روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر
’’مشی‘‘ ان دنوں تو ہر زبان پر ہے اور اس کا پس منظر اربعین حسینی کے موقع پر کربلائے معلیٰ کی طرف زائرین کا پاپیادہ سفر ہے۔ اس پاپیادہ سفر ہی کو عربی زبان میں ’’مشی‘‘ (واک) کہتے ہیں۔ دنیا میں روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر کوئی نیا نہیں بلکہ صدیوں سے مختلف ملکوں میں اور مختلف قوموں میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ خانۂ کعبہ کی طرف پیدل جانے کی رسم بھی بہت قدیمی ہے۔ اگرچہ آنحضرتؐ، آپؐ کے صحابہؓ اور اہل بیتؑ سوار ہو کر بھی خانۂ خدا کی طرف جاتے رہے ہیں، لیکن وہ سالہا سال پیدل چل کر بھی حج اور عمرہ سے شرفیاب ہوتے رہے ہیں۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ نے پچیس مرتبہ مدینہ منورہ سے پاپیادہ زیارت خانہ خدا کے لیے سفر کیا۔ امام حسینؑ کے بارے میں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پچیس حج پاپیادہ کیے۔ اسی پس منظر میں یہ شعر ہے:
ذرا یہ سوچو جو حج کو پچّیس بار آیا ہے پا پیادہ
وہ ترکِ احرام کر رہا ہے تو کس الم سے گزر رہا ہے
اسی طرح سے منقول ہے کہ امام علی ابن حسین علیہ السلام نے بھی بہت سے حج پاپیادہ کیے۔ یہ معمول دیگر ائمہ اہل بیتؑ کی زندگی میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ خانوادہ نبوت کے دیگر افراد بھی پاپیادہ حج و عمرہ کے لیے جاتے رہے ہیں، چنانچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بھائی علی ابن جعفرؑ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی (امام موسیٰ کاظمؑ) کے ساتھ جب کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ میں رہتے تھے، چار مرتبہ پاپیادہ عمرہ سے شرفیاب ہوا، ایک مرتبہ چھبیس دن دوسری مرتبہ پچیس دن، تیسری مرتبہ چوبیس دن اور آخری مرتبہ اکیس دن کی مدت میں عمرہ کا سفر طے کیا۔ (قرب الاسناد: عبداللہ بن جعفر حمیری، ص 299، علی بن جعفر، المسائل، ص 316، رقم 873،بحارالانوار: طبع بیروت، ج48، ص 100) تاریخ میں ہے کہ آل بویہ اور صفیوں کے دور حکومت میں حکمران خود پاپیادہ ائمہ اہل بیتؑ کے مزارات کی زیارت کے سفر کا اہتمام کرتے تھے۔
ہمارے ہاں برصغیر میں ماضی میں کئی عاشقان حرم اپنے شہروں اور قصبوں سے پیدل حج کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے اور کئی کئی ماہ کا پیدل سفر کرکے حرم الہیٰ کی زیارت سے فیض یاب ہوتے تھے۔ اسی طرح سے زیارات کے لیے بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر پاپیادہ جایا کرتے تھے۔ ان میں علماء، عرفاء اور صوفیاء سبھی شامل ہیں۔ عامۃ المسلمین میں بھی یہ شوق اور شغف پایا جاتا تھا۔ کربلائے حسینیؑ کی طرف پیدل سفر کا سلسلہ بھی بہت پرانا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ رسول اللہؐ کے صحابی جابر بن عبداللہ الانصاریؓ سے شروع ہوا اور وہ پہلے شخص تھے، جو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے پہنچے۔ یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ عام طور پر شیعہ ہوں یا سنی مسلمانوں کے ہاں ایسی روایات موجود ہیں کہ اپنے مرحومین کا تین روز تک غم منائو، لیکن امام حسینؑ کی شہادت سے بہت پہلے آپ کا غم تو خود نبی اکرمؐ نے منایا۔ ائمہ اہل بیتؑ نے بھی اس قربانی کو یاد رکھنے کا اہتمام کیا اور اس کی تاکید فرمائی۔
عجیب بات یہ ہے کہ امام حسینؑ کے اربعین یعنی چہلم کو بھی منانے کا اہتمام ائمہ اہل بیتؑ ہی کے دور سے جاری ہے۔ چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں مومن کی پانچ علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک علامت اربعین کے موقع پر امام حسینؑ کی زیارت کو قرار دیا گیا ہے۔ امام جعفر صادقؑ سے اربعین حسینی کی ایک خاص زیارت منقول ہے، جسے شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں نقل کیا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے امام حسینؑ کی زیارت پر پابندیاں عائد کیے رکھیں۔ یہ پابندیاں محرم الحرام اور سفرالمظفر میں زیادہ شدت سے نافذ کر دی جاتی تھیں۔ چنانچہ بنی امیہ اور بنی عباس کے مختلف ادور میں کربلا کے سفر پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ چنانچہ یہ سفر کبھی حالات کے بہتر ہونے کی وجہ سے شروع ہو جاتا اور کبھی موقوف۔
کہا جاتا ہے کہ جدید تاریخ میں محدث نوری نے اس سنت کا احیاء کیا۔ بعدازاں عراق میں حزب بعث کی حکومت آئی تو احمد حسن البکر نے ظلم و جبر کی انتہاء کر دی اور اس نے زائرین کربلا پر پابندیاں عائد کر دیں۔ نجف سے کربلا کی طرف “مشی” کو روک دیا۔ صدام حسین نے بھی اپنے تیس سالہ دور میں طرح طرح کی پابندیاں عائد کیے رکھیں۔ بہت سے زائرین اس دور میں اسیر ہوئے اور بہت سوں کو شہید کر دیا گیا۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ سلسلہ ایک نئی قوت ایمانی کے ساتھ شروع ہوگیا۔ ہم نے آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی کی ایک تصویر دیکھی ہے، جس میں وہ نجف اشرف سے کربلا کی طرف پاپیادہ سفر میں ہیں۔ علامہ عارف حسین الحسینی کے بارے میں ہے کہ وہ تیز رفتاری سے پیدل چلتے ہوئے ہر شب جمعہ نجف اشرف سے کربلا جا پہنچتے تھے۔
اس موقع پر “مشی” کا سلسلہ فقہاء اور علماء نے نجف اشرف سے شروع کیا، جو دور حاضر تک جاری ہے۔ نجف اشرف امام علی علیہ السلام کے حرم سے لے کر کربلائے معلیٰ میں امام حسینؑ کے حرم کا فاصلہ 80 کلو میٹر سے زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ عراق کے مختلف شہروں سے اور دنیا بھر سے اکٹھے ہوکر یہیں سے مشی کا آغاز کرتے ہیں اور عام طور پر تین سے چار روز میں پیدل چلتے چلتے امام حسینؑ کے حرم تک جا پہنچتے ہیں۔ کربلا کی طرف طویل پیدل مسافتوں کی بھی عجیب ایمان افروز تاریخ ہے۔ ایران میں دفاعی جہاد کے ایک زخمی مجاہد محمد رضا پارسائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے قصبے سے کئی مرتبہ 1600 کلو میٹر کا پیدل سفر کرکے امام حسینؑ کے روضے کی زیارت کے لیے کربلا پہنچے۔ بصرہ سے کربلا تک کا پیدل سفر تقریباً سات دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بڑے بڑے قافلے اس سفر میں شریک ہوتے ہیں اربعین حسینی سے ایک روز پہلے کربلا پہنچتے ہیں۔ یہی حال عراق سے دیگر شہروں سے آنے والوں کا بھی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے نائیجریا میں لاکھوں افراد جو اربعین کے موقع پر کربلا نہیں جا سکتے تھے، انہوں نے اربعین واک کا اہتمام کیا تو پوری دنیا میں ایک حیرت کا سماں تھا، لیکن گذشتہ برس کرونا کی وجہ سے عراق کے سفر پر پابندیاں عائد ہوئیں اور عراق کے ہمسایہ ممالک سے بھی قافلوں کا گزرنا مشکل ہوگیا تو نجف سے کربلا تک مشی کی یاد میں یہ سلسلہ ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں تک پھیل گیا۔ پاکستان میں بھی ہزاروں مقامات پر لوگوں نے پاپیادہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک اربعین کے موقع پر سفر کیا اور امام حسینؑ سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
اب یوں لگتا ہے کہ عاشقان حسینی نے پوری دنیا میں اربعین کے موقع پر اس رسم کی بنیاد رکھ دی ہے۔ صدام مزاج حکمران اسے روکنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور عاشقان حسینی اسے برپا کرنے کے لیے پرعزم رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جبر کامیاب ہوتا ہے کہ عشق، تاریخ کربلا تو یہی بتاتی ہےکہ عزم راہ خدا میں ہو تو خون تلوار پر غالب آجاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ حکمران عشق کے سامنے کھڑے نہ ہوں، عشق کو محبوب پیارا ہوتا ہے، جان نہیں۔ اپنے عوام کے لیے جو پرامن بھی ہیں اور منظم بھی، سہولت فراہم کریں اور ملک میں نظم و ضبط بھی برقرار رکھیں۔ ناروا پابندیاں لگانے سے نظم و ضبط برقرار نہیں ہوتا۔
Share this content: