×

قافلہ حسینؑ آن پہنچا۔۔۔ فتقدم

سید اسد عباس

قافلہ حسینؑ آن پہنچا۔۔۔ فتقدم

عزاداری سید الشہداء کے حوالے سے انسانی معاشرے اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں بہت سے سوالات ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ شہیدوں کا ماتم جائز نہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ اسلام میں سوگ فقط تین روز کا ہے، کسی کو یہ پریشانی ہے کہ سوگ منانا ہی ہے تو اسے چار دیواری میں مناؤ۔ پھر اس کے طریقوں پر بھی اختلافات ہیں، کسی کا کہنا ہے کہ ماتم جائز نہیں، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ عزاداری سید الشہداء کے حوالے سے یہ تمام سوالات اور اعتراضات اس بات کا ثبوت ہیں کہ امام حسین ؑ اور واقعہ کربلا ہماری زندگی کی ایک حقیقت ہے، جو کسی بھی دوسری حقیقت سے بڑھ کر زندہ و جاوید ہے۔ عزاداری سید الشہداء فقط ایک دینی، نظری اور فکری مسئلہ نہیں ہے۔ واقعہ کربلا کے بہت سے پہلو ہیں، جن میں سے ایک اس کا نظری پہلو بھی ہے۔ کربلا ہماری معاشرتی حقیقت ہے، اس کا تعلق ہمارے جذبات، احساسات اور ذاتی پسند و ناپسند سے ہے۔

عبادات، اعمال کا کوئی بھی پہلو لے لیں، کسی ایک پہلو سے ہماری جذباتی وابستگی نہیں ہے۔ حکم کے تحت ہم ہر عبادت اور عمل انجام دیتے ہیں۔ چونکہ ہم نے اللہ کی واحدانیت اور نبی اکرم ؐ کی نبوت کو قبول کیا، پس ہم پر لازم ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل کریں، جس کا حکم ہمیں شریعت مقدسہ نے دیا ہے۔ نماز قائم کریں، زکواۃ دیں، حج کریں، قربانی کریں، یہ سب ثواب کا باعث ہیں، لیکن ان میں سے کسی عمل سے ہمارے جذبات اور انسانی احساسات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم عزاداری سید الشہداء ایک انسانی احساس اور جذبات کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ مذہب کی قید و بند سے بھی آزاد ہے۔ کوئی عیسائی ہو یا یہودی، ہندو ہو یا سکھ، بدھ مت ہو یا لامذہب، جو اپنے اندر انسانیت اور انسانی جذبات رکھتا ہے، وہ عزاداری سید الشہداء کو انجام دیتا ہے۔ اس احساس اور عمل کو عبادت یا سنت کا درجہ ملنے سے اس کا اثر دو آتشہ ہوگیا۔

اہل سنت ائمہ حدیث امام احمد، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی اور طبرانی کی ایک روایت ہے، جسے حاکم نے شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور امام کنانی نے جس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے، کچھ یوں ہے: “حضرت ام الفضل بن حارث سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ ؐ میں نے آج رات ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا، کیا دیکھا ہے؟ انھوں نے عرض کی وہ بہت سخت ہے۔ آپ نے فرمایا وہ ہے کیا۔؟ انھوں نے عرض کیا میں نے دیکھا گویا آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا ہے، تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا تم نے ایک اچھا خواب دیکھا ہے۔ میری بیٹی (فاطمہ) ان شاء اللہ بیٹے کو جنم دے گی اور وہ تمھاری گود میں دیا جائے گا، پھر حضرت فاطمہ کے ہاں امام حسین ؑ پیدا ہوئے تو وہ میری گود میں تھے، جیسے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور امام حسین ؑ کو ان کی گود میں دے دیا۔ پھر میں نے اچانک دیکھا تو رسول اللہ ؐ کی چشمان مقدس آنسو بہا رہی تھیں۔ آپ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا یا نبی اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کو کیا ہوا۔؟ آپ ؐ نے فرمایا: میرے پاس جبریل آئے تھے اور مجھے خبر دی تھی کہ بے شک میری امت میرے اس بیٹے کو عنقریب شہید کر دے گی۔ میں نے عرض کیا: اس بیٹے (حسین )کو ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اور میرے پاس اس کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے ہیں۔”
 
اسی طرح امام احمد، ابن ابی شیبہ، آجری اور ابو یعلی روایت کرتے ہیں، جسے امام ہیثمی نے ثقہ قرار دیا ہے اور مقدسی نے بھی اس روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے کہ: “عبد اللہ ابن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت علی کے ساتھ سفر کیا اور وہ آپ کی طہارت کا برتن اٹھانے والے تھے۔ صفین کی طرف جاتے ہوئے راستے میں وہ جب نینویٰ کے مقابل پہنچے تو حضرت علی نے دریائے فرات کے کنارے ندا دی۔ ابو عبد اللہ ٹھہر جاو!، ابو عبد اللہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے۔؟ انھوں نے فرمایا میں ایک روز حضور اکرم ؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، جبکہ آپ کی چشمان مبارک اشکبار تھیں۔ میں نے عرض کیا: یانبی اللہ! آپ کو کس نے غضبناک کر دیا، آپ کی چشمان مبارک اشکبار کیوں ہیں۔؟ آپ ؐ نے فرمایا ایسا کیوں نہ ہو، میرے پاس سے ابھی جبرائیل روانہ ہوئے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ بے شک (میرا بیٹا) حسین دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا۔ جبرئیل نے عرض کیا: کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو ان کی شہادت گاہ کی مٹی سنگھاؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا، مٹی کی ایک مشت بھری اور مجھے دی، تو میں اپنی آنکھوں کو بہنے سے روک نہیں سکا۔”

مسند احمدبن حنبل اور جامع ترمذی کی ایک روایت ہے: “جناب مسلمٰی بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت اُم سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی، دیکھا کہ آپ زار و قطار رو رہی ہیں۔ جب میں نے رونے کا سبب پوچھا تو ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے اپنا مکاشفہ بیان فرمایا: ”میں نے بھی خواب میں رسول اللہ کو اس وحشت ناک حالت میں دیکھا کہ آپ کا سر اقدس اور داڑھی مبارک غبار آلود ہے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ ماجرہ کیا ہے اور آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں۔؟ فرمایا ام سلمہ! میرا لاڈلا بیٹا قتل کر دیا گیا ہے اور میں اس وقت اپنے پیارے حسین کی مقتل گاہ سے آرہا ہوں۔” روایات اس قدر ہیں کہ ان سے کتب احادیث کے دفاتر پر ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ رسالت ماب ؐ نے اپنی زندگی میں ہی قتل حسین ؑ کی خبر دی اور اس پر گریہ کیا۔

امام علی علیہ السلام نے صفین کے سفر کے دوران دریائے فرات پر جو الفاظ ادا کیے، وہ خصائص الکبرای میں یوں درج ہیں: حضرت اصبغ بن نباتہ تمیمی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ: “اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ھھنا مناخ رکابھم و موضع رحالھم و مھراق دمائھم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بھذه العرصة تبکی عليھم السماء واالرض“، “ہم حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ قبر حسين رضی الله عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ نے فرمايا، يہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے، يہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور يہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کا ايک گروه اس ميدان ميں شہيد ہوگا، جس پر زمين و آسمان روئیں گے۔” ائمہ اہل بیت ؑ سے بھی عزائے حسین ؑ پر بہت سی روایات منقول ہیں، جن میں رونا، رونے کی شکل بنانا، غمزدہ ہونے، زیارت امام حسین کا ثواب لکھا گیا ہے۔ مکتب اہل بیت میں خوشی یا غم کا کوئی ایک بھی ایسا موقع نہیں ہے، جس پر زیارت امام حسین ؑ پڑھنے کا نہ کہا گیا ہوا۔ عید الفطر، عید الاضحی، شب قدر، شب معراج غرضیکہ ہر جمعرات زیارت امام حسین ؑ پڑھنے کی تشویق دلوائی گی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کو کشاں کشاں در امام حسین ؑ پر لایا جا رہا ہے۔

قارئین محترم! ہم انسان اپنی زندگیوں میں مختلف کرداروں، مزاجوں کے حامل ہیں۔ تاریخ انسانیت کے برے کردار جو ہم نے سن رکھے ہیں، ایک شخصیت ہونے کے ساتھ انسانیت کا ایک پہلو بھی ہیں۔ فرعون، قارون، فریسی، ابو جہل، ابو لہب، شمر، یزید اور ایسے ہی ہر ظالم جو نفس کا غلام ہو کر، خود پر یا معاشرے کے ساتھ ظلم و بربریت انجام دیتا ہے، فقط ایک تاریخی کردار ہی نہیں ہے۔ اگر ہم کبھی اپنے گریبانوں میں بغور جھانکیں تو ہمیں اس کردار سے ملتا جلتا کوئی شخص ضرور دکھائی دے گا۔ ہم تقریباً پورا برس اس کردار کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور نام لیوا ان کے ہیں، جو ان کے مخالف تھے۔ جنھوں نے ان کے خلاف قیام کیا تھا۔ یہ ایک منافقانہ زندگی ہے۔ اللہ کی ذات ہمیں سال بھر مواقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی روش پر توجہ کریں، اپنی منافقت سے باز آئیں، جن کا نام لیتے ہیں، ان کی راستے پر چلیں۔ کبھی رمضان المبارک کے روزوں کے ذریعے ہماری تربیت کی جاتی ہے تو کبھی روزانہ کی نمازوں سے، کبھی تلاوت کلام پاک کا کہا جاتا ہے تو کبھی حج پر روانہ کیا جاتا ہے، تاکہ ہم درست راہ پر آجائیں۔ ان سب امور میں ایک مشکل یہ ہے کہ ہمارا مزاج اور فطرت منافقت سے باز نہیں آتی۔ سببھی ایسے نہیں، کچھ کو اللہ کی ذات کی جانب سے ہدایت مل جاتی ہے، لیکن اکثریت بہرحال اسی دو رنگی میں جیتی ہے۔

ایسے میں ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی قافلہ حسین ہمارے ضمیر کے بند دروازوں پر آن پہنچتا ہے۔ اب ہمارے پاس چارہ نہیں رہ جاتا کہ ہم کسی ایک راہ کا انتخاب کریں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ تم نے کونسی راہ کا انتخاب کرنا ہے، آیا حسینیت یا اس کے مقابل یزیدیت۔ انتخاب ہمارا ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں ہماری روح، جسم، مزاج اور فطرت سب کے سب اس فیصلے میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم اپنے وجود کی گہرائی سے فیصلہ کرتے ہیں کہ مجھے حسین کے قافلے میں شامل ہونا ہے۔ مبتدی ہی سہی، تاہم مجھے اس قافلے میں رہنا ہے۔ یہ سلسلہ روز شہادت امام حسین علیہ السلا م سے بدستور جاری ہے اور لاکھوں انسانوں کو ہدایت سے ہمکنار کرچکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسانوں کو در حسین پر آنے کی تشویق دلائی گئی۔ میری سب انسانوں سے گزارش ہے کہ انجانے میں اس قافلے کی راہ میں روڑے مت اٹکائیں، اس کے لیے مشکلات کھڑی مت کریں بلکہ دل و جان سے اس کا استقبال کریں، کیونکہ یہ انسانیت کی فلاح کا کاروان ہے، جس نے تا قیام قیامت یونہی رواں دواں رہنا ہے۔ کاروان کی صفوں میں نظم اور ترتیب کا کام بھی نہایت دانشمندی سے انجام دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس قافلے میں شامل ہونے والا ہر فرد ہزار رنگوں کی دنیا سے آیا ہے، سب ایک جیسے نہیں ہیں۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز

Share this content: