قرآن امیر المومنین حضرت علی ؑ کی نظر میں
استخراج و انتخاب : ثاقب اکبر
٭ زہد کی مکمل تعریف قرآن کے دو جملوں میں ہے۔ ارشاد الٰہی ہے :جو چیز تم سے جاتی رہے اس کا رنج نہ کرو اورجو چیز تمھیں دے اس پر اترائو نہیں۔
٭ لہٰذا جوشخص جانے والی چیز پرافسوس نہیں کرتا اورآنے والی چیز پر اتراتا نہیں اس نے زہد کو دونوں سمتوں سے سمیٹ لیا۔(کلمہ نمبر۴۳۹)
٭ بیٹے کا والد پر حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام تجویز کرے۔ اچھے آداب سے آراستہ کرے اور قرآن کی تعلیم دے۔(کلمہ نمبر 399)
٭ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ان میں قرآن کے صرف نقوش اوراسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔(کلمہ نمبر 369)
٭ قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں، تمھارے بعد کے واقعات اور تمھارے درمیانی حالات کے لئے احکام ہیں۔(کلمہ نمبر313)
٭ حارث ہمدانی کے نام مکتوب میں فرمایا:
’’قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اس سے پندونصیحت حاصل کرو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو اور گزشتہ حق کی باتوں کی تصدیق کرو۔(مکتوب نمبر69)
٭ قرآن اچھائیوں کا حکم دینے والا،برائیوں سے روکنے والا(بظاہر) خاموش اور (بباطن) گویا اورمخلوقات پر اللہ کی حجت ہے کہ جس پر عمل کرنے کا اپنے بندوں سے عہد لیا ہے اور ان کے نفسوں کو اُس کا پابند بنایا ہے۔ اس کے نور کو کامل اوراس کے ذریعہ سے دین کو مکمل کیا ہے اورنبی کو اس حالت میں دنیا سے اٹھایا ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کے ایسے احکام کی تبلیغ کرکے فارغ ہوچکے تھے کہ جو ہدایت ورشد گاری کا سبب ہیں۔(خطبہ 181)
٭ یاد رکھو یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا اورایسا ہدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا اورایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا۔ جو بھی اس قرآن کا ہم نشیں ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور گمراہی وضلالت کو گھٹا کر اس سے الگ ہوا ۔جان لو کہ قرآن کے تعلیمات کے بعد کسی اور لائحہ عمل کی احتیاج نہیں رہتی اورنہ کوئی قرآن سے (کچھ سیکھنے) سے پہلے اس سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اس سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پراس سے مدد مانگو۔ اس میں کفر ونفاق اورہلاکت وگمراہی جیسی بڑی بڑی مرضوں کی شفا پائی جاتی ہے اس کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو اوراس کی دوستی کو لئے ہوئے اس کا رخ کرو اوراسے لوگوں سے مانگنے کا ذریعہ نہ بنائو۔ یقیناً بندوں کے لئے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی ذریعہ نہیں۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول اورایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات) تصدیق شدہ ہے۔ قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا، وہ اس کے حق میں مانی جائے گی اوراس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی۔ قیامت کے دن ایک ندادینے والا پکار کر کہے گا کہ دیکھو قرآن کی کھیتی بونے والوں کے علاوہ ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں مبتلا ہے۔ لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اوراس کے پیروکار بنو اوراپنے پروردگار تک پہنچنے کے لئے اسے دلیل راہ بنائو اوراپنے نفسوں کے لئے اس سے پندونصیحت چاہو اوراس کے مقابلہ میں اپنی خواہشوںکو غلط وفریب خوردہ سمجھو۔ عمل کرو اورعاقبت وانجام کو دیکھو، استوار وبرقرار رہو، پھر یہ کہ صبر کرو صبرکرو، تقویٰ وپرہیز گاری اختیار کرو، تمھارے لئے ایک منزل منتہا ہے۔ اپنے کو وہاں تک پہنچائو اورتمھارے لئے ایک نشان ہے اس سے ہدایت حاصل کرو۔ اسلام کی ایک حد ہے، تم اس حد وانتہا تک پہنچو۔ اللہ نے جن حقوق کی ادائیگی کو تم پر فرض کیا ہے اور جن فرائض کو تم سے بیان کیا ہے انھیں ادا کرکے اس سے عہدہ بر آ ہوجائو میں تمھارے اعمال کا گواہ اور قیامت کے دن تمھاری طرف سے حجت پیش کرنے والا ہوں۔ (خطبہ۔۱۷۴)
(اللہ نے) آپؐ کو اس وقت رسولؐ بنا کر بھیجا جبکہ رسولوں کا سلسلہ رُکا ہوا تھا اور امتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور(دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپ اُن کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق (کرنے والی کتاب) اورایک ایسا نور لے کرآئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ اس کتاب سے پوچھو لیکن یہ بولے گی نہیں۔البتہ میں تمھیں اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات ،گزشتہ واقعات اور تمھاری بیماریوں کا چارہ اور تمھارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔(خطبہ۔۱۵۶)
اللہ سبحانہ، نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم وواضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے جان لیں، ہٹ دھرمی اورانکار کے بعد اس وجود کا یقین اور اقرار کریں۔اللہ ان کے سامنے بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہوقدرت کی (ان نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اوراپنی سطوت وشوکت کی (قہرمانیوں سے ) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے اوردیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنھیں اسے مٹانا تھاانھیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنھیں تہس نہس کرنا تھا انھیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کردیا۔ میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہوگا اوراللہ ورسولؐ پر افترا پردازی کا زور ہوگا۔ اس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہوگی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اوراس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہوگی۔اس وقت جبکہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اورنہ (اُن کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی ہوگی چنانچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کرالگ کریں گے اورحفظ کرنے والے اس کی (تعلیم) بھلا بیٹھیں گے اور قرآن اور قرآن والے( اہل بیت )بے گھر اور بے درہوں گے اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے انھیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا۔ وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ ان کے ساتھ ہوں گے ۔مگر بے تعلق اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے ساز گار نہیں ہوسکتی اگرچہ وہ یک جاہوں لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کرلیا ہے اورجماعت سے کٹ گئے ہیں۔ گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب ان کی پیشوا نہیں۔ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط ونقوش کو پہچان سکتے ہیں ۔اس آنے والے دور سے پہلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے اوراللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بہتان رکھ دیا ہوگا اورنیکیوں کے بدلہ میں انھیں بری سزائیں دی ہوں گی۔ (خطبہ ۔۱۴۵)
نوف ابن فضالہ بکالی کہتے ہیں: میں نے ایک شب امیر المومنین (حضرت علیؑ) کو دیکھا کہ وہ فرشِ خواب سے اٹھے، ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا: اے نوف! سوتے ہویا جاگ رہے ہو؟ میں نے کہا: یا امیرالمومنین ! جاگ رہا ہوں۔
فرمایا:
اے نوف!
خوشا نصیب اُن کے جنھوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربتِ خوش گوار قرار دیا، قرآن کوسینے سے لگایا اوردعا کو سپر بنایا۔ پھرحضرت مسیح کی طرف دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ تھلگ ہوگئے۔ (نہج البلاغہ)
یہ بھی پڑھیں: امام علی ؑ: عدالت و انسانیت کے علمبردار
https://albasirah.com/urdu/imam-ali-adalat/
Share this content: