ون چائنہ پرنسپل اور پاکستان
چین کا رسمی نام ’’پیپلز ریپبلک آف چین‘‘ ہے جبکہ اسے عموماً چین کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ایک اور چین بھی ہے جسے رسمی طور پر ’’ریپبلک آف چین‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس کا عوامی نام تائیوان ہے۔ اپنی گذشتہ تحریر میں راقم نے تحریر کیا کہ تائیوان مین لینڈ چائنہ کے ساحل سے 117 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم مختلف جزائر ہیں، جن میں تائیوان، پینگھو، کنمن، مسٹو اور چند چھوٹے جزائر ہیں، جو مشترکہ طور پر تائیوان کہلاتے ہیں، ان جزائر کی آبادی تقریباً 23 ملین ہے۔ 1912ء میں چینی بادشاہ زین ٹانگ کے دور حکومت میں ’’زن ہائی‘‘ انقلاب برپا ہوا، جس کے نتیجے میں انقلابیوں نے مشرقی چین کے علاقے ’’نینجنگ‘‘ میں حکومت قائم کی۔ یہ حکومت سین یاٹ سین کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ سین یاٹ سین ایک سیاست دان، ڈاکٹر اور فلسفی تھے۔ ریپبلک آف چائنہ جسے (آر او سی) بھی لکھا جاتا ہے، سین کو بابائے قوم قرار دیتی ہے۔ بیجنگ میں شاہی فوج کے ایک افسر ’’یون شیکائی‘‘ نے حکومت قائم کی۔
1912ء سے 1949ء تک چین میں مختلف حکومتیں قائم ہوئیں اور چین کے سیاسی حالات میں بہت سے تغیرات آئے، جن میں وڈیروں کی من مانیاں، جاپان کا حملہ، خانہ جنگی شامل ہیں۔ اس عرصے میں چین میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہوئیں۔ 1949ء میں جب چین میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو مین لینڈ چین پر کیمونسٹ راہنماء ماؤزے تنگ کا اقتدار قائم ہوا۔ کائی شک کی قیادت میں آر او سی کی قیادت چین سے پسپائی اختیار کرکے تائیوان چلی گئی۔ یوں چین دو سیاسی دھڑوں کے اقتدار میں تقسیم ہوگیا۔ ایک ریاست پیپلز ریپبلک آف چائینہ (پی آر سی) اور دوسری ریپبلک آف چائینہ (آر او سی) قرار پائی۔ آر او سی ریاست اقوام متحدہ کی بانی رکن تھی اور 1971ء تک جنرل اسمبلی کی بھی رکن رہی۔ 1970میں سوویت بلاک، نان الائنڈ موومنٹ کے رکن ممالک اور برطانیہ نے ’’پی آر سی‘‘ کو قبول کر لیا۔ اس کے بعد دیگر کئی ایک ریاستوں نے پی آر سی میں قائم حکومت کو چین پر بر سر اقتدار قوت کے طور پر تسلیم کیا، جن میں امریکا بھی شامل تھا، جس کی وجہ سے 1971ء میں پی آر سی کو اقوام متحدہ اور جنرل اسمبلی کا ممبر قرار دے دیا گیا اور ’’آر او سی‘‘ چینی خطے پر برسر اقتدار قوت کی حیثیت کھو بیٹھی۔
آر او سی اپنے استحقاق کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہی۔ 1990ء میں چین کی قانونی حاکمیت کے موقف کے بجائے تائیوان کی آزادی کا نعرہ سامنے آیا۔ یہ نعرہ آر او سی میں سامنے آیا، جس کا دارالحکومت تائپے ہے۔ آر او سی کی سیاسی جماعتیں دو گروہوں میں بٹ گئیں، ایک پین بلیو اتحاد اور دوسرا اتحاد پین گرین اتحاد کے نام سے سامنے آیا۔ پی آر سی اور تائیوان کے پین بلیو اتحاد کا کہنا ہے کہ ایک ہی خود مختار چین ہے، جو مین لینڈ چائینہ اور تائیوان کے جزائر پر مشتمل ہے، ہر دو اپنے آپ کو اس خود مختار چین کا قانونی حاکم قرار دیتے ہیں۔ آر او سی یعنی تائیوان کے پین گرین اتحاد کا کہنا ہے کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جس کا رسمی نام ریپبلک آف چائنہ ہے۔ سال 2022ء تک دنیا کے 178 ممالک اور فلسطینی ریاست کے سفارتی تعلقات پی آر سی میں قائم حکومت کے ساتھ ہیں، جبکہ 13 ممالک آر او سی کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حامل ہیں۔
پی آر سی میں قائم حکومت جو دنیا بھر میں چین کی قانونی حکومت تسلیم کی جاتی ہے، آر او سی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مخالف ہے، وہ تائیوان کو مین لینڈ چائنہ کا ایک صوبہ قرار دیتے ہیں۔ چین میں قائم حکومت دو چین کی مخالف ہے اور اپنے ’’ون چائنہ پرنسپل‘‘ پر ہی سفارت کاری کرتی ہے۔ چینی حکومت اپنے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والی ریاست سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ پہلے آر او سی کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کرے۔ یعنی چینی حکومت سفارتی تعلقات کی خواہشمند کسی بھی ریاست کو چین یا تائیوان میں انتخاب کا موقع فراہم کرتی ہے۔ چین حکومت اپنے عالمی اثر و رسوخ اور کاروباری صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے آر او سی کے عالمی مناسبتوں میں شرکت کو روکتی ہے۔ چین کے موجودہ صدر زی جنگ پنگ کا کہنا ہے کہ تائیوان اور چین کا اتحاد بدیہی ہے، تاہم اس کے لیے کسی قسم کی قوت کا استعمال بعید از قیاس ہے۔
میں نے اپنی گذشتہ تحریر میں لکھا کہ چین تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات کا مخالف ہے، تاہم تجارت، ثقافتی تبادلہ وغیرہ کو نہیں روکتا۔ اسی لیے امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے تائیوان میں اپنے غیر سفارتی دفاتر قائم کر رکھے ہیں اور تائیوان سے تجارت بھی کرتے ہیں، جس میں ہتھیاروں کی فروخت بھی شامل ہے۔ 1972ء میں امریکہ نے ’’ون چائینہ پالیسی‘‘ متعارف کروائی، جس کے تحت امریکہ کا کہنا ہے چین ایک ریاست ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے۔ اسی سبب امریکا اور پی آر سی کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو تائیوان کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جسے پی آر سی پر حاکم قوت نے سفارتی انداز سے حل کیا ہے۔ کل تائیوان اور چین کے حالات کیا ہوتے ہیں، یہ کہنا تو قبل از وقت ہے، تاہم یہ معمہ چین کی سفارت کاری کی ایک مثال ہے۔ اگر اس مسئلے کو بغور دیکھا جائے تو چین نے اپنے ایک سیاسی موقف کو معاشی طریقے سے حل کیا ہے، یعنی چین نے معاشی میدان میں ترقی کرکے، نیز دنیا کے ممالک کو معاشی فوائد دکھا کر اپنے سیاسی موقف کو قبول کروایا ہے۔
تائیوان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس نے جنگ کا رستہ اختیار کرنے کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دی اور سفارتی سطح پر تائیوان کو ایک غیر قانونی ریاست قرار دلوایا، تاہم تائیوان پر اس کا دباؤ اتنا نہیں ہے کہ جس میں تائیوان والوں کا سانس گھٹنا شروع ہو جائے بلکہ تائیوان میں قائم حکومت، تجارت، علمی ترقی، ثقافتی میل جول اور اپنے دفاع میں آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تائیوان مکمل طور پر آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اسے چین سے آزاد ہونا ہے یا اس ملک کا حصہ رہنا ہے۔ چین کی اسی سفارت کاری کے نتیجے میں ہانک کانگ سو برس تک برطانیہ کے زیر تسلط رہنے کے بعد چین کے تحت آگیا اور آج چین کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ چین کی یہ سفارتکاری، سیاست کے میدان میں اس کی فکری گہرائی کا عندیہ دیتی ہے، ایسے ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرتے ہوئے پاکستان کو بھی نہایت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چین کی سفارتکاری کے طریقوں کو سمجھنا ہوگا، جو کہ دنیا کی سفارتکاری کے طریقوں سے قدرے مختلف ہیں۔
1912ء سے 1949ء تک چین میں مختلف حکومتیں قائم ہوئیں اور چین کے سیاسی حالات میں بہت سے تغیرات آئے، جن میں وڈیروں کی من مانیاں، جاپان کا حملہ، خانہ جنگی شامل ہیں۔ اس عرصے میں چین میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہوئیں۔ 1949ء میں جب چین میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو مین لینڈ چین پر کیمونسٹ راہنماء ماؤزے تنگ کا اقتدار قائم ہوا۔ کائی شک کی قیادت میں آر او سی کی قیادت چین سے پسپائی اختیار کرکے تائیوان چلی گئی۔ یوں چین دو سیاسی دھڑوں کے اقتدار میں تقسیم ہوگیا۔ ایک ریاست پیپلز ریپبلک آف چائینہ (پی آر سی) اور دوسری ریپبلک آف چائینہ (آر او سی) قرار پائی۔ آر او سی ریاست اقوام متحدہ کی بانی رکن تھی اور 1971ء تک جنرل اسمبلی کی بھی رکن رہی۔ 1970میں سوویت بلاک، نان الائنڈ موومنٹ کے رکن ممالک اور برطانیہ نے ’’پی آر سی‘‘ کو قبول کر لیا۔ اس کے بعد دیگر کئی ایک ریاستوں نے پی آر سی میں قائم حکومت کو چین پر بر سر اقتدار قوت کے طور پر تسلیم کیا، جن میں امریکا بھی شامل تھا، جس کی وجہ سے 1971ء میں پی آر سی کو اقوام متحدہ اور جنرل اسمبلی کا ممبر قرار دے دیا گیا اور ’’آر او سی‘‘ چینی خطے پر برسر اقتدار قوت کی حیثیت کھو بیٹھی۔
آر او سی اپنے استحقاق کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہی۔ 1990ء میں چین کی قانونی حاکمیت کے موقف کے بجائے تائیوان کی آزادی کا نعرہ سامنے آیا۔ یہ نعرہ آر او سی میں سامنے آیا، جس کا دارالحکومت تائپے ہے۔ آر او سی کی سیاسی جماعتیں دو گروہوں میں بٹ گئیں، ایک پین بلیو اتحاد اور دوسرا اتحاد پین گرین اتحاد کے نام سے سامنے آیا۔ پی آر سی اور تائیوان کے پین بلیو اتحاد کا کہنا ہے کہ ایک ہی خود مختار چین ہے، جو مین لینڈ چائینہ اور تائیوان کے جزائر پر مشتمل ہے، ہر دو اپنے آپ کو اس خود مختار چین کا قانونی حاکم قرار دیتے ہیں۔ آر او سی یعنی تائیوان کے پین گرین اتحاد کا کہنا ہے کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جس کا رسمی نام ریپبلک آف چائنہ ہے۔ سال 2022ء تک دنیا کے 178 ممالک اور فلسطینی ریاست کے سفارتی تعلقات پی آر سی میں قائم حکومت کے ساتھ ہیں، جبکہ 13 ممالک آر او سی کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حامل ہیں۔
پی آر سی میں قائم حکومت جو دنیا بھر میں چین کی قانونی حکومت تسلیم کی جاتی ہے، آر او سی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مخالف ہے، وہ تائیوان کو مین لینڈ چائنہ کا ایک صوبہ قرار دیتے ہیں۔ چین میں قائم حکومت دو چین کی مخالف ہے اور اپنے ’’ون چائنہ پرنسپل‘‘ پر ہی سفارت کاری کرتی ہے۔ چینی حکومت اپنے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والی ریاست سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ پہلے آر او سی کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کرے۔ یعنی چینی حکومت سفارتی تعلقات کی خواہشمند کسی بھی ریاست کو چین یا تائیوان میں انتخاب کا موقع فراہم کرتی ہے۔ چین حکومت اپنے عالمی اثر و رسوخ اور کاروباری صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے آر او سی کے عالمی مناسبتوں میں شرکت کو روکتی ہے۔ چین کے موجودہ صدر زی جنگ پنگ کا کہنا ہے کہ تائیوان اور چین کا اتحاد بدیہی ہے، تاہم اس کے لیے کسی قسم کی قوت کا استعمال بعید از قیاس ہے۔
میں نے اپنی گذشتہ تحریر میں لکھا کہ چین تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات کا مخالف ہے، تاہم تجارت، ثقافتی تبادلہ وغیرہ کو نہیں روکتا۔ اسی لیے امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے تائیوان میں اپنے غیر سفارتی دفاتر قائم کر رکھے ہیں اور تائیوان سے تجارت بھی کرتے ہیں، جس میں ہتھیاروں کی فروخت بھی شامل ہے۔ 1972ء میں امریکہ نے ’’ون چائینہ پالیسی‘‘ متعارف کروائی، جس کے تحت امریکہ کا کہنا ہے چین ایک ریاست ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے۔ اسی سبب امریکا اور پی آر سی کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو تائیوان کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جسے پی آر سی پر حاکم قوت نے سفارتی انداز سے حل کیا ہے۔ کل تائیوان اور چین کے حالات کیا ہوتے ہیں، یہ کہنا تو قبل از وقت ہے، تاہم یہ معمہ چین کی سفارت کاری کی ایک مثال ہے۔ اگر اس مسئلے کو بغور دیکھا جائے تو چین نے اپنے ایک سیاسی موقف کو معاشی طریقے سے حل کیا ہے، یعنی چین نے معاشی میدان میں ترقی کرکے، نیز دنیا کے ممالک کو معاشی فوائد دکھا کر اپنے سیاسی موقف کو قبول کروایا ہے۔
تائیوان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس نے جنگ کا رستہ اختیار کرنے کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دی اور سفارتی سطح پر تائیوان کو ایک غیر قانونی ریاست قرار دلوایا، تاہم تائیوان پر اس کا دباؤ اتنا نہیں ہے کہ جس میں تائیوان والوں کا سانس گھٹنا شروع ہو جائے بلکہ تائیوان میں قائم حکومت، تجارت، علمی ترقی، ثقافتی میل جول اور اپنے دفاع میں آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تائیوان مکمل طور پر آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اسے چین سے آزاد ہونا ہے یا اس ملک کا حصہ رہنا ہے۔ چین کی اسی سفارت کاری کے نتیجے میں ہانک کانگ سو برس تک برطانیہ کے زیر تسلط رہنے کے بعد چین کے تحت آگیا اور آج چین کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ چین کی یہ سفارتکاری، سیاست کے میدان میں اس کی فکری گہرائی کا عندیہ دیتی ہے، ایسے ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرتے ہوئے پاکستان کو بھی نہایت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چین کی سفارتکاری کے طریقوں کو سمجھنا ہوگا، جو کہ دنیا کی سفارتکاری کے طریقوں سے قدرے مختلف ہیں۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: