، اس کے بعد زیارت کریں گے۔ پھر انہیں خیال آیا کہ یہاں قریب ہی ایک ٹی وی چینل میں ایک پاکستانی دوست کام کرتے ہیں، ہم ان کا پتہ کرتے ہیں، شاید موجود ہوں، کچھ دیر ان کے پاس گزار لیتے ہیں۔ اب ہم حرم ابو الفضل العباس علیہ السلام کے قریب ہی واقعہ ایک پلازہ کے باہر کھڑے تھے، معلوم کیا تو رضوی صاحب موجود تھے۔ ہم ان کے پاس پہنچ گئے، رضوی صاحب نے کہا آئیں اوپر سٹوڈیو میں چل کر نماز پڑھتے ہیں۔ ہم اوپر گئے اور سب نے نماز مغربین ادا کی۔ نوید بھائی رضوی صاحب کے ہمراہ نیچے چلے گئے، اب میں سٹوڈیو میں تنہا تھا۔ سٹوڈیو کی بڑی سی دیوار جو شیشے کی تھی، کے سامنے سے پردہ ہٹا دیا گیا تھا، جس کے سامنے رئیس کربلا اور ان کے باوفا شیر کا حرم دکھائی دے رہا تھا اور اس کے اردگرد لاکھوں زائرین پروانوں کی مانند گردش کر رہے تھے، جبکہ سٹوڈیو میں کوئی آواز نہ آرہی تھی۔

خاموشی اور سکون۔ یہ وہ پرسکون ماحول تھا، جس نے مجھے میدان کربلا میں پہنچا دیا، نہ جانے کتنی دیر اسی کیفیت سے دوچار رہا۔ اس موقع کو میں نے رئیس کربلا کی نظر کرم جانا کہ وہ تیرے مزاج سے کس قدر آگاہ ہیں اور کتنے کریم ہیں کہ انھوں نے تجھے اربعین کے ہجوم میں تنہائی عطاء کی۔ واقعات، تجربات، محسوسات اس قدر ہیں کہ ان کو بیان کیا جائے تو شاید ایک کتاب تشکیل پا جائے۔ مجھے یقین ہے کربلا جانے والا ہر فرد آقا امام حسین علیہ السلام کے لطف و کرم کا یونہی تجربہ کرتا ہے، تبھی تو 500 کلومیٹر کی دوری سے لوگ اس کریم میزبان کی جانب پیدل چل کر جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا ہر قدم ایک قیمت رکھتا ہے اور جس کے لیے سفر کی یہ صعوبتیں برداشت کی جا رہی ہیں، وہ اتنا کریم ہے کہ انسان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات، مزاج کی باریکیوں، افکار سے آگاہ ہے اور ہر شخص کی اس کے مزاج کے مطابق پذیرائی کرتا ہے۔ ہاں نوید بھائی نے بھی کربلا پہنچنے کے بعد اپنے بیگ سے کیمرہ نہ نکالا بلکہ ہمہ تن زیارت میں مشغول ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز

Share this content: