معاہدہ ابراہیم تمام معاہدوں کی ماں کیسے؟

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

ڈاکٹر ولید فارس امور مشرق وسطیٰ کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ ماضی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خارجہ پالیسی سے متعلق مشیر رہ چکے ہیں اور درون خانہ ان کے بہت سے رازوں سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر ولید نے تقریباً ایک برس قبل ایک کالم ’’یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ابراھیم: تمام معاہدوں کی ماں ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ اس آرٹیکل میں ان کا کہنا تھا کہ ’’اب تک جو کچھ میں جانتا ہوں، وہ یہ ہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ڈیل کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کے زیادہ وسیع تر پہلو ہیں، جن کا انکشاف دستخط کے بعد مرحلہ وار ہوگا۔‘‘

ڈاکٹر ولید کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے مجھ سے پانچ سال قبل ایک نئے عرب، اسرائیل امن معاہدے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں پوچھا تھا۔ انھوں نے دسمبر 2015ء میں یو اے ای کی طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی ممکنہ امن ڈیل کا امیدوار ہوسکتا ہے۔ تب میری ٹرمپ ٹاور میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس کے بارے میں برسوں سے سوچ رہے تھے اور وہ اس ڈیل کے خالق بننا چاہتے تھے۔

2016ء میں صدارتی انتخاب کے لیے مہم کے دوران میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسی کسی ڈیل کی پیشین گوئی کی تھی۔ انھوں نے ستمبر 2016ء میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔ صدر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے یو اے ای کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان سے ملاقات کی تھی۔ یہ کوئی پانچ سال پرانی بات ہے۔ اسرائیلی ربع صدی قبل اردن کے ساتھ امن معاہدہ پر دست خط کرنے کے بعد سے کسی اور ملک سے بھی معاہدہ طے کرنے کی تاک میں تھے۔ جہاں تک یو اے ای کی قیادت کا تعلق ہے، میں اس امر کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ شیخ محمد اور ان کے بھائی امارات کے وزیر برائے خارجہ امور اور بین الاقوامی ترقی شیخ عبداللہ بن زاید نے 2016ء میں ذاتی طور پر مجھے بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسی کسی ڈیل کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن وہ فلسطینیوں کو بھی ذہن میں ملحوظ رکھیں گے۔

ڈاکٹر ولید نے لکھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کا ایک خواب شرمندۂ تعبیر ہوا چاہتا ہے۔ وہ یوں کہ اس کو خلیج عرب کی ایک بڑی معیشت تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس کی عرب دنیا کے سب سے جدید ملک کے ساتھ شراکت داری قائم ہو جائے گی۔ یو اے ای کو اسرائیل کی زراعت سے دفاعی شعبے تک جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ دونوں ممالک خود کو اگر ایک مخالف خطے میں پاتے ہیں تو ان کے درمیان فوجی تعاون کھیل کا پانسہ پلٹنے کے لیے اہم عامل ثابت ہوگا۔ دوسری جانب ابوظہبی قطر پر اس مقصد کے لیے دباؤ ڈالے گا کہ وہ بھی اس کی پیروی کرے یا پھر وہ بظاہر امریکی عوام کی نظروں میں امن کا مخالف سمجھ اجائے گا۔

ڈاکٹر ولید مزید لکھتے ہیں کہ ایران اور الاخوان المسلمون بلاشبہ ایسی کسی ڈیل کی مخالفت کریں گے، کیونکہ ایسی ڈیل ان کے امور/ لوگوں کو ریڈیکل بنانے، فلسطینی کاز اور یروشلیم کے بارے میں پتوں کی بڑے مؤثر انداز میں فعالیت کو کم کر دے گی۔ اماراتی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اس مقدس شہر کے دروازیں کھولیں گے۔ ترکی کی حکمراں جماعت آق بھی اس امن معاہدے کی مخالفت میں آیت اللہ صاحبان کی صف میں شامل ہوگئی ہے لیکن اس کے لیے ضرررساں امر یہ ہے کہ استنبول میں سیکولر حضرات اور کاروباری افراد اس طرح کی جارحانہ خارجہ پالیسی سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ نتیجتاً اسرائیلی کاروباری اپنے کاروباروں کو ترکی سے خلیج کی منڈی میں منتقل کر دیں گے، کیونکہ انھیں ترکی میں امن عمل کی مخالف ایک جارحانہ حکومت کا سامنا ہے۔ ایک اور خلیجی ملک بحرین بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتا ہے، کیونکہ اس نے تو اسرائیلیوں کے ساتھ برسوں قبل بین المذاہب مکالمے کا آغاز کردیا تھا۔

عُمان اور کویت اس معاملے کو دیکھیں گے، لیکن سب سے بڑا پرائز، جو مشرقِ وسطیٰ میں بنیاد ہی کو تبدیل کرکے رکھ دے گا، وہ سعودی عرب کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زاید آل نہیان کے دوست اور اتحادی ہیں۔ نوجوان سعودی ولی عہد نے پہلے ہی مملکت کی تاریخ میں اصلاحات کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ ریاض سربراہ اجلاس کے بعد انھوں نے ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر خلیج میں سفارتی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر انھیں خود بڑی احتیاط سے اپنے ملک میں دور رس نتائج کی حامل اصلاحات کو عملی جامہ پہنانا ہوگا، تاکہ وہ خود یروشلیم کی جانب جانے والی شاہراہ پر چلنے کے لیے عرب اتحاد کی قیادت کرسکیں اور وہاں امن کی دعا کرسکیں۔

ڈاکٹر ولید کی یہ تحریر تقریباً ایک برس پرانی ہے، تاہم اس وقت بھی یہ العربیہ سائٹ کے مرکزی صفحے پر موجود ہے، جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسے ذہن سازی کے لیے وہاں رکھا گیا ہے۔ اس تحریر سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سعودیہ کے خفیہ سفارتی روابط موجود ہیں، جیسا کہ اس سے قبل عرب امارات اور بحرین سے تھے، جن کا اعلان ٹرمپ کے دور حکومت میں مناسب وقت کو ملحوظ رکھ کر کیا گیا۔ سعودی ولی عہد بھی اس مناسب وقت کا منتظر ہے، جب وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو رسمی شکل دے سکے اور وہی فوائد حاصل کرسکے جو عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے معاہدے کرکے حاصل کیے ہیں، بلکہ اگر ڈاکٹر ولید کی بات کو مانا جائے تو سعودی ولی عہد اس معاہدے اور روابط کی قیادت کرنا چاہے گا۔ یہ صورتحال فلسطینیوں کے لیے ایک مشکل صورتحال ہوگی۔ مسئلہ فلسطین پر مسلم قیادت اور عوام یقینی طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک دھڑا اسرائیل سے سفارتی روابط کی بحالی میں اس مسئلے کا حل تلاش کرے گا جبکہ دوسرا دھڑا جہاد کو اس مسئلے کا حل قرار دے گا۔

یعنی مسئلہ فلسطین اور قدس جو ایک وقت میں مسلمانوں کا نکتہ اتحاد و اتفاق تھا، اب بذات خود وجہ نزاع بن جائے گا۔ جسے ایک طرح سے اسرائیل کی سفارتی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اسرائیل کی یہ سفارتی کامیابی اس وقت تک کامیابی ہے، جب تک اس کے ساتھ معاہدے کرنے والے ممالک پر موجودہ خاندان مسلط ہیں، جیسے ہی حکومتیں بدلیں گی، یہ معاہدے ہوا ہو جائیں گے اور مسئلہ فلسطین زیرو پوائنٹ پر آجائے گا۔ اسرائیل کی یقیناً خواہش ہوگی کہ عرب ریاستوں میں بر سر اقتدار حکمرانوں کا اقتدار مستحکم رہے اور ان کے اقتدار اور مسلم دنیا میں اثر و رسوخ سے استفادہ کرتے ہوئے فلسطینی اور مسلم عوام کو اپنے موقف پر لانے کی کوشش جاری رہے۔ وہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جیسے ہی ان عرب ریاستوں پر  حقیقی مسلمان اور جمہوری حکمران برسر اقتدار آئے، اس کا وجود خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان بالعموم اور برصغیر کے مسلمان بالخصوص اس سلسلے میں ہوشمندی اور دانشمندی کا دامن نہ چھوڑیں، یہی ہمارا تاریخی کردار رہا ہے، جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیئے۔