بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں
ان دنوں انقلاب اسلامی ایران کی 42ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر انقلاب کے بانی حضرت امام خمینیؒ کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ آپ کی شخصیت کے سیاسی، فقہی اور اخلاقی پہلو سے مضامین اور مقالات لکھے جا رہے ہیں۔ ہم اس موقع پر آپ کی روحانی و معنوی شخصیت کے ایک پہلو پر بات کریں گے اور وہ ہے آپ کی بعض پیشگوئیاں، جو آپ کے بُعدِ عرفانی اور قرب الٰہی کی حکایت کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض پیشگوئیاں عالمگیر اثرات کی حامل ہیں اور ان کی حیثیت بھی عالمی ہے۔ آپ کی ایسی پیشگوئیوں میں بہت صراحت موجود ہے اور ان کے بارے میں دوسری رائے نہیں ہوسکتی، سوائے اس کے کہ کہا جائے کہ یہ آپ کی سیاسی بصیرت کی غماز ہیں۔ بہرحال امام خمینیؒ کی چند ایک پیشگوئیاں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔
شاہ ایران نے امام خمینیؒ کی جدوجہد کے بعد ان کو گرفتار کرلیا۔ وہ قید میں تھے اور انھیں کہا جاتا تھا کہ آپ اس جدوجہد کو ترک کر دیں، آپ کا ساتھ کون دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا ساتھ دینے والے سپاہی اس وقت مائوں کی گودوں میں ہیں۔ امام خمینیؒ کو ترکی جلا وطن کر دیا گیا۔ اس وقت شاہ ایران اور ترکی کے تعلقات بہت اچھے تھے، دونوں امریکہ کے بہت قریب تھے۔ ایک سال امام خمینیؒ ترکی میں رہے اور پھر وہاں سے عراق چلے گئے۔ اس دوران میں 14 برس گزر چکے تھے۔ امام خمینیؒ کے بڑے صاحبزادے آیت اللہ مصطفیٰ خمینی کو نجف اشرف میں شہید کر دیا گیا۔ اس پر سب کا اتفاق تھا کہ انھیں شاہ ایران نے قتل کروایا ہے۔ عراق کے حالات دیکھتے ہوئے عراقی حکومت نے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تو امام خمینی ؒفرانس جا پہنچے۔
چھ ماہ تک فرانس سے انقلابی تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ پندرہ برس پہلے امام خمینیؒ کی جلا وطنی کے وقت جو بچے ابھی مائوں کی گودوں میں تھے، اب جوان ہوچکے تھے۔ ایران کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں یہی جوان انقلابی تحریک کا ہراول دستہ تھے اور قربانیاں دے رہے تھے۔ 1979ء میں انقلاب کامیاب ہوگیا۔ 1980ء میں ابھی نہالِ انقلاب کمزور سا تھا کہ عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین نے عالمی طاقتوں کے ایما پر ایران پر حملہ کر دیا۔ آٹھ برس تک یہ جنگ جاری رہی اور انہی جوانوں کی قربانیوں کے زیر اثر ایران محفوظ رہا اور انقلاب پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگیا۔
۲۔ ایران میں شاہی حکومت کے زوال اور شاہ کے فرار کی پیشگوئی
امام خمینی نے انقلابی تحریک کے آغاز میں ہی یہ فرما دیا تھا کہ ’’ایران کی عزیز اور امام حسینؑ کی برحق پیروکار قوم اپنے خون سے پہلوی ابلیسی سلسلے کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دے گی اور پورے ملک بلکہ ملکوں میں پرچم اسلام لہرائے گی۔‘‘ (صحیفہ نور، جلد۴، ص ۹) شاہ ایران کا تعلق پہلوی خاندان سے تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق ایران میں اڑھائی ہزار سال سے قائم بادشاہت سے ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے آخری دور میں ایران میں اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن بھی منایا تھا، جس میں صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے بھی شرکت کی تھی۔ شاہ ایران ملک سے فرار کر گیا اور 1979ء میں یہ ابلیسی شاہی سلسلہ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوگیا۔
اس سلسلے میں ایک عجیب واقعہ ہے، جسے حجت الاسلام سید محمد کوثری مرحوم نے بیان کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں آیت اللہ فاضل لنکرانی (مرحوم) کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں مشہد کے ایک عالم دین موجود تھے، جنھوں نے اپنے ایک دوست کی بات بیان کی، جو نجف اشرف میں امام خمینیؒ کی خدمت میں موجود تھے، وہ کہتے ہیں کہ گفتگو کے دوران میں ایران کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ یہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں کہ شاہ کو ایران سے نکال دیا جائے، ایک کرایہ دار کو گھر سے نکالنا مشکل ہوتا ہے اور آپ عوام سے کہتے ہیں کہ شاہ کو ملک سے نکال باہر کرو۔ میں نے سمجھا کہ شاید امام نے میری گذارش نہیں سنی تو میں نے بات دہرائی تو امام نے فرمایا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیا حضرت بقیۃ اللہ (امام مہدیؑ) صلوات اللہ علیہ نے (نعوذباللہ) مجھ سے غلط فرمایا ہے کہ شاہ کو ہر صورت جانا ہوگا۔ (فصلنامہ انتظار، شمارہ۱۴،ص۵)
۳۔ ایران میں اسلامی حکومت کی تشکیل کی پیشگوئی
امام خمینیؒ ویسے تو بہت پہلے سے انقلاب کی کامیابی اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے بارے میں بات کرتے چلے آرہے تھے اور اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کرچکے تھے، تاہم انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ نے ایک عبوری حکومت تشکیل دی تھی۔ آپ کو داخلی طور پر بھی بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ کیمونسٹوں کا مضبوط نیٹ ورک موجود تھا، حزب مجاہدین خلق جسے ایرانی انقلاب کے بعد منافقینِ خلق کہتے تھے، پورے ملک میں موثر طور پر موجود تھی۔ مختلف اداروں اور شعبوں میں اس کا گہرا نفوذ تھا اور بعد میں اسی تنظیم نے ایران کی پارلمینٹ کے 72 اراکین کو ایک بم دھماکے میں شہید کر دیا، یہاں تک کہ منتخب صدر ابو الحسن بنی صدر اسی کا نکلا۔ اس تنظیم نے بعد میں منتخب صدر اور وزیراعظم کو بھی ایک بم دھماکے میں شہید کردیا۔ دوسری طرف علماء کے اندر بھی شاہ ایران کے حامی موجود تھے۔ امام خمینیؒ سے حسد کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی، یہاں تک کہ سید محمد کاظم شریعت مداری جو مرجعیت کے منصب پر جا پہنچے تھے اور جنھیں شاہ ایران کی درپردہ بلکہ کھلی حمایت حاصل تھی، بھی امام خمینی کے خلاف تھے۔
انقلاب کے اوائل کا ایک واقعہ آیت اللہ ری شہری نے اپنی یادداشتوں میں نقل کیا ہے، جن کے مطابق علی محمد بشارتی کہتے ہیں کہ میں (انقلاب کے اوائل میں) ایرانی سال 1358 کے موسم گرما میں جب سپاہ کے شعبہ اطلاعات کا ذمہ دار تھا، ایک رپورٹ مجھ تک پہنچی کہ آقا شریعت مداری نے مشہد میں کہا ہے کہ میں آخر کار امام خمینی کے خلاف جنگ کروں گا۔ میں امام کی خدمت میں پہنچا اور رپورٹ پیش کرتے ہوئے مذکورہ خبر بھی ان کے گوش گزار کی۔ انھوں نے سر جھکا رکھا تھا اور میری بات سن رہے تھے۔ جب میں اس جملے تک پہنچا تو انھوں نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ ’’یہ کیا کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری کامیابی کی ضمانت دی ہے۔ ہم کامیاب ہوں گے اور یہاں اسلامی حکومت تشکیل دیں گے اور پرچم کو پرچم کے مالک کے حوالے کریں گے۔‘‘ میں نے پوچھا کہ کیا آپ خود یہ پرچم ان کے حوالے کریں گے، امام خاموش ہوگئے اور انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ (خاطرہ ھا، آیت اللہ ری شہری، مطبوعہ مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ج اول، ص ۲۴۲)
قبل ازیں ہم ایک مقالہ ’’محاذ یمن اور انقلاب مہدیؑؑ‘‘ کے عنوان سے لکھ چکے ہیں جس میں انقلاب مہدیؑ کی پیشگوئیوں میں ایک سید خراسانی کے قیام کا ذکر ہے۔ اسی سلسلہ کلام میں ہم نے لکھا تھا: ’’ان سب پیشگوئیوں کے ساتھ ساتھ ان پیشگوئیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جن میں قم سے ایک مرد کے قیام کی خبر دی گئی ہے اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے گرد ایک ایسی قوم جمع ہوجائے گی کہ جس کے پائے استقلال کو تیز ہوائیں متزلزل نہیں کرسکیں گی اور وہ فولاد کی طرح سے مضبوط ہوگی۔ اس سلسلے میں بہت سی روایات شائع ہوچکی ہیں۔‘‘
ہم نے مزید لکھا تھا: ’’ایک روایت ہماری نظر سے گزری ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قم سے جو شخصیت قیام کرے گی، اس کا جانشین ایک سید خراسانی ہوگا۔ روایت کے مطابق جب امامؑ سے سوال کیا گیا کہ کیا قم سے قیام کرنے والی شخصیت کی حکومت قائم آل محمدؐ سے ملحق ہوگی تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کا جانشین سید خراسانی ہوگا، جس کی قیادت میں جو لشکر اٹھے گا، وہ امام مہدیؑ کے لشکر سے ملحق ہوگا۔‘‘ امام خمینیؒ کی پیشگوئیوں کے ضمن میں ان کا اس سوال پر خاموش رہ جانا کہ کیا یہ پرچم آپ خود صاحب پرچم کے حوالے کریں گے، بہت معنی خیز ہے اور مندرجہ بالا روایات کی ایک طرح سے تائید بھی کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔