×

علامہ مفتی جعفر حسین، اتحاد کے مظہر

nisar ali tirmazi

علامہ مفتی جعفر حسین، اتحاد کے مظہر


تحریر: سید نثار علی ترمذی

ہر بڑی شخصیت کے متعدد پہلو ہوتے ہیں۔ بعض پہلو بہت نمایاں ہو جاتے ہیں، بعض عوام کی نظر میں مقبول ہو جاتے ہیں، لیکن دیگر پہلو جو اپنی جگہ تو بہت اہم ہوتے ہیں، مگر وہ مکمل سوانح حیات کے نہ ہونے یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم ایک تو بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کے ساتھ بھی بڑی شخصیتوں والا سلوک ہوا ہے۔ میں اپنے قلیل مشاہدہ اور مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ مخلص اور الٰہی انسان ہوتے ہیں، اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ مفتی جعفر حسین اب بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے کیے ہوئے علمی کام اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک تو آپ کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا ہے، جہاں فرقہ واریت کی بجائے انسانیت اور رواداری کا رواج تھا۔ آپ کے آباء طب سے تعلق رکھتے تھے، جو معاشرے میں ایک معزز اور معروف طبقہ گنا جاتا ہے۔ پھر آپ کے چچا نے آپ کی تعلیم و تربیت اہل سنت کے علماء کرام کے سپرد کی، جنہوں نے آپ کو بنیادی تعلیمات و عربی زبان کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا۔ آپ کا بچپن سے اہل سنت کے ساتھ یہ ارتباط تاحیات آپ پر اثر انداز رہا۔

ہمارے ہاں تعصب اور نفرت کی ایک وجہ مختلف مسالک کے درمیان عدم رابطہ اور ان کے افکار سے نہ آگاہی بھی ہے۔ الحمدللہ! مفتی صاحب قبلہ آغاز سے ہی ان مراحل سے گزر چکے تھے۔ اس لیے ان کے اہل سنت کے علماء سے ذاتی روابط بھی موجود تھے اور ان کی گفتگو اور تعلیمات میں بھی شائستگی، ہم آہنگی اور برداشت کا پیغام جلوہ گر رہا ہے۔ اس کے کئی شواہد موجود ہیں۔ 2016ء کی بات ہے، بندہ ناچیز کو ایک پانچ روزہ بین المسالک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا، جس میں دیگر مقررین کے علاؤہ مشہور عالم علامہ زاہد الراشدی صاحب نے بھی خطاب کیا۔ یہ ورکشاپ دو مقامات پر تھی۔ دو دن اسلام آباد اور تین نتھیاگلی میں۔ اسلام آباد سے روانگی کے وقت میری سیٹ علامہ زاہد الراشدی صاحب کے ساتھ تھی۔ آپ سے مختلف موضوعات پر گفتگو رہی۔ آپ نے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک مرتبہ ان کے کمرے میں تشریف لائے۔ انہوں نے کمرے کو ترتیب سے کرنے کی کوشش کی تو مفتی صاحب نے کہا رہنے دو، میں اس کمرے میں چھ سال رہا ہوں۔ اس سے ان کے اپنی ابتدائی مادر علمی سے انسیت اور وابستگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی مادر علمی سے محبت رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ مفتی صاحب کے ساتھ امن کمیٹی گوجرانولہ میں تھے۔ ایک دن ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل نے کہا یہاں پیپلز کالونی میں امن کمیٹی کے اراکین کو پلاٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ لوگ اپنی درخواستیں جمع کروا دیں، تاکہ پلاٹ الاٹ کیے جا سکیں۔ ایک مرتبہ کسی کام کے سلسلے میں سرکاری دفتر جانا ہوا تو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل نے کہا کہ سب کی درخواستیں آچکی ہیں، سوائے مفتی جعفر حسین کے اور آپ کے۔ میں نے کہا کہ ہماری درخواستیں تو نہیں آئیں گیں۔ مولانا راشدی کا مفتی صاحب مرحوم کی اس خصوصیت کا تیس سال بعد تک یاد رکھنا ایک قابل ذکر بات ہے۔ 1948ء میں علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم حکومت پاکستان تعلیمات اسلامی بورڈ میں بطور رکن نامزد ہوئے، جہاں ان کا دیگر مسالک کے چوٹی کے علماء سے ارتباط بڑھا اور ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس ادارے نے قرارداد مقاصد جیسی مکمل دستاویز تیار کی، جو آج بھی آئین پاکستان کا حصہ ہے اور جہاں یہ قرارداد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کرتی ہے، وہیں پر تمام مسالک کے حقوق کا تحفظ بھی کرتی ہے۔

اس میں مفتی صاحب قبلہ کا حصہ تاریخ کا حصہ ہے، اگر مفتی صاحب کی جگہ کسی اور کو یہ نمائندگی حاصل ہوتی تو ہوسکتا ہے کہ یہ قرارداد اس طرح تحریر و ترتیب نہ پاسکتی بلکہ مسالک کی موشوگافیوں کا آئینہ دار ہوتی۔ 1951ء میں جب کراچی میں 22 علماء کے 32 نکات منظور ہوئے تو اس پر مکتب تشیع کی طرف سے حافظ کفایت حسین مرحوم بحثیت صدر ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کے ساتھ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے دستخط بحیثیت رکن تعلیمات اسلامی بورڈ موجود ہیں۔ یہ دستاویز آج بھی شیعہ سنی کے مابین ایک مشترکہ اور مکمل دستاویز کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس دستاویز پر بعض علماء نے متعدد اعتراض کیے تو اگلے سال اس میں اس تشریح کو شامل کیا گیا کہ قرآن و سنت کی تعبیر ہر مسلک کے مطابق ہوگی، مگر اسے پذیرائی نہ مل سکی۔ یہ بھی اتحاد بین المسلمین کے لیے مفتی جعفر حسین مرحوم کی خدمات میں سے ایک ہے۔ مفتی جعفر حسین مرحوم نے تحریک ختم نبوت میں مرکزی و بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کا اظہار ختم نبوت کے مرکزی رہنماء مولانا اللہ وسایا مرحوم نے اپنی کتاب میں کیا، جسے بطور ثبوت یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

مولانا اللہ وسایا تحریک ختم نبوت 1952ء صفحہ 114 میں لکھتے ہیں کہ دو جون 1952ء کو مولانا لال حسین اختر کی مسائی جمیلہ سے تھیوسوفیکل ہال کراچی میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس کے دعوت ناموں پر مولانا لال حسین اختر کے ساتھ مولانا احتشام الحق تھانوی (دیوبندی)، مولانا عبدالحامد بدایوانی (بریلوی)، مولانا مفتی جعفر حسین مجتہد (شیعہ)، مولانا محمد یوسف (اہلحدیث) نے بھی دستخط کئے ہیں۔ اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ مدرجہ ذیل تین مطالبات بھی متعین کیے گئے۔
(1) قادیانی ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جائیں۔
(2) چوہدری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کر دیا جائے۔
(3) تمام کلیدی آسامیوں سے قادیانی افسروں کو علیحدہ کیا جائے۔

اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مذکورہ بالا مطالبات کا منوانے کے لیے ایک آل مسلم پارٹیز کنونشن بھی طلب کیا جائے۔ کانفرنس کی صدارت مولانا سید سلمان ندوی مرحوم نے فرمائی۔ ایک بورڈ کا قیام بھی عمل لایا گیا، جس کے ذمہ یہ تھا کہ وہ ایک آل مسلم پارٹیز کنونشن کے جملہ انتظامات کا ذمہ دار ہوگا۔ اس بورڈ کے ممبران درج ذیل حضرات منتخب ہوئے۔
(1) سید سلیمان ندوی، صدر تعلیمات اسلامی بورڈ
(2) مفتی محمد شفیع ممبر تعلیمات اسلامی بورڈ
(3)مولانا عبد الحامد بدایونی
(4) مولانا مفتی محمد یوسف کلکتوی
(5)مفتی صاحب داد صاحب
(6) مولانا سلطان احمد صاحب
(7) علامہ احمد نورانی صاحب
(8) مولانا لال حسین صاحب اختر
(9) الحاج ہاشم گزدر صاحب
(10)مولانا مفتی جعفر حسین مجتہد ممبر تعلیمات اسلامی بورڈ
(11) مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی (کنوینئر)

مذکورہ بالا بورڈ کا ایک اجلاس 13 جولائی 1952ء کو الحاج ہاشم گزدر کے مکان پر ہوا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آل مسلم پارٹیز کنونشن میں مدرجہ ذیل جماعتوں کو دعوت نامے جاری کیے جائیں۔ (1) جمعیت علماء اسلام پاکستان۔ (2) جمعیت علمائے پاکستان (3) مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان۔ (4) مجلس احرار اسلام پاکستان۔ (5) تنظیم اہل سنت والجماعت پاکستان۔ (6) جمعیت اہل حدیث پاکستان۔ (7) جماعت اسلامی پاکستان۔ (8) حزب اللہ مشرقی پاکستان۔ (9) ادارہ تحفظ حقوق شیعہ۔ 5 اگست 1952ء کو کراچی میں ایک مشترکہ میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ مستقبل قریب میں کل پاکستان سطح کی ایک آل پارٹیز کنونشن بلائی جائے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی کو کنونشن بلانے کا مجاز قرار دیا گیا۔ مولانا موصوف نے 11 دسمبر 1952ء کو پاکستان بھر کے دینی جماعتوں کے نمائندوں کا کنونشن بلانے کے لیے دعوت نامے جاری کر دیئے کہ: ” آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کا اجلاس کراچی میں 16، 17، 18 جنوری 1953ء کو منعقد ہوگا۔” قادیانی رہنما مرزا ناصر احمد نے مفتی جعفر حسین مرحوم کے کردار کا اظہار کیا ہے۔

مولانا اللہ وسایا “پارلیمنٹ میں قادیانی شکست صفحہ 82 (6) میں لکھتے ہیں کہ اٹارنی جنرل۔ کیا 51ء میں شیعہ مجتہد مفتی جعفر حسین بھی ان میں شامل نہ تھے۔؟ مرزا ناصر، جی وہ بھی شامل تھے، مگر “ترجمان اسلام” لاہور 21 مارچ 1972ء صفحہ 5, کالم نمبر پانچ میں آگیا ہے۔ اٹارنی جنرل، یہ آپ نے محضر نامہ میں لکھ دیا ہے، مگر میں عرض کرتا ہوں کہ 51ء میں شیعہ بھی، دیوبندی بھی بریلوی اہل حدیث کے ساتھ علامہ سلمان ندوی کی صدارت میں جمع تھے۔؟ مرزا ناصر، جمع تھے۔ (نوٹ یہ کتاب قومی اسمبلی میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ہونے والی بحث مباحثے پر مشتمل ہے۔) سید منیر حسین گیلانی صاحب نے اپنی خود نوشت “سیاسی بیداری” کے صفحہ 49 پر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کے ایک بیان کو شامل کیا ہے، جس میں آپ کہتے ہیں کہ حافظ کفایت حسین کے بعد تحریک ختم نبوت میں سب سے زیادہ کردار علامہ مفتی جعفر حسین کا ہے۔ انہوں نے ختم نبوت اور سیرت نبی پر بہت کام کیا ہے اور اہل تشیع کی نمائندگی کی ہے۔

مولانا احمد لاہوری مرحوم نے قرآن پاک کا ترجمہ شائع کیا تھا اور اس امید کے ساتھ کہ یہ ترجمہ تمام مسالک کے لیے قابل قبول ہوگا۔ واقعی یہ ترجمہ اس قابل تھا کہ اسے عام کیا جاتا اور ایک ماڈل ترجمے کے طور پر پڑھا جاتا، جس سے مسالک کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی فضا بہتر ہو جاتی، مگر تعصب اور تنگ نظری نے ایسا نہ کرنے دیا۔ اس ترجمے پر موصوف احمد علی لاہوری مرحوم نے تمام مسالک کے جید علماء سے تقاریظ لکھوائیں، تاکہ سند رہے، اس کا اعزاز بھی علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کو ملا۔ یہ ترجمہ چھپا بھی اور تمام مسالک کے علماء کی تقاریض کے ساتھ، مگر بعد ازاں اس ترجمے میں سے مفتی صاحب مرحوم کی تقریظ کو نکال دیا گیا، جسے ایک المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ باوجود کوشش کے وہ ترجمہ قرآن جس پر مفتی صاحب کی تقریظ تھی، دستیاب نہیں ہوسکا، لیکن تلاش جاری ہے۔ مفتی صاحب کی تقریظ دلالت کرتی ہے کہ یہ ترجمہ واقعی ایک قابل قدر کوشش ہے اور اتحاد و وحدت کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔

مفتی صاحب کی تقریظ نے اس مغالطے کا رد بھی کر دیا کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ آپ نے ثابت کیا کہ شیعہ اسی قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، جو عام مسلمانوں کے درمیان رائج ہے۔ مفتی صاحب کی یہ خدمت عوام کی نظروں سے اوجھل تھی، اسے اس مضمون میں اجاگر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم نے بھی اپنے مضمون میں علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے اتحاد و وحدت کے کردار پر روشنی ڈالی ہے اور ایسے جلسوں کا ذکر کیا، جو بین المسالک ہم آہنگی و بھائی چارے کے لیے منعقد ہوئے تھے اور ان میں ایک اہم مقرر علامہ مفتی جعفر حسین تھے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں مفتی صاحب کی سادگی، مہمان نوازی اور علمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ دراصل مفتی صاحب مرحوم کے اس کردار پر روشنی ڈالی ہے، جو آپ نے دیگر مسالک کے علماء کے ساتھ محبت اور اخوت سے نبھایا۔

اہل حدیث مورخ محمد اسحاق بھٹی صاحب نے اپنی کتاب بزم ارجمنداں میں مفتی جعفر حسین مرحوم پر ایک یادگار مضمون لکھا ہے، اس میں سے ایک اقتباس موضوع کے مطابق آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ “مفتی صاحب ہمیشہ ہر اس کمیٹی میں شامل رہے، جو مشترکہ مقاصد کے حصول کی غرض سے ملک کے تمام مکاتب فکر (شیعہ، حنفی، اہل حدیث) سے تعلق رکھنے والے علماء، زعماء پر مشتمل ہوتی۔ اس نوع کی کمیٹیوں میں ان کی رائے کو اہمیت دی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد اسلامی مملکت کی بنیادی و اساسی اصول مرتب کرنے کے غرض سے 21، 22، 23، 24 جنوری 1951ء کو 31 علماء کی اس میٹنگ میں بھی مفتی صاحب شریک تھے، جس میں اسلامی حکومت کے 22 نکات ترتیب دیئے گئے تھے۔ اس میٹنگ میں دوسرے شیعہ عالم و مجتہد حافظ کفایت حسین شامل تھے اور ان دونوں حضرات کو تمام مسالک فقہ کے علماء و زعماء کے نزدیک قدر و منزلت حاصل تھی۔” یہ آپ کے اتحاد بین المسلمین کے لیے انجام دی جانے والی خدمات کا اعتراف ہے۔ جب محمد اسحاق مرحوم کا یہ مضمون ماہنامہ روزہ پیام اسلام اباد میں شائع ہوا تو فیصل آباد سے پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر، مدیر ماہنامہ التجوید نے اپنی یادیں تازہ کیں اور باغ موچی دروازہ میں بین المسالک سیرت النبی کے جلسہ سے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی تقریر کا احوال سنایا۔

اس میں آپ کی مقبولیت، اہمیت، برجستگی اور نکتہ سنجی کا خوب صورت اظہار کیا۔ آپ دیگر مکاتب کی عوام میں بھی جگہ رکھتے تھے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے آپ کے عزم و ارادہ کا تذکرہ مفتی صاحب مرحوم کے رفیق دیرینہ حاجی شریف مرحوم نے بھی اپنے مضمون میں کیا ہے۔ آپ نے مفتی صاحب کو قائد اعظم کی مماثلت قرار دیتے ہوئے کئی مواقع ذکر کیے ہیں، جن میں ایک کا تذکرہ یہاں کرتے ہیں۔ “قائدا اعظم نے ایک مدت تک ہندو مسلم اتحاد کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے رکھا اور آخری عمر میں ناگزیر وجوہات کے سبب سے آپ کو صرف مسلمانان ہند کی قیادت اختیار کرنا پڑی۔ بعینہٖ اسی طرح تخلیق پاکستان کے بعد ایک مدت تک مفتی صاحب بھی شیعہ سنی اتحاد کے علم بردار رہے اور آپ نے ہمیشہ امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی وبا سے دور رہنے اور اللہ کی رسی کو مضبوط تھامنے رکھنے کا پوری قوت کے ساتھ درس دیا اور آخر عمر میں آپ کو بھی ناگزیر وجوہات کے سبب سواد اعظم سے کٹ کر صرف فرقہ جعفریہ کی قیادت کا پرچم تھامنا پڑا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ قیادت کا یہ پرچم حکومت اور چند تخریب پسند عناصر کی مسلسل مخالفت کے باوجود آپ نے اسی شان سے تھاما کہ جب تک جیئے قائد اعظم کی مانند سوائے ناقابل ذکر مستثنیات کے، ملت جعفریہ کے پورے تین کروڑ افراد کے دل کی دھڑکن بن کر جیئے۔” یہ آپ کے کردار وحدت امت پر ایک اور سند ہے۔

اسی طرح جب آپ علیل ہو کر صاحب فراش ہوئے تو عیادت کرنے والوں میں دیگر مسالک کی شخصیات و علماء کرام بھی تشریف لائے اور اسی طرح آپ کی رحلت پر تمام مسالک کے علماء و زعماء نے اپنی تعزیتی بیانات میں آپ کے اتحاد امت کے کردار کو سراہا اور آپ کی رحلت کو امت کا نقصان قرار دیا۔ اخبارات نے آپ کی رحلت کی خبر کے ساتھ آپ کی وحدت امت کیلئے خدمات کو سراہا۔ اسی طرح اپنے اپنے اداریوں میں بھی آپ کے اسی کردار کا تذکرہ کیا ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور، مرحوم مفتی جعفر حسین کا شمار ملک کے ممتاز علماء کرام میں ہوتا تھا، انہوں نے تبلیغ و اشاعت دین کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ ان کے کردار کا یہ پہلو بطور خاص یاد رکھا جائے گا کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتیب فکر کے درمیان افہام و تفہیم اور اتفاق کے جذبے سے شرسار تھے۔ روزنامہ جنگ کراچی: “مفتی صاحب کا شمار پاکستان کے ان اکابرین میں کیا جاتا تھا، جنہوں نے ملت اسلامیہ کے اتحاد کے لیے انتھک جدوجہد کی تھی اور اسی بنا پر پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے افراد کو ان کی رحلت سے صدمہ پہنچا ہے۔”

روزنامہ حریت کراچی؛ “مفتی جعفر حسین اتحاد امت کے داعی، مفتی صاحب مسلمانان عالم کے اتحاد پر زبردست یقین رکھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہی اتحاد مسلمانوں کو سیاسی، تہذیبی اور سماجی عظمت اور رتبہ دلا سکتا ہے اور وہ ایک زبردست طاقت بن کر کرہ ارض پر پھیل سکتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی زندگی کے مقصد اور مشن کی راہ کو زندہ رکھیں اور مسلمانان عالم کے اتحاد کے کام کو آگے بڑھائیں۔ روزنامہ مشرق لاہور؛ “ممتاز شیعہ عالم مفتی جعفر حسین کی رحلت ملک کے تمام دینی حلقوں کے لیے سانحہ عظیم کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ فرقہ وارانہ اتحاد و یکجہتی اور اسلامی اصولوں اور اقدار کی سربلندی کی ہر تحریک میں پیش پیش رہے۔ تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا۔ قرارداد مقاصد تیار کرنے والی علماء کمیٹی میں قابل قدر حصہ لیا، تعلیمات اسلامی بورڈ کی رکن کی حیثیت نمایاں خدمت انجام دی۔ علماء کی تاریخی بائیس نکات کی تیاری میں بھی معاونت کی اور مختلف ادوار میں اسلامی مشاورتی کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکنیت کے فرائض بھی خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔ مرحوم کی عملی خدمات ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔”

روزنامہ امن؛ “آپ جید عالم اور بے بدل محقق تھے، جنہوں نے اسلامی فلسفے کی وضاحت کی اور اسے عام فہم بنایا۔ حضرت مفتی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے جرآت مند عالم دین تھے، جو انتہائی نامساعد حالات میں بھی کبھی نہیں ڈگمگائے۔ ان کی وفات ایک قومی نقصان ہے۔ انہوں نے دین کی خدمت اور امت کی یکجہتی کو ہمیشہ اپنا شعار بنائے رکھا۔ ان جیسی ہستیاں صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہیں۔روزنامہ امروز لاہور: “مرحوم متحبر عالم دین تھے۔ ان کی زندگی تبلیغ دین کے لیے وقف رہی۔ وہ بڑے حلیم طبع، صلح جو اور دردمند انسان تھے۔ اتحاد بین المسلمین ان کا مسلک تھا۔ وہ ہمیشہ مختلف فرقوں میں مفامت کے لیے کوشاں رہے۔ انہی اوصاف کی بنا پر وہ سبھی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ چنانچہ ان کی رحلت پر سبھی مکاتب فکر نے گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔” روزنامہ آفتاب؛ “مفتی صاحب کا شمار ان مذہبی رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے فرقہ وارانہ اتحاد قائم کرنے کی ہمیشہ کوشش کی اور شیعہ مکتب فکر میں تو انہیں وہی مقام حاصل تھا جو ایران نے آقائے خمینی کا ہے۔ مرحوم نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا اور 1952ء میں جن اکتیس علمائے کرام نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے متفقہ طور پر 22 نکات مرتب کئے، ان میں مفتی صاحب بھی شامل تھے۔

ظاہر بات ہے کہ جو کردار آپ کی زندگی پر غالب رہا، اسی کا اظہار غیر جانبدار میڈیا نے کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کے اس کردار کی وجہ سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے جن شخصیات یعنی کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ اور حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اسی طرح سیرت امیر المومنین علیہ السلام دو جلدوں میں مرتب کی ہے، یہ دونوں شخصیات امت محمدی میں مشترک اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ آپ کی یہ علمی خدمت بھی ایک پہلو کے لحاظ سے اتحاد بین مسلمین کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کے اس کردار کا تفصیل سے تحقیق و جائزہ لیا جائے اور ان اصولوں کو واضح کیا جائے کہ جن پر آپ عمل پیرا تھے۔ ایک بات آپ کے کردار سے بہت واضح ہوتی ہے کہ اپنی شناخت اور اپنی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر مسالک کے ساتھ اتحاد و دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ آپ ہر مسئلے پر اپنی رائے رکھتے تھے، لیکن آپ دلائل و برہان کے سامنے اسے تبدیل کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہی آپ کی کامیابی کا مرکزی نقطہ ہے۔ اللہ ہمیں آپ کے آثار کو محفوظ کرنے اور تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین ثم آمین۔
یہ بھی پڑھیں: محسن ملّت علامہ صفدر حسین نجفی
https://albasirah.com/urdu/safdar-najafi/

Share this content: