روشن مستقبل کا انتظار

Published by fawad on

سید حیدر نقوی
سید حیدر نقوی

إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
اللہ کی رحمت یقیناً نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔(سورہ اعراف ،۵۶)
قال رسول اللهﷺ: انتظارالفَرَج بالصبرعبادۃ
صبر و استقامت کے ساتھ فَرَج و فراخی کا انتظار، عبادت ہے۔(الدعوات للراوندی: ۱۰۱/۴۱)
انتظارکا لغوی معنی : صبرکرنا، توقع رکھنا
جبکہ آیہ مبارکہ اور حدیث سے بھی ہمیں انتظار کا یہی معنی و مفہوم سمجھ آتا ہے۔
پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا:
میرے خاندان میں سے ایک مرد قیام کرے گا اس کا نام اور سیرت میری شبیہ ہو گی وہ اس جہان کو عدل و عدالت ایسے بھر دے گا کہ جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہو گی ۔ (معجم کبیر،ج۱۰،ح۱۰۲۲۹،ص۸۳)
تمام عالم منتظر ہے ایسے نجات دہندہ کا جو پورے عالم میں عدل و انصاف کو قائم کرے۔ انسان فطرتاًعدل و انصاف کا خواہاں ہے مگر یہ کہ انسان ابلیسی خصوصیات کو اختیار کرتے ہوئے خود کو وحشی بنالیتاہےاور شیطانی راستے پر چلتے ہوئے اس دنیا کو تاریکی، ظلم و ستم کی طرف دھکیلنے میں اپنے شیطان صفت بھائیوں کی مدد کرنے میں اس ابلیس کے وفاداروں میں شامل ہو جاتا ہے جو خود راندہ درگاہ پروردگار ہے۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ
فرمایا تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو بھی تیری اتباع کرے گا تو میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا ۔(سورہ اعراف ،۱۸)
اس بنا پر ابلیس جو خود جنت سے ذلیل و خوار ہوکر نکلا ہوا ہےاور نہ ہی اس کاکوئی پیروکار بھی کبھی جنت میں جاسکے گا۔ جو خود اس دنیا میں تاریکی کا باعث بن رہے ہیں وہ جہنم کی تاریکیوں میں اپنے مرشد ابلیس اعظم کے ہمراہ ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہی ہوں گے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو انسانوں کی راہنمائی کے لیے بھیجا تاکہ وہ انہیں جہنم کی تاریکیوں سے بچائیں اور اُس روشن اور پاکیزہ جنت کے لیے تیار کریں جہاں اللہ اپنے پاکیزہ بندوں کو انعام عطا کرے گا جس کا وعدہ اللہ نے فرمایاہے:
وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ
اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔(سورہ بقرہ، ۲۵)
ہمیں اس خوبصورت دنیا کو ایسا روشن ، عدل و انصاف سے بھرنے کے لیے تیار کرتے ہوئے اس عظیم ہستی کے انتظار میں رہنا ہے جس کا وعدہ رب کریم اور اس کے پیارے نبی اکرم ﷺ نے کیا ۔اس عظیم مصلح کا انتظار صرف مسلمانوں میں ہی موجود نہیں بلکہ یہ تمام آسمانی ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے انسانوں کے درمیان جتنے بھی اختلافات موجود ہوں مگر سب ایسی ہستی کے آنے کے منتظر ہیں جو اس تاریکی، ظلم و ستم سے بھری دنیاکو ایسے روشن ، عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ رب العظیم نے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہے:
وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ
اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کے وارث قرار دیدیں ۔(سورہ قصص آیت ۵ )
بلکہ قرآن مجید میں سورہ قصص ، آیت ۱۰۵ میں اس بات کا ذکر بھی کیا کہ اس بابرکت کتاب سے پہلے آسمانی کتاب زبور میں بھی اس کا ذکر موجود ہے:
”اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے“۔
یہ وعدہ اس رب الکریم کا وعدہ ہے جو کہتا ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ
بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(آل عمران،۹)
اس سے ایک اور بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے عظیم مصلح کا انتظار کا نظریہ نبی پاک ﷺ کے آنے کے بعد سے نہیں بلکہ یہ انسانوں کے درمیان پہلے سے موجود تھا جیسے مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے اس بارے میں واضح علامات اور خصوصیات کا ذکر کرکے انسانوں کے لیے روشن مستقبل کی اُمیدکو یقین کی منزلت پر پہنچا یا۔اس عقیدہ کو اپنانا نہ صرف تسکین کا باعث ہےبلکہ انسانوں کے روشن مستقبل، عدل و انصاف کے ارادہ کو قوی تر کرتا ہے۔

https://m.facebook.com/Awaitedsavior12/
مختلف ادیان میں عظیم مصلح کا ذکر کیا گیا ہے یہاں پر ہم اختصار سے کچھ کو بیان کرتے ہیں:
عیسائیوں میں انتظار کا عقیدہ:
عیسائیت کے بنیادی عقائد میں سے ایک ”انتظار “ ہے جو اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک مشترکہ عنصر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں پروردگار عالم مومنین کی نسبت یہودیوں کی دشمنی کو بدترین دشمنی قرار دیتا ہے وہاں عیسائیوں کو اسلام سے نزدیک گردانتا ہے:
َتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ
آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔ (سورہ مائدہ،۸۲)
خداوند عالم نے اس آیت میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ملنسار اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی دعوت دی ہے اور خاص طور پر اس اعتبار سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام امام مہدی موعود کے ساتھ ظہور کریں گے اور ان کے ساتھیوں میں سے ہوں گے، عیسائیوں کے ساتھ مہر محبت سے پیش آنا اور انہیں بھی انتظار کی راہ میں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں ابو الحسین آبری نے کہا:حضرت امام مہدی سے متعلق روایات متواتر ہیں اور راویوں کی اکثریت نے حضرت رسول خدا ﷺ سے یہ روایتیں نقل کی ہیں:
”وہ ظاہر ہوں گے اور وہ آپ ﷺ کے اہل بیت (علیہم السلام) میں سے ہوں گے اور وہ زمین سے ظلم و ناانصافی کو ختم کرتے ہوئے ایک عادل حکومت کا قیام فرمائیں گے اور ان کے زمانے میں حضرت عیسیٰ ظاہر ہوں گے اور ان کا دور حضرت عیسیٰؑکی واپسی کا دور ہوگا اور حضرت عیسیٰ آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔“
( المنار المنیف فی الصحیح والضعیف،فصل ۵۰، الصواعق المحرقہ، باب۱۱، کتاب۱، ص۲۵۴)
کتب احادیث میں اس طرح کی اور بہت ساری احادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک کے یہاں پر حوالے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں:
کتب اہل سنت:
۱۔ بخاری، الصحيح، ۳:۱۲۷۲، رقم :۳۲۶۵ ۲۔ مسلم، الصحيح،۱ : ۷۔۱۳۶، رقم :۱۵۵
۳۔ ابن حبان، الصحيح، ۱۵: ۲۱۳، رقم : ۶۸۰۲ و ۶۸۱۹ ۴۔فتح الباری، ج۶، ص ۴۹۳
۵۔ ابن مندہ، الايمان،۱ : ۵۱۷، رقم :۴۱۸ ۶۔ ابن جارود، المنتقی،۱: ۲۵۷، رقم :۱۰۳۱
۷۔ بیہقی، السنن الکبریٰ،۹:۱۸۰ ۸۔ ابو عوانہ، المسند،۱ :۹۹، رقم : ۳۱۹
کتب شیعہ:
۱↑۔ طوسی، محمد بن حسن (شیخ طوسی)، کتاب الغیبۃ، ص۱۹۱، ح‌۱۵۴
۲ ↑ ۔ابن بابویہ، محمد بن علی (شیخ صدوق)، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۳۱۶، ح۲
۳ ↑ ۔ملاحم، ابن طاووس، ص۸۳
۴ ↑ ۔ الفتن، ابن حماد، ص۱۶۰
۵۔ ↑ ابن بابویہ، محمد بن علی (شیخ صدوق)، ألامالی، ص۲۸۷، ح۴
۶ ↑ ۔غایۃ المرام، ص۶۹۷
۷ ↑ ۔ حلیۃ الابرار، بحرانی، ج۲، ص۶۲۰
عیسائیت کا جدید و قدیم نظریہ:
عہد قدیم توریت (Old testament ) میں مزا میر داؤد نامی کتاب میں مرقوم ہے کہ خداوند عالم کے معتبر لوگ زمین کے وارث ہونگے۔
جدید انجیل (لوقا) ( New Testament ) میں درج ہے کہ تم ایسے لوگوں کو طرح رہو جو اپنے آقا کا انتظار کر رہے ہوں۔
( ناصر مکارم شیرازی، بہار انقلاب )
ہندو ؤں کے عقیدہ کے مطابق:
کتاب وید جو کہ ہندو کے ہاں آسمانی کتابوں میں شمار ہوتی ہے مہدی موعود سے متعلق عقیدے کا اس طرح اظہار کیا گیا ہے :
” دنیا کے (اخلاقی اعتبار سے) مکمل خراب ہونے کے بعد ایک آخر الزمان پیدا ہوگا جو تمام خلائق کا پیشوا ہوگا۔ اس کانام منصور(منصور یعنی جسے اللہ کی نصرت حاصل ہو اور مہدی یعنی جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو۔)ہوگا اور تمام دنیا پر ان کی حکمرانی ہوگی۔“(کتاب بشارت عہدین، ص۲۴۵)
اسی طرح کے نظریہ ہندوؤں کے مذہبی رہنما ” شاکونی“ کی کتاب سے نقل ہوا ہے کہ ـ:
” دنیا کا خاتمہ سید خلایق دو جہاں ” کِش “ [پیامبر اسلام ]پرہوگا جس کا نام ستادہ [ موعود] خدا شناس ہے۔
جبکہ کتاب ” باسک “ میں لکھا ہے:
آخری زمانے میں دین ومذہب کی قیادت ایک عادل بادشاہ پر ختم ہوگی جو جن وانس اور فرشتوں کا پیشوا ہوگا۔ “
اسی طرح ” کتاب پاتیکل“ میں آیا ہے :
”جب دنیا اپنے آخری زمان کو پہنچے تو یہ پرانی دنیا نئی دنیامیں تبدیل ہوجائے گی اوراس کے مالک دو پیشواوں ” ناموس آخرالزمان [ حضرت محمد مصطفی] “ اور ” پشن[ علی بن ابی طالب ] “ کے فرزندہوں گے جس کا نام ”راہنما “ ہوگا۔ “(ستارگان درخشان ، ج۴۱، ص ۲۳)
زرتشتیوں کے مطابق:
زرتشتیوں کی کتاب "جاماسب نامہ” میں اس طرح سے لکھا ہے :
پیغمبر عرب ، آخری پیغمبر ہیں کہ جو مکہ کے پہاڑوں سے نکلیں گے کہ جس کا دین اشرف دین ہو گا اس کی کتاب سب کتابوں کو باطل کرنے والی ہو گی اور اس کی بیٹی سے جو فرزند ہوں گے ان میں سے آخری کا نام خورشید جہان شاہ زمان ہو گا جو خدا کے حکم سے بادشاہی کرے گا اور اس کی حکومت قیامت تک باقی رہے گی ۔
(ادیان ومہدویت،ص۲۱)
زرتشتی مذہب کا آخری زمانے میں ظہور مصلح کے بارے عقیدہ:
زرتشتیوں کی اوستا کے علاوہ فقہی اور دینی احکام و آداب پر مشتمل کئی مفصل کتابیں ہیں کہ جن میں طہارت، نجاسات، ازدواج و طلاق اور تجارت کے قوانین کو بیان کیا گیاہے ۔اوستا میں جمع اور مفرد کی صورت میں ‘سوشیانس‘‘ کا لفظ کئی مرتبہ استعمال ہواہے۔ سوشیانس’سویا‘‘ سے لیا گیاہے جس کا معنی فائدہ اورمنفعت ہے اوراس کا لفظ کا معنی فائدہ پہنچانے والا ہے۔
اسے اس وجہ سے سوشیانس کہاجاتاہے کیونکہ وہ پوری دنیا کو فائدہ اور نفع پہنچائے گا۔( پوردا، سوشیانس، ص۱۰و ۸۔)
جمع کی صورت میں استعمال ہونے والا لفظ زرتشت اس کے حامی، مددگار، مبلغین اور آئندہ جہان کو تشکیل دینے والوں کو شامل ہے جن کی عمد ہ خصوصیات درج ذیل ہیں:
عقلمندی ، نیک کام کرنا، تمام موجودات کو فائدہ پہنچانا، پروردگار کی ثناء کرنا، معنوی حالت کو آراستہ کرنا اور دنیا کو جھوٹ سے پاک کرنا۔( دینکرد، کتاب نہم ،فصل۵۸ ،فقر، ۱۵۔)
چونکہ دین کا آغاز ایک قائد یعنی زرتشت سے شروع ہو ا اورایک قائد پر اس کا خاتمہ ہوگا اورسوشیانس آخری دینی پیشوا ہوگا۔( اوشیدری، دانش مزدینا،ص۱۳۷۔)
اسلام اور مزدینا کے مابین اس مصلح کے عقیدہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موعود زندہ ہے جبکہ مزدینا کا عقیدہ ہے کہ وہ ظہور سے پہلے پیدا ہوں گے۔
ظہور کی علامات:
سوشیانس کے آنے میں اتنی دیر لگ جائے گی کہ اس کے بارے میں کہاجائے گا کہ وہ نہیں آئے جبکہ وہ ضرور آئے گا۔( وینکرد ، کتاب نہم، فصل ۳۲، فقرہ اول۔)
آسمان پر تیس دن سورج رُک جائے گا۔ ( پورداد ،سوشیانس، ص۴۶۔)
‘جوز ھرمار ‘یا ‘گوزھر‘ نامی شہاب ثاقب زمین پر گرے گا۔( بندھش ھندی، بخش۲۶۔)
زمین پربہت زیادہ زلزلے آئیں گے، جوان جلد بوڑھے ہوجائیں گے،برے کردار والا شخص اپنے کردار سے راضی ہوگا اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ، ظالم کی تعریف اوردیندار افراد کی توہین کریں گے۔( یادگار جاماسب (جاماسب نامہ) ترجمہ صادق ہدایت،ص۸ و۱۱۷۔)
موعود کی خصوصیات:
ژ وہ دوسرے تمام لوگوں سے قوی ہیکل ہوگا۔ژ بخشش اور محبت کی نگاہ سے دنیا والوں کو دیکھے گا ۔ژ مخلوقات کے درمیان عقلمندی سے فیصلے کرے گا ۔ ژ دنیا کو جاودانگی عطا کرے گا۔ژ وہ تمام مخلوقات سے زیادہ عقلمند ، سچا، مدد کرنے و الا اور عالم ہوگا۔( اوستا،زامیادیشت، ص۹۴،یسنا ص۳ور۱۳۔)
یہودیوں کے مطابق :
منجی عالم بشریت دین یہود میں:
یہودی قوم کا نظریہ ہے کہ وہ شخص جناب إسحاقؑ کے نسل سے ہوگا ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے بعد میں آئےگا؛ چنانچہ توریت کا یہودی مفسر ”حنان إیل“ سفر تکوین نمبر۱۷ إصحاح نمبر ۲۰ کے ذیل میں لکھتا ہے :
اس آیت کے پیش گوئی سے ۲۳۳۷ سال گزر گئے یہاں تک عرب إسماعیلؑ کی نسل سے ایک عظیم اُمت کی شکل میں پورے عالم پر غالب آیا ہے کہ جس کے جناب إسماعیلؑ مدّتوں سے منتظر تھے لیکن ذریہ اسحاقؑ میں ہماری گناہوں کی وجہ سے خدائی وعدہ اب تک پورا نہیں ہوا ہے پھر بھی ہمیں اس حتمی وعدے کے پورے ہونے میں نااُمید نہیں ہونا چاہیے –۔
امام مہدی ؑکا شجرہ نسب باپ کی طرف سے جناب اسماعیل اور ماں کی طرف سے جناب اسحاق سے ملتا ہے۔ اس اعتبار سے نسل پرست یہودیوں کے پاس بھی امام مہدی ؑکے پرچم کے زیر سایہ نہ آنے کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے۔
جس طرح ہر مذہب میں منجی موعود کا عقیدہ ہے اسی طرح قوم یہود بھی منجی موعود کا عقیدہ رکھتے ہیں :
یہود معتقد ہے کہ آخر الزمان میں "ماشع” ظہور کرےگا اور ابدالآباد جھان میں حکومت کرےگا۔ وہ ان کو اولاد حضرت اسحاق سمجھتے ہیں، حالانکہ توریت "کتاب مقدس یہود” میں صریحاً انکو اولاد اسماعیل جانا ہے ۔ ( موعود نامہ ص ۷۰۸)
یہودیوں کے نزدیک آخری نجات بخش "ماشیا” یا "مسیح” ہے جو جھان کو پاک کرےگا۔ ( اسطورہ سوشیانت ص ۳)
توریت میں کتاب اشعیا نبی گیارہویں باب میں آزاد کروانے والے کے بارے میں کہتے ہیں: مسکینوں کے درمیان عدالت کے ساتھ داوری کرےگا، مظلومون پر ظالموںکے ظلم کو رکوادےگا،شریروں کو زیر کرےگا اور جھان میں عدالت الھی کو عام کرنے کے لئے کمر باندھ کے کھڑا ہوجائےگا، جس کے ظھور ہونے کی وجہ سے تمام ہستی سے ستم ختم ہوجائےگا، بھیڑ اور بھیڑئے، چیتا اور بکری، ایک ساتھ ہونگے، گائے،شیر اور بھیڑ ایک ہی ساتھ (ایک ہی جنگل میں) چرےنگے۔۔۔( اسطورہ سوشیانت ص ۴)
منجی عالم کے بارے میں یہودیوں کے اہم عقائد:
اساسی ترین اصول آئین یہود میں، ماشیح کے ظہور اور دورہ نجات (گئولا)کا ہے۔
ہر فرد یہودی جو ماشیح کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور اس کے آنے کے انتظار میں چشم بہ راہ نہ رکھتا ہو،(اس کو)حضرت موسی اور بقیہ انبیاء بنی اسرائیل کے باتوں کا منکر ماناجاتا ہے۔۔۔( موعود نامہ ص ۷۰۸،۷۰۹)
زبور داوود میں لکھا ہے : بار الٰہی اپنی حکومت مَلِک کو دے اور اپنی عدالت کو مَلِک کے فرزند کو عطا فرما تاکہ لوگوں کے درمیان نیکی سے حکم و حکومت کرے۔( موعود شناسی ص ۱۱۰)
۱مام مہدیؑ کا ذکر کتب آسمانی میں:
ژ حضرت داؤد کی زبور کی آیت ۴، مرموز ۹۷ میں ہے کہ آخری زمانہ میں جو انصاف کا مجسمہ انسان آئے گا، اس کے سر پر ابر
سایہ فگن ہوگا۔
ژ کتاب صفیائے پیغمبر کے فصل ۳ آیت ۹ میں ہے آخری زمانے میں تمام دنیا موحد ہو جائے گی۔
ژ کتاب زبور مرموز۱۲۰ میں ہے جو آخرالزماں آئے گا، اس پر آفتاب اثرانداز نہ ہو گا۔
ژ صحیفہ شعیب پیغمبر کے فصل ۱۱ میں ہے کہ جب نور خدا ظہور کرے گا تو عدل و انصاف کا ڈنکا بجے گا۔ شیر اور بکری ایک جگہ رہیں گے چیتا اور بزغالہ ایک ساتھ چریں گے شیر اور گوسالہ ایک ساتھ رہیں گے، گوسالہ اور مرغ ایک ساتھ ہوں گے شیر اور گائے میں دوستی ہوگی۔ طفل شیرخوار سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالے گا اور وہ کاٹے گا نہیں پھر اسی صفحہ کے فصل ۲۷ میں ہے کہ یہ نور خدا جب ظاہر ہوگا، تو تلوارکے ذریعہ سے تمام دشمنوں سے بدلہ لے گا۔
ژ صحیفہ تنجاس حرف الف میں ہے کہ ظہور کے بعد ساری دنیا کے بت مٹا دیے جائیں گے، ظالم اور منافق ختم کردیے جائیں گے یہ ظہور کرنے والا کنیز خدا (نرجس) کا بیٹا ہو گا۔
Dialectical Materialism
جو تاریخ کی تعبیر، تضاد کی بنیاد پر کرتا ہے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ :
ایک دن ایسا آئے گا جب تمام تضاد دُور ہو جائیں گے اور دنیا میں صلح و آشتی کا دور دورہ ہوگا۔(انتظار امامؑ، سید محمد باقر الصدرؒ ، ص ۲۳، جامعہ تعلیمات اسلامی ، پاکستان)
نوسٹر ڈاموس (Nostradamus ):
نوسٹر ڈاموس جس کی پیشن گوئیاں چھٹی صدیاں سے زیر بحث ہیں نے اپنی پیشین گوئیوں میں متعدد جگہوں پر ایک بڑے مصلح کے ظہور کی طرف اشارہ کیا ہے ،وہ ایک جگہ کہتا ہے:
آئین ومذہب کے بڑے علمبردار کے آتے ہی مقدس نماں شان و شوکت کے تمام پر جھڑ جائیں گے وہ فروتنی و تواضع اختیار کریں گے اور باغیوں کو درد سر میں مبتلا کر دیں گے اس کے مانند روئے زمین پر پھر کوئی نھیں دکھائی پڑے گا۔( مائیکل دڈونوسٹر اڈم(۱۵۰۳۔ ۱۵۶۵ میلادی) معروف بہ نوسٹرا ڈاموس )
مستشرقین کا نظریہ:
ہنری کوربن (Henry Corbin) :
کوربن کا کہنا ہے کہ ظہور (امامؑ)کے ساتھ، وحیِ الہی کے تمام خفیہ اصول یا معنوی معانی، آشکار ہوجائیں گے۔(موسوی گیلانی، سیدرضی، وہی مقالہ، 1385، ص77)
دور حاضر کے اہل سنت علماء کا نظریہ:
امام مہدیؑ کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا موقف:
ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے کہ امام مہدی قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے اور وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں اور وہ زمین کو عدل وانصاف کے ساتھ بھر دیں گے جیسا کہ ان سے پہلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔۔۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے امام مہدی کے خلیفہ ہونے کی پیش گوئی فرمائی اور امام مہدی کی پیروی کرنا ان امور میں واجب ہوا جو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا، لیکن یہ پیروی فی الحال نہیں بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ امام مہدی کا ظہور ہوگا اور حجر اسود اور مقام ابراھیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگی۔(شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ،ازالۃ الخفا )
سید نفیس الحسینی ؒ کا اظہار ایمان:
ایک سال سے زائد عرصہ ہورہا ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص میں ’’سیدنا الامام المھدی رضوان اللہ علیہ و سلامہ‘‘ کی ذات اقدس مختلف انداز سے موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے ’’الامام المھدی‘‘ کے بارے میں سید الاولین والآخرین ﷺ کی پیشنگوئی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اس میں تکرار کرے۔(الامام المہدی رضوان اللہ علیہ وسلامہ از مولانا سید محمد بدر عالم مہاجر مدنی کے آغاز میں )
مولانا حسین احمد مدنیؒ کا ایک اہم اقدام:
بعض مجالس علمیہ میں مہدیٔ موعود کا ذکر آیا تو کچھ ماہرین علم نے مہدیٔ موعود سے متعلق وارد حدیثوں کی صحت سے انکار کیا تو مجھے یہ بات اچھی لگی کہ اس موضوع سے متعلق مروی حسن و ضعیف روایتوں سے قطع نظر صحیح حدیثوں کو جمع کردوں تاکہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تبلیغ بھی ہوجائے۔ نیز ان حدیثوں کے جمع و تدوین سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض ان مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکا نہ کھا جائیں جنھیں علم حدیث سے لگائو نہیں ہے جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگرچہ فن تاریخ میں معتمد و مستند ہیں لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا اعتبار نہیں ہے۔(الخلیفۃ المہدی فی الاحدیث الصحیحہ)
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا موقف:
اپنی تالیف "القول المعتبر فی الامام المنتظر” میں ۳۵ ماخذ و مراجع کے حوالہ سے امام مہدی سے متعلق کوائف جمع کئے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱۔ حضرت مہدی امام برحق اور بنو فاطمہ سے ہیں۔
۲۔ امام مہدی کا دور خلافت آئے بغیر قیامت بر پا نہیں ہوگی۔
۳۔ امام مہدی زمین پر معاشی عدل و انصاف کا نظام قائم کریں گے۔
۴۔ تمام اولیا اور ابدال امام مہدی کے دست اقدس پر بیعت کریں گے۔
۵۔ امام مہدی خلیفۃ اﷲ علی الاطلاق ہونگے۔
۶۔ امام مہدی کے ذریعہ دین کو پھر غلبہ اور استحکام ہوگا۔
۷۔ امام مہدی کی اطاعت واجب اور تکذیب کفر ہے۔
۸۔ امام مہدی کے لئے آسمانی اور زمینی علامات کا ظہو رہوگا۔
۹۔ امام مہدی آخر الزمان روئے زمین پر بارہویں امام اور آخری خلیفۃ اﷲ ہونگے۔
مولانا مودودی ؒ کا موقف:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلابی لیڈر کو دنیا میں جس طرح شدید جدوجہد اور کشمکش کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے انہی مرحلوں سے مہدی کو بھی گزرنا ہو گا۔ وہ خالص اسلام کی بنیادوں پر ایک نیا مذہبِ فکر (School of thought) پیدا کرے گا۔ ذہنیتوں کو بدلے گا، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا جو بیک وقت تہذیبی بھی ہو گی اور سیاسی بھی، جاہلیت اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اس کو کچلنے کی کوشش کرے گی، مگر بالآخر وہ جاہلی اقتدار کو الٹ کر پھینک دے گا اور ایک ایسا زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کرے گا جس میں ایک طرف اسلام کی پوری روح کارفرما ہو گی، اور دوسری طرف سائنٹفک ترقی اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے "اس کی حکومت سے آسمان والے بھی راضی ہوں گے اور زمین والے بھی، آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا، اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی۔(اسلام میں امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تصور، ص۲۴۶)
امام مہدیؑ پر کتب اہل سنت :
بعض اہل سنت علماء نے مہدی موعود کے سلسلے میں مستقل کتابیں تألیف کی ہیں جن کی فہرست ، ان کی دستیاب کتابوں کے ناموں کے ہمراہ یہاں پیش کرتے ہیں:
الف۔ ابونعیم اصفہانی ، مناقب المہدی،عت المہدی و اربعین حدیثاً فی المہدی ۔
ب۔ جلال الدین سیوطی، العرف الوردی فی اخبار المہدی و علامات المہدی ۔
ج۔ ابن حجر عسقلانی، کتاب القول المختصر فی علامات المہدی ۔
د۔ کنز العمال کے مؤلف ملاعلی متقی ھندی،‌ تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخرالزمان
ھـ۔ ملاعلی قاری ہندی، کتاب المشرب الوردی فی اخبار المہدی
و۔ حافظ ابوعبداللہ گنجی شافعی، کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان
ز۔ شیخ یوسف بن یحیی بن علی مقدسی شافعی، کتاب عقد الدرر فی اخبار المہدی المنتظر
ح۔ شیخ مرعی بن یوسف مقدسی: فوائد الفکر فی الامام المنتظر اور مرآۃ الفکر فی المہدی المنتظر
ط۔ حماد بن یعقوب رواحبی، کتاب اخبار المہدی
ی۔ شیخ جمال‎الدین دمشقی،‌کتاب عقد الورد فی اخبار الامام المنتظر

یہ بھی پڑھیں:

امام مہدی ؑکی انبیاء سے شباہتیں

https://albasirah.com/urdu/imam-mehdi-anbia/


دور حاضر کے شیعہ علماء کا نظریہ:
امام خمینی ؒ فرماتے ہیں:
حجت دوراں، امام عصر حضرت مہدی موعودعلیہ السلام کو عام طور پر "امام زمانہ، صاحب الزمان اور ولی عصر” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ؑ گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں اور حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے۔ آپ کا نام نامی پیغمبر خاتم حضرت محمد ﷺ کے نام پر ہے۔ اور آپ کی کنیت بھی پیغمبر کی کنیت "ابوالقاسم” ہے۔ آپ کی ولادت با سعادت 15/ شعبان سن 255 ھ ق کو سامراء میں ہوئی، لیکن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ طور پر زندگی گزارتے رہے کیونکہ اس وقت کی ظالم و جابر اور حکومت اور اقتدار کی بھوکی عباسی حکومت کو معلوم ہوچکا تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو دنیا سے ظلم و جور کی بساط کو لپیٹ دے گا اور وقت کے فرعون اور نمرود و شداد اور جابر حکمرانوں کے تخت و تاج کو ویران کرکے عدل و انصاف کی حکومت قائم کرے گا اور پوری دنیا میں ایک ہی پرچم لہرائے گا جس پر لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ لکھا ہوگا۔
(ur۔imam-khomeini۔ir)
استاد شہیدمرتضیٰ مطہری فرماتے ہیں:
مہدی موعود (عج) کا ظہور ،اس وعدے کی حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے قدیم ترین زمانے سے، آسمانی کتابوں میں صالحین سے کیا ہے زمین فقط اور فقط اُن کی ہےاور اس کا اختتام صرف متقین کے ذریعے ہوگا۔(سیری در سیرہ ائمہ اطھار علیہم السلام)
آیت اللہ سید باقر الصدر فرماتے ہیں:
مہدیؑ فقط اسلامی عقیدے کی تجسیم ہی نہیں بلکہ اُس آرزو کا نشان بھی ہیں جو تمام انسانیت اپنے مختلف دینی عقائد کے باوجود اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہے۔ وہ اس سبق آموز وجدان کی معین شکل بھی ہیں جس کی بدولت عالم انسانیت اپنی مختلف دینی وابستگیوں کے باوجود ایک ایسے دن کے انتظار میں ہے جب آسمانی ادیان اپنے تمام مفہومات کے ساتھ اپنا انتہائی مقصد پالیں گے اور تاریخ کی راہ پر انسانیت کا تھکا دینے والا سفر بالآخر امن اور سکون کی منزل پر تسلی بخش طور پر ختم ہو جائے گا۔(انتظار امامؑ، سید محمد باقر الصدرؒ ، ص ۲۲، جامعہ تعلیمات اسلامی ، پاکستان)
آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں:
امام زمانہ (عج) کے ظہور اور مہدویت کے بارے میں اللہ تعالی کا وعدہ قطعی اور یقینی ہے اور طول تاریخ میں اللہ تعالی کے وعدوں کا محقق ہونا درحقیقت انسانوں کے لئے ایک قسم کا اطمینان ہے اورظہور کا عظیم وعدہ بھی محقق ہوکر رہےگا۔تمام ادیان الٰہی کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ کاروان بشریت اختتام میں ایک مطلوب اور دلنشین منزلگاہ تک پہنچ جائے گا جس کی اہم خصوصیت عدل و انصاف کا نفاذ ہے ۔(ur۔imam-khomeini۔ir)
امام مہدی علیہ السلام کے مختلف نام :
مختلف کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً دنیا کے جملہ مذاہب اور عقلاء اس بات پر متفق ہیں کہ آخری زمانہ میں ایک ایسی ہستی آئے گی جو دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف سے اس کرہ ارض کو بھرے گی اور معاشرے کے اخلاق کو درست کرے گی البتہ ایسی ہستی کا نام ہر مذہب و ملت نے الگ الگ بتایا ہے چنانچہ فاضل بروجردی نے کتاب ”نورالانوار“ مطبوعہ ایران میں بالتفصیل تحریر فرمایا ہے کہ آپ کے مختلف نام ہر مذہب و ملت میں الگ الگ لیے جاتے رہے ہیں نیز جملہ کتب کفار، توریت و زبور و انجیل و قرآن میں الگ الگ آپ کا تذکرہ موجود ہے جن کی نقل کتاب ”صراط السوی فی احوال المہدی“ میں بھی پیش کی گئی ہے مگر آپؑ کے مشہور نام:
قائم، مہدی، منتظر، صاحب الامر، حجت، برہان وغیرہ ہیں ،صحف ابراہیم میں آپؑ کا نام گرامی صاحب، زبور میں قائم، توریت میں اوقیل اور انجیل میں مہمیذ ہے، زرتشتی کتابوں میں خسرو اور بعض صحف آسمانی میں کلمۃ الحق تحریر ہے کتاب ”ہزارناموہند“ میں آپؑ کو لندیطار، برہمنوں کی وید میں منصور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ عرفاء و صوفیاء میں آپ ؑکا نام قطب مشہورہے۔ غوث آپؑ کا لقب خاص ہے اور صحرائی عرب بادیہ نشین آپؑ کو ابا صالح کے نام سے یاد کرتے ہیں اور آپؑ اسی نام سے زیادہ مشہور ہیں مگریہ طے ہے کہ نام کے فرق سے ذات و شخصیت میں کوئی فرق نہیں ہو سکتا۔
امام مہدی علیہ السلام کا نسب :
نسب منجی موعود میں اکثر اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ پیامبر ﷺکی نسل سے ہیں۔اختلاف صرف اس بات کا ہے کہ وہ عظیم انسان پیدا ہوچکا ہے، یا پیدا ہوگا؟ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ عظیم انسان 255 ہجری میں اس دنیا میں آچکے ہیں اور اس وقت وہ پردۂ غیبت میں ہے، جن کا سب انتظار کر رہے ہیں۔جبکہ باقی مذاہب و ادیان میں جتنا بھی اختلاف پایا جائے مگر وہ سب اس ہستی کے انتظار میں ہیں کہ نجات دہندہ کے اس دنیا میں آنے سے یہ کرہ ارض جن مشکلات اور عذاب میں مبتلا ہے سے نجات پائے گا۔
سب انسان ایک ایسے "مصلح” کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:
(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہمیشہ کے لئے تہ کرنا۔
(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔
(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔
(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔
(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔
(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔
اس دنیا کو جیسا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے :
صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً
خدائی رنگ اختیار کرو، اللہ کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟
ویسا بنانے کے لیے تمام انسان رنگ ، نسل اور فرقوں سے بالاتر ہوکر انتظار کو اس کے معنی و مفہوم سے بالاتر ہو کراگر اپنے اندر محسوس کرنے لگیں تو ایسا لگے گا کہ یہ
* انتظار ، انتظار عاشقانہ
* انتظار حقیقی اپنے عاشق سے ملاقات کا انتظار
* انتظار جس میں عاشق ہی سچا
* انتظار جس میں عاشق ہی مظلوم
* انتظار جس میں عاشق ہی وعدہ وفا
* انتظار جس میں عاشق ہی منتظر
انتظار اس کا جس نے اس کائنات میں وہ خدائی رنگ کو ایسے بھر دینا ہے جیسا کہ ہر طرف اللہ ہی کے نور کی تجلیاں برس رہی ہوں اور انسان اپنے اس اعلیٰ ترین درجہ پر فائز نظر آئے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے:
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا
اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔(سورہ اسراء،۷۰)
پروردگار ہمیں اس عزت و تکریم کا واسطہ ہمیں اس ہستی کے انتظار میں ثابت قدم رکھ جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
علامہ اقبال