مسلمانوں پر تنگ ہوتی ہندوستانی سرزمین
مسلمانوں پر تنگ ہوتی ہندوستانی سرزمین
تقریباً 34 برس پہلے امام خمینی نے جب سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف کے نام یہ مکتوب کریم تحریر کیا تو دنیا میں ہر طرف اسے ایک عجیب اور جراٗت مندانہ اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔ پاکستان میں بھی اس کی بڑی شہرت ہوئی۔ اس کا اردو ترجمہ روزنامہ جنگ نے اپنے ادارتی صفحے پر شائع کیا تو اس کے مطالب اردو دان طبقے تک پہنچے۔ راقم نے مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ مکتوب میں بعض ایسے مطالب ہیں، جو کچھ وضاحت طلب ہیں اور اس وضاحت و تشریح کے بغیر اردو پڑھنے والوں کو یہ مکتوب صحیح طرح سے سمجھ نہیں آئے گا۔ راقم نے اس کی ایک مختصر تشریح لکھی اور روزنامہ جنگ ہی کو بھجوا دی۔ جنگ نے اس کو اصل مکتوب کے ترجمے ہی طرح اپنے ادارتی صفحے پر شائع کر دیا۔ پھر کیا تھا کہ پورے ملک میں یہ مکتوب زیر بحث آنے لگا۔ بہت سے احباب نے ترجمہ اور اس کی تشریح کو کتابچے یا پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا۔
ایک مسلم معاشرے کے لیے باعث افتخار قرار پایا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تنگ نظر مولوی صاحبان کا ایک حلقہ جو دل سے پہلے ہی امام خمینی سے اتنا خوش نہ تھا، اس کے ہاتھ میں گویا ایک بہانہ آگیا۔ کسی نے فلسفے سے اپنی دشمنی کی بناء پر اور کسی نے عرفان سے اپنے کد کی وجہ سے امام خمینی کو برا بھلا کہا۔ بعض ایسے بھی تھے، جن کی دکانداریاں امام خمینی کے سامنے آنے کی وجہ سے کمزور پڑ گئی تھیں، کچھ ایسے جسور بھی تھے، جنھوں نے امام خمینی کے خلاف کتابیں اور پمفلٹ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس گروہ کی طرف سے یہ سلسلہ کم و بیش آج بھی جاری ہے۔ اپنے افتاد طبع، مزاج، تنگ نظری اور دین کی کج فہمی میں یہ لوگ ایسے ہی ہیں، جن کی طرف امام خمینی نے منشور روحانیت میں اشارہ کیا ہے۔ یہ لوگ ایران، عراق، پاکستان اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ اگرچہ امام خمینی کو اللہ نے جو مقبولیت و محبوبیت عطاء کی ہے اور عالمی سطح پر انھیں جو عزت بخشی ہے، اس کی وجہ سے بہت سے لوگ کھل کر مخالفت میں سامنے نہیں آتے، بہرحال نیمے دروں، نیمے بروں ایسے لوگ موجود ہیں۔ بشکریہ : اسلام ٹائمز
ہمارے حصے کی گالیاں بھی ہمیں پڑتی رہتی ہیں، کوئی کسی بہانے سے گالی دیتا ہے اور کوئی کسی عذر سے کوستا ہے، البتہ ان میں ایک گروہ واضح طور پر وہی ہے، جو فلسفہ و عرفان کا مخالف ہے۔ یہ بات ہم زیادہ تر اہل تشیع کے اندر موجود صورتحال کے حوالے سے کر رہے ہیں، اگرچہ فلسفے اور حقیقی اسلام کا زوال پورے اسلام میں ہمہ گیر ہے، اہل سنت کے ہاں بہت نامور شخصیات فلسفے کی مخالف رہی ہیں۔ امام خمینی اور ان کے ساتھیوں کے نفس حکیمانہ کی وجہ سے شیعوں میں پھر بھی عرفان نظری اور فلسفے نے ایک عروج حاصل کیا ہے، لیکن اہل سنت کے ہاں اس شعبے میں جو صورتحال ہے، اسے الطاف حسین حالی کی مسدس سے پہلے لکھی گئی اس رباعی کے آئینے میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
فلسفے کی دنیا کے تمام بڑے لوگ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے چلے آرہے ہیں کہ فلسفے پر تنقید کرنے سے پہلے اسے سمجھنا اور اس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ فلسفے کا معلم اول ارسطو کہتا ہے کہ عقل پر نقد اور فلسفے پر رد کے لیے فیلسوف ہونا ضروری ہے اور عقل نے عقل کو پچھاڑ دیا ہے تو جو کامیاب ہوا ہے، وہ عقل ہی ہے۔
اہل عقل و فلسفہ کہتے ہیں کہ عقل پر جو تنقید کی گئی ہے، اس سے مراد عقل جزئی ہے، ہمارے ہاں عقل اور عشق کی جنگ کا بہت شہرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب بڑے لوگ جن میں علامہ اقبال بھی شامل ہیں، جنھوں نے عقل پر تنقید کی ہے، وہ اسی نوعیت کی ہے۔ ایسے مقامات امام خمینی کے ہاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ استاد مطہری نے بھی ارسطو کی تاسی میں یہ بات کہی ہے کہ فلسفے پر تنقید کے لیے فلسفے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
حضرت امام خمینی اپنی جوانی میں ہی حکمت متعالیہ میں ایک کامل اور متبحر عالم کی حیثیت رکھتے تھے۔ 27 برس کی عمر میں انھوں نے شرح دعائے سحر سپرد قلم کی۔ اس زمانے تک وہ تمام فلسفی نظریات کا گہرا مطالعہ کرچکے تھے، یہاں تک کہ بعض مسائل میں اپنے خاص نظریات اختیار کرچکے تھے۔ فلسفے میں آپ کے استاد آیت اللہ رفیعی قزوینی اور مرحوم حاج مرزا علی اکبر حکیم تھے۔ آیت اللہ حسن زادہ عاملی مرحوم کہتے ہیں کہ ایک روز میں آیت اللہ رفیعی کی خدمت میں گیا تو انھوں نے امام خمینی کی زبردست ذہانت و صلاحیت اور ذوق سرشار کی بہت تعریف کی اور فرمایا: “یہ سید بہت ذہین ہے اور مستقبل میں کوئی بڑا کام انجام دیں گے۔”
امام خمینی نے فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فلسفے کے درس کا بھی آغاز کیا۔ استاد آشتیانی کہتے ہیں کہ امام خمینی نے پندرہ برس تک شرح منظومہ اور اسفار کی تدریس کی۔ امام خمینی طلاب کو نصیحت کرتے تھے کہ فلسفے کی تعلیم اس کے اہل افراد سے حاصل کریں۔ امام خمینی نے الگ سے فلسفے پر کوئی کتاب نہیں لکھی، البتہ اسفار کے ’’مبحث ارادہ‘‘ پر ایک تعلیقہ لگایا ہے۔ فلسفے میں امام خمینی کا علمی مقام بہت بلند تھا۔ علوم عقلی میں اہم ترین موضوعات پر انھوں نے مختلف مقامات پر اظہار خیال کیا ہے، ان کے بعض خصوصی اور جدید نظریات بھی ہیں، اگرچہ انھوں نے فلسفے سے زیادہ عرفان پر بات کی ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا فلسفہ زیادہ تر محض مشائی کے بجائے اشراقی رنگ کا حامل ہے۔ ان کے فلسفی مشرب پر ہم آئندہ سطور میں کچھ وضاحت کریں گے۔