ملی یکجہتی کونسل کیا ہے؟
سید اسد عباس
ملی یکجہتی کونسل نے پاکستان میں ’’عالمی اتحاد امت‘‘ کے عنوان پر ایک کامیاب کانفرنس منعقد کرکے ایک مرتبہ پھر میدان مار لیا۔ کونسل کی جانب سے اتحاد امت کی موضوع پر کی جانے والی یہ دوسری بڑی کانفرنس ہے۔ پہلی کانفرنس مرحوم قاضی حسین احمد کی سربراہی میں نومبر 2012میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقد کی گئی۔ کنونشن سینٹر میں منعقدہ کانفرنس میں ملک کی مذہبی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ برادر اسلامی ملکوںسے بھی کئی ایک اعلی سطحی وفود نے شرکت کی۔2012 کی کانفرنس میں ملکی جماعتوں کے قائدین اور غیرملکی وفود کے سربراہان نے عالم اسلام یکجہتی اورنشاۃ ثانیہ کے حوالے سے بہت خوبصورت باتیں کیں۔ بلند عزائم کا اظہارکیا گیاتاہم یہ سلسلہ قاضی حسین احمد کی رحلت کے بعد مدھم پڑ گیا یا یوں کہوں کہ اس رفتار سے نہ چل سکا جس کی توقع قاضی حسین احمد کی زندگی میں کی جارہی تھی۔
قاضی حسین احمد مرحوم کی رحلت کے بعد خود کونسل میں بھی پہلے جیسے سرگرمی نہ رہی۔ یہ چیز بدیہی تھی کیونکہ وہ شخصیت جس کے دم قدم سے یہ کارواں، رواں دواں تھا اور جو اس قافلے کی ساربانی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا کے چلے جانے کے بعد ایک مرتبہ قافلے کا فکری طور پر منتشر ہونا فطری تھا۔بہرحال وہ کٹھن دور گزر گیا اور قافلہ ایک مرتبہ پھر نئے عزم کے ساتھ منزل کی جانب چل نکلا۔نیا میر کارواں کیسے منتخب ہوا، قافلہ کیسے ایک مرتبہ پھر فکری طور پر منظم ہوا یہ ایک تفصیلی داستان ہے اور وہ گمنام سپاہی جو اس کاروان کو مجتمع رکھنے کے لیے سرگرم عمل رہے خدا کے ہاں اجر و ثواب کے حقدار ہیں۔
عالم اسلام کے حالات آپ کے سامنے ہیں ۔اسلامی ممالک کے دفاعی ،معاشی اور روحانی مراکز اس وقت دشمن کے حملوں کی زد پر ہیں۔ ان مراکز کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی وبیرونی سازشوں سے ہے۔ افغانستان ،عراق، شام ، مصر ،لبنان، بحرین، یمن اور پاکستان میں مسلمان ،مسلمان کے خون کا پیاسا ہے۔کہیں فرقہ بندی ہے اور کہیں استعمار کے اعلی کار وسائل پر براجمان ہیں۔ ان استعماری ایجنٹوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے بعض ممالک میں فرقہ پرستی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے امت مسلمہ کی قوتوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ایسی گھمبیر فضا میں پاکستان سے اتحاد امت کی آواز بلند ہونا کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کی دینی قیادت کا استعماریت اور فرقہ واریت کے اس غبار میں ایک جگہ مجتمع ہونا اور امت کی یکجہتی کا عزم کرنا جہاں ایک جانب خوش آئند ہے وہیں اس امر کی بھی غمازی کرتا ہے کہ پاکستانی مسلمان نہ صرف با بصیرت ہے بلکہ عالم اسلام کی راہنمائی کی حقیقی اہلیت بھی رکھتا ہے۔
عالمی اتحاد امت کانفرنس میں کئی ایک مقتدر شخصیات نے بھی اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ ہمیں عالم اسلام میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان قائدین کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کی اکثر مذہبی جماعتوں کے عالم اسلام کی متحارب قوتوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ان تعلقات سے استفادہ کرتے ہوئے عالم اسلام کی ان قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں تاکہ ہمارے آپسی اختلافات جو استعمار کے پیدا کیے ہوئے ہیں ختم ہوں۔قارئین کرام یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملی یکجہتی کونسل پورے عالم اسلام میں واحد غیر سرکاری اتحاد ہے جو امت کی ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے سر گرم عمل ہے۔امت کے داخلی مسائل جس میں فرقہ واریت سب سے اہم ہے کو حل کرنے کے عنوان سے ملی یکجہتی کونسل اور اس میں شامل جماعتوں کا عزم نہایت خوش آئند اور امید افزا ہے۔
یہ کونسل امت کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی کس قدر طاقت اور قدرت رکھتی ہے یقینا ایک اہم سوال ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ کونسل کو ابھی عالمی مسائل میں دخالت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنی توجہ داخلی ہم آہنگی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔تنظیم اسلامی کے سربراہ حافظ عاکف سعید جو کہ کونسل کے احیاء کے وقت سے قاضی حسین احمد مرحوم کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں نے اپنے خطاب میں اسی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ عالم اسلام کو درپیش مسائل میں ملی یکجہتی کونسل کوئی کردار ادا کرنے کی حیثیت میں نہیںہے۔ ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ اسلامی ملکوں کے سفارت کاروں سے ملیں اور انہیں جاکر اپنے تحفظات کی جانب متوجہ کریں ۔جبکہ کونسل میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین منجملہ جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ،کونسل کے سابق سیکریٹری جنرل حافظ حسین احمد اور کئی ایک دیگر قائدین کا کہنا تھا کہ ہم اس کونسل کے پلیٹ فارم سے عالم اسلام کی قیادتوں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں اور ہمیں یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔
بعض حضرات کا کہنا تھا کہ ابھی تک ہم اپنے داخلی مسائل کو مکمل طور پر حل نہیں کر سکے تو عالمی سطح پر کیسے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ممکن ہے بہت سے معزز قارئین کی بھی یہی رائے ہو تاہم میرا نقطہ نظر قدرے مختلف ہے۔اس میں شک نہیں کہ کونسل بہت سے معاملات میں ویسی فعالیت سرانجام نہ دے سکی جس کی اس سے توقع کی جارہی تھی۔ میری نظر میں اس عدم فعالیت یا سستی کا بنیادی سبب کونسل کا پلیٹ فارم نہیں بلکہ اس میں شامل وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے مسائل کے حل کے لیے اس پلیٹ فارم پر اعتماد نہ کیا۔میری قلیل معلومات کے مطابق جب بھی کسی معاملے میں اس پلیٹ فارم کوبھرپور مینڈیٹ ملا تو نتائج ظاہر ہوئے۔ اس حوالے سے چکوال ، اٹک اور راولپنڈی کے سانحات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔اسی طرح بلوچستان کی مذہبی قیادت جب اپنے فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لیے کونسل کی جانب بڑھی تو کونسل کی قیادت نے اس کا خیر مقدم کیا اوراب بہت جلد ملی یکجہتی کونسل کا باقاعدہ نظم بلوچستان میں فعال ہونے والا ہے۔
یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ اس پلیٹ فارم کے تمام تر اختیارات بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ ہیں ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مشترکات کی بنیاد پر دینی جماعتوں کی مشاورت سے اعلی اسلامی اہداف کے لیے حرکت کرنا نیز اختلافی مسائل کے حل کے لیے اقدام کرنا اس کونسل کے لیے فقط اس وقت ممکن ہے جب تمام دینی جماعتیں یا اختلاف کے حامل گروہ اس پلیٹ فارم پر اعتماد کا اظہار کریں اور اسے کے اقدامات کو قبول کریں۔یہ شکوہ کہ یہ پلیٹ فارم کسی خاص مکتب کے حقوق کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا گیا ہے سراسر ناانصافی اور حقائق سے ناآگاہی کی بنیاد پر ہے۔ کونسل کا کوئی بھی فیصلہ اس میں شامل جماعتوں کے قائدین کی مرضی اور مشاورت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہر گروہ کو بات کرنے اور اپنا موقف پیش کرنے کی آزادی ہے۔ اس کونسل کا حسن بھی یہی ہے کہ فسادات کا حل مذاکرات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کونسل کا مصالحتی کمیشن ہمیشہ متاثرہ مسالک کے نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی ایسی مثال پیش کی جاسکے جس میں کونسل کومکمل اختیار دیا گیا ہو اور وہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہو۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس الہی نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ ہمارے اختلافات چاہے کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں کو اس پلیٹ فارم پر زیر بحث لائیں۔ ہر ہر معاملے پر بات چیت کریں وہ معاملات جو علمی نوعیت کے ہیں پر بھی گفت و شنید کریں تاکہ ہمارا معاشرہ متشدد فرقہ بندی کے ماحول سے نکل آئے۔ہمیں اپنے گروہی، فرقہ وارانہ، نظریاتی اوروابستگیوں سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی اس پلیٹ پر اعتماد کرنا ہوگا۔ ہمیں ملک سے فحاشی ، عریانیت ، کرپشن ، اقربا پروری ، لادینیت اور اسی قسم کی دیگر معاشرتی برائیوں کے خلاف جنگ اسی پلیٹ فارم پر لڑنا ہوگی ۔ الگ الگ محاذوں پر بہت لڑائی ہو چکی اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارا دشمن ہماری دوری کو ہی ہتھیار بنا کر ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے ۔ملک کے اکابر علماء نے کل دین کی بالادستی کے لیے بائیس نکات پیش کرکے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان بائیس نکات کو اپنا منشور اور ہدف بناتے ہوئے دین کی سربلندی کے لیے یکجان ہوکر قدم بڑھائیں۔یہی قاضی حسین احمد کا خواب تھا ۔ یہی دین مبین کا تقاضا ہے اور یہی پاکستانی عوام کی آرزو ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پیغام وحدت عوام تک پہنچا ہے؟ https://albasirah.com/urdu/kia-pegham-e-wahdat-awam-tak-puhncha/
Share this content: